وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی زیر صدارت ہوا ،جس میں2018ء کی پالیسی کے تحت 89ادویات کی قیمتوں میں 15فیصد کمی کی منظوری دی گئی جبکہ ایل او سی پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے متاثرہ افراد کی مدد و بحالی کا پیکیج بھی منظور کیا گیا۔ جس میں ایل او سی پر بسنے والے 3982گھرانوں میں 67کروڑ روپے کی امداد تقسیم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ احساس کفالت پروگرام کے تحت وظیفہ کی رقم پانچ ہزار سے بڑھا کر ساڑھے پانچ ہزار کرنے اور بینظیر سپورٹ پروگرام میں شامل غیر مستحق افراد کو خارج کرنے کی منظوری بھی دی گئی ہے۔ 2018ء میں ادویات کی قیمتوں میں یکمشت 400فیصد تک اضافہ کیا گیا جس نے غریب مریضوں کو بے حد متاثر کیا۔ دراصل یہ اضافہ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی بنا پر تھا۔ ادویات ساز کمپنیوں نے خود ساختہ اضافہ کر کے غریب آدمی کو مشکلات سے دوچار کیا، تب وزیر اعظم پاکستان نے نوٹس لے کر 72گھنٹوں میں ادویات کی قیمتوں میں کمی کا حکم دیا، جس پر وزارت صحت نے اجلاس بلا کر قیمتوں میں اضافے کا جائزہ لیا‘889ادویات کی قیمتوں پر غور کیا گیا‘ جس کے بعد 464ادویات کی قیمتوں میں اضافہ برقرار رکھا گیا جبکہ 395ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی اور 30ادویات کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی۔ اس اعلان کے بعد اکثر میڈیکل سٹورز پر اضافے کے ساتھ ہی ادویات فروخت ہوتی رہیں، اب وفاقی کابینہ نے 89ادویات کی قیمتوں میں صرف 15فیصد کمی کی منظوری دی ہے جو غریب عوام کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے کیونکہ قیمتوں میں اضافہ 400فیصد تک کیا لیکن عوام کو ریلیف دیتے وقت صرف 15فیصد پر اکتفا کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ پہلا سال مشکل تھا2020ء ترقی کا سال ہو گا اگر حقیقت میں ترقی ہو گی تو اس کے ثمرات عوامی دہلیز تک بھی آنے چاہئیں۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں بے پناہ اصافہ ہو چکا ہے۔ غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دودھ ‘ دہی ‘ آٹا‘ سبزیاں،دالیں اور مصالحہ جات کی قیمتوں پر سبسڈی دے کر غریبوں کی مشکلات دور کی جائیں۔یوٹیلیٹی سٹورز پر پہلے یہ اشیا آسان نرخوں پردستیاب ہوتی تھیں لیکن اب وہاں سے بھی غائب ہیں۔ حکومت نے نومبر کے وسط میں اعلان کیا تھا کہ دسمبر کے شروع میں 5اشیاء ضروریہ پر سبسڈی دی جائے گی۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت وہی پانچ اشیاء ضروریہ یوٹیلیٹی سٹورز سے غائب ہیں۔ موجودہ حکومت نے عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے اور انہیں ریلیف فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ڈیڑھ سالہ مدت میں حکومت اپنے منشور پر عملدرآمد کرانے میں مکمل طور میں ناکام نظر آئی ہے۔ دراصل وزراء جب تک گرم کمروں سے نکل کر بازاروں‘ مارکیٹوں اور گلی کوچوں کے دورے نہیں کرینگے تب تک نچلی سطح تک ریلیف پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ وزراء کرام ووٹ حاصل کرنے کے لئے کچی آبادیوں سے لے کر جوہڑوں اور جھونپڑیوں میں چلے جاتے ہیں لیکن عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے موقع پر وہ ان آبادیوں کا رخ کرنے سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم عمران خان اس کا نوٹس لیں اور عوام کو ہر حال میں ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کریں۔ انصاف صحت کارڈ غریب لوگوں کو دینے کا اعلان کیا گیا لیکن ابھی تک اس کارڈ کی ترسیل نہیں ہوئی۔ حکومت اگر ادویات کی قیمتوں میں خاصر خواہ کمی نہیں کر سکتی تو کم از کم غریبوں کو انصاف صحت کارڈ ہی دے دے تاکہ بیماری کی صورت میں غریب آدمی کو اپنے علاج ومعالجے آسانی سے ہو ۔ ایل او سی پر بسنے والے شہری آئے روز دشمن کی بلا اشتعال اندھا دھند فائرنگ کا سامنا کرتے ہیں، ان کے مکانات اور مال مویشی فائرنگ کی زد میں آتے ہیں، ان کی مدد ریاست پر فرض ہے حکومت ان کے نقصانات کا جائزہ لگا کر ازالہ کرے۔ ایل او سی پر بھارتی فائرنگ سے کئی لوگ شہادت کا جام پیتے ہیں ۔ گو مالی معاونت زندگی کا نعم البدل نہیں ہو سکتا لیکن شہدا کے خاندانوں کی دل جوئی کے لئے ان کی مالی معاونت کرنا ان کی حوصلہ افزائی کے لئے ضروری ہے حکومت نے اس سلسلے میں 67کروڑ روپے کا پیکج بنایا ہے لیکن سب سے اہم کام اس رقم کا متاثرہ خاندانوں تک پہنچانا ہے ہمارے ہاں اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ متاثرین زلزلہ اورسیلاب کی امداد سرکاری ادارے ہڑپ کر لیتے ہیں یا پھر اس علاقے میں سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے افراد اپنے لوگوں کو رقم دلوا لیتے ہیں جو متاثرہ نہیں ہوتے جس کے باعث متاثرہ فریق کو دہری اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایل او سی پر بھارتی فائرنگ سے متاثرہ افراد کا پہلے سروے کیا جائے اس کے بعد رقم کی تقسیم کا کام شروع کیا جائے تاکہ مستحقین تک یہ پیسے پہنچ سکیں۔2008ء سے لے کر 2018ء تک دس برسوں میں مسلم لیگ( ن)اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے دور میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اربوں روپے غریبوں میں تقسیم کئے ہیں لیکن بدقسمتی سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں دونوں جماعتوں نے 8لاکھ بیس ہزار ایک سو پینسٹھ ایسے افراد کو شامل کر رکھا تھا جو اس پیسے کے مستحق ہی نہیں تھے۔ وفاقی کابینہ نے ایسے افراد کو اس سکیم سے نکالنے کی منظوری دی ہے اس سے اب صرف مستحق افراد کو ہی مدد جاری ہو سکے گی۔ ماضی میں بینظیر سپورٹ پروگرام سے اپنے کارکنوں کو نوازا گیا جبکہ مستحق غریب افراد دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ موجودہ حکومت نے احساس کفالت پروگرام شروع کیا ہے، جس میں ساڑھے پانچ ہزار روپے مستحق افراد کو دیے جائیں گے۔ حکومت پیسے دینے سے قبل اس بات کی خوب تحقیق کرے کہ آیا وہ واقعی مستحق افراد کو پیسے دے رہی ہے یا پھر اس پروگرام میں بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح بہروپئے شامل ہو چکے ہیں۔ اگر اس کی پہلے ہی تحقیق کر لی جائے تو پھر پیسے ضائع ہونے سے بچ جائیں گے اور صرف مستحق افراد تک حکومتی پیسہ پہنچے گا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے سروے کر لیا جائے تاکہ مستحق افراد کا علم ہو سکے۔