وولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز میں جنوبی ایشیا کے لئے سینئر ایسوسی ایٹ اور ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے 2022ء کو پاکستانیوں کے لئے ’’ڈراونا خواب‘‘ قرار دیا ہے اور پیش گوئی کی ہے کہ پاکستانی رواں سال 2023ء سے بھی بہتری اور رحم کی کوئی امید نہ رکھیں۔ مائیکل کوگل اس ڈرائونے خواب کی وجہ ان معاشی اور قومی سلامتی کے چیلنجز کو قرار دیتے ہیں جو ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین ایک تقرری پر اختلاف کی بنا پر سیاسی عدم استحکام کا سبب بنے۔کوگل نے جو تفصیلات لکھی ہیں کا ذکر اس لئے ضروری نہیں کہ حیدر علی آتش کہہ چکے: نہ پاک ہو گا حسن و عشق کا جھگڑا وہ قصہ ہے کہ جس کا گوئی گواہ نہیں حسن و عشق کے اس جھگڑے کا بھلے ہی کوئی گواہ نہ ہو مگر اس کی قیمت 23کروڑ عوام کا خون نچوڑ کر وصول کی جا رہی ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح میں مجموعی طور پر 30.60فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ملکی اور غیر ملکی ماہرین معاشیات کے مطابق حقیقی مہنگائی اس سے کہیں زیادہ ہے۔یونیورسٹی آف جان ہاپکنز سے وابستہ مشہور ماہر معاشیات پروفیسر سیٹوہین کے نے اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں اکتوبر 22 20ء میں مہنگائی کی شرح 44 فیصد تھی گزشتہ تین سال میں اشیاء ضروریہ کی قیمتیں دوگنی ہو چکی ہیں۔ لوگ خودکشیوں پر پہلے ہی آمادہ تھے مگر حالیہ سیلاب اور معاشی بحران نے پاکستانیوں کو زندہ درگور کر دیا ہے۔ یہ بحران کیوں پیدا ہوا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق معاشی اور موجودہ قیامت خیز مہنگائی کی جڑیں 2013ء سے 2018ء کی معاشی پالیسی میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کئے رکھا۔ رپورٹ کے مطابق 2013ء سے 2017ء تک ڈالر کو مجموعی طور پر 105روپے تک محدود رکھا گیا اس کے لئے قرض کے ڈالر مارکیٹ میں جھونکے گئے۔اس لئے پاکستان کے امپورٹ سستی اور ایکسپورٹ مہنگی ہو گئیں۔تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا۔2018ء میں تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد ڈالر کی حقیقی قدر بحال کی تو ڈالر کو ’’پر‘‘ لگنا شروع ہوئے ۔حقیقی قیمت پر ڈالر ملنے سے امپورٹ مہنگی ہوئی اور قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔ حکومت نے تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے ٹیکس بڑھایا تو ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قرضوں کا بوجھ بڑھا۔ غیر ملکی ادائیگیوں کے لئے مزید قرض لینا پڑا اور پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔رہی سہی کسر سیاسی عدم استحکام نے پوری کر دی اورملکی اکائونٹ خسارہ 4ملین ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ نئی حکومت نے معاشی حالات سنبھالنے کے لئے ہاتھ پائوںمارنا شروع کئے۔ مفتاح اسماعیل نے جادوگری سے انکار کیا تو ان کو ہٹا کر اسحاق ڈار کو میدان میں اتارا گیا مگر غیر ملکی ادائیگیوں کا بوجھ اور ڈالر کا دبائو ان کے بوڑھے کندھوں نے بھی اٹھانے سے انکار کر دیا۔ اسحاق ڈار قرض کی مے پی کر جس فاقہ مستی کے رنگ لانے کی امید قوم کو دلائے ہوئے تھے اب اس مے کا خمار اتر رہا ہے اور سردرد شروع ہو چکا ہے۔پاکستان پر 130بلین ڈالر کا غیر ملکی قرض ہے۔ پاکستان کو اگلے تین سال میں 73بلین ڈالر قرض کی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ڈیفالٹ کے خوف سے ملکی معیشت تباہ ہوچکی ہے۔ سرمایہ دار ملک سے بھاگ رہا ہے۔لارج سکیل مینوفیکچرنگ انڈسٹری اپنے آپریشن بند کر رہی ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پاکستانی معیشت کے لئے آکسیجن کا کام کرتی تھی 80فیصد بند پڑی ہے، 9لاکھ مزدور صرف ٹیکسٹائل سیکٹر میں بے روزگار ہو چکے ہیں۔ بھوک کا خوف برین ڈرین میں اضافہ کر رہا ہے 2022ء میں 7لاکھ پڑھے لکھے پاکستانی ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ۔ اسحاق ڈارجادو کی چھڑی لے کر آئے تھے مگر ڈالر کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کے لئے ڈالر نجی بنکوں سے ادھار مل رہے ہیں نا ہی بیرونی مالیاتی ادارے اعتماد کرنے کے لئے تیار ہیں۔دوست ممالک بھیک دیتے دیتے عاجز آ چکے ہیں یا پھر عدم استحکام پیدا کرنے والوں کے اشارہ کے منتظر ہیں۔ حیدر علی آتش کے مصداق: برہمن کو باتوں کی حسرت رہی خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا پی ڈی ایم اتحاد کے برہمن جن بتوں کے گویا ہونے کی حسرت لیے بیٹھے ہیں وہ عالمی مالیاتی اداروں کے ’’خدائوں‘‘ کے اشارہ ابرو کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ مالیاتی بت اپنے ’’خدا‘‘ امریکہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ کہ امریکہ سب سے پہلے اپنے مفادات کو دیکھتا ہے ، نوبت با ایں جا رسید کہ اب ہم اپریکہ سے درخواست کرتے پھر رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف سے ہمارے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔بتوںکی باتوں کی حسرت نے پاکستان کو اس بند گلی میں لاکھڑا کیا ہے جس کا خدشہ محب الوطن افراد کی طرف سے کیا جا رہا تھا ۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان کو ایک منصوبے کے تحت معاشی بحران کی طرف دھکیلا جا رہا ہے تاکہ معاشی طوق گلے میں ڈال کر اپنے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔ اہداف وہی ہیں جن کے بارے میں عمران خان نے ’’ ابسیوٹلی ناٹ‘‘ کہنے کی ’’گستاخی‘‘ کی تھی ۔ کوگل مین نے معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کو قومی سلامتی کے لئے چیلنج یونہی نہیں کہا۔ حکومت کے ڈالر بچانے کی غرض سے ایل سیز بند ہونے کی وجہ سے صرف اشیاء ضروریہ کے خام مال کی درآمد ہی بند نہیں ہوئی ہم اپنی اپنی انا کی لڑائیوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک انکار کی قیمت ادا کر رہا ہے تو حکمران اتحاد ماضی کی کرپشن کے 400ارب کے کیس ختم کروانے کے بعد یہ ان مقدمات کا انتقام پاکستان سے لے رہے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ عجب کرپشن کی غضب کہانیاں گھڑنے والے کون تھے؟ مگر عجب کرپشن کی غضب کہانیوں کی قیمت پاکستان اور پاکستانیوں کو ادا کرنا پڑے گی جو آتش کی مانند دھائی دے رہے ہیں: آتی ہے کس طرح سے مرے قبض روح کو دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا