رجب المرجب 1444ھ کا چاند دیکھنے کے لیے اتوار شام ، ایوانِ اوقاف کی آٹھویں منزل پر ، سرد ہواؤں کا سامنا تھا، جو کہ اگرچہ شدید تھیں تاہم اُن میں ایک تبدیلی کا احساس موجزن تھا، عزیزم جاوید شوکت نے کہا کہ ہمارے دیسی ماحول اور دیہاتی کلچر میں اس کو ’’نروئی ہوا‘‘کہتے ہیں، جس کی برکت سے بیماریوں سے چھٹکارا بالخصوص نزلہ ، زکام، بخاراور موسمی اثراتِ بد سے رہائی نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ مغرب کی نمازکا اہتمام ہمیشہ اسی ٹاپ فلور پر ہوتا ہے، تاہم آج چٹائیاں سمیٹتے ہوئے، کمیٹی روم ہی میں صف بستہ ہونے میں عافیت جانی گئی ۔ رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ محکمہ موسمیات ، وزارتِ سائنس ، سپارکو، اور وفاقی وزارتِ مذہبی امور کے نمائندگان کی موجودگی اس فورم کو وقیع اور معتبر بنا دیتی ہے، اجلاس کا دورانیہ بالعموم گھنٹہ، سوا گھنٹہ پر محیط ہونے کے سبب ، بات سے بات نکلتی اور چراغ سے چراغ جلتا رہتا ہے،اس دوران ضلعی رویتِ ہلال کمیٹیوں سے اطلاعات موصول ہونے کے ساتھ، محکمہ موسمیات کی صوبہ بھر میں موجود رسدگاہیں چاند کی رویت اور عدم رویت کی اطلاع بہم پہنچاتی،اور یہ سلسلہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے متصل اور منسلک ہو جاتا ہے ۔ اجلاس کے اختتام پر خطیب اعظم خانقاہِ معلّٰی حضرت علی ہجویریؒ نے دعا سے سرفراز کیا اور پیش آمدہ ماہِ مبارک کے ابتدائی ہفتہ میں خواجہ خواجگان، خواجہ غریب نواز کے 811ویںعرس اور آپؒ کے افکار و احوال سے استفادے کی التجا و مناجات بھی کی۔ 13رجب ، مولودِ کعبہ اور ستائیسویں شب ، معراج النبیﷺکی برکات کی یاد دہانی ابھی مدہم ہونے نہ پائی تھی، کہ جامعہ منہاج الحسین کے پرنسپل علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے یکم رجب المرجب کوسیّدنا امام محمد باقرؑ جن کے علوم و معارف کی وسعت اور گہرائی نے، امام اعظم ابو حنیفہؒ جیسی ہستیوں کو بھی سیراب کیا،کے یوم ولادت کا سندیسہ اور 4؍رجب کو نقوی و بخاری سادات کے سرخیل سیّدنا امام علی النقی کے یوم شہادت کی یاددہانی کرواتے ہوئے ، پانچ سال قبل سامرہ میں ان کے مزارِ گوہر بار کی حاضری کی یاد تازہ کروائی ۔ راقم کا شجرۂ نسب 32واسطوں سے حضرت امام علی نقی الہادی تک پہنچتا ہے، بنا بریں سامرہ میں ان کے درِ اقدس کی حاضری کے نقش ہمیشہ حرزِ جاں رہتے ہیں۔ سامرہ (عراق) کا مشہور شہر ہے، جہاں ائمہ اہل بیت میں سے نویں امام حضرت امام علی النقی اورامام حسن العسکری کا مزارِ مقدس ہے، جو دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے تکریت اور بغداد کے درمیان واقع ہے ۔اس کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے بہت سے اقوال موجود ہیں تاہم "سُرَّ مَن رَأی"( جس نے اسے دیکھا وہ خوش ہوا ) سے مشتق ہونا زیادہ معتبر ہے ۔ عباسیوں کا پایۂ تخت بغداد تھا ،جہاں ترک اور بربر سپاہیوں کی بغاوتوں کے خطرہ کے پیش نظر ،ایک ایسے شہر کی ضرورت محسوس کی گئی ،جہاں یہ خطرہ نسبتاً کم ہو، چنانچہ خلیفہ المعتصم کے عہد ، سال 221ھ /836ء میں سامرہ کی بنیاد رکھی گئی اور 221ھ /836ء تا276ھ /889ء کے مابین سات عباسی خلفا سامرہ میں مقیم رہے ۔ عجب اتفاق کہ عباسی خلفاء بالخصوص المتوکل کے عظیم الشان محلات اور عمارات کھنڈرات کی شکل میں یوں گویاہیں کہ : دن کو بھی یہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے سامرہ کسی دنیاوی بادشاہ کی نسبت سے معروف نہ ہو سکا بلکہ یہ شہر آئمہ اہل بیت کی اُولو العزم اورجلیل القدر ہستی حضرت سیّدنا امام علی النقی کے مزارِ اقدس کے سبب معتبر اور مقدس ہے ۔پانچ سال قبل، آپ کے مزار کی زیارت کے لیے کربلا معلی سے ہمارا وفد دو گاڑیوں پر 8مئی 2018ء کی خوشگوار صبح کو روانہ ہوا۔ عمومی طور پر اس خطہّ کا موسم وسطی پنجاب جیسا ہی ہے ، العتبہ الحسینیہ کی طرف سے (دو عدد پجاروں ۔جی ایم سی اور KIA) بمعہ پروٹوکول افسر ہمراہ ہوا۔ وطنِ عزیز کی معروف درسگاہ جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی،سلسلہ چشتیہ کی معروف روحانی شخصیت خواجہ غلام قطب الدین فریدی، نجی ٹی وی کے براڈ کاسٹر اور ذیشان بٹ کی معیت ہمیں گاڑی میں میسر تھی جبکہ دوسری گاڑی میںجامعہ منہاج الحسین لاہور کے پرنسپل علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر قیادت کر رہے تھے ۔ کربلا مُعلی سے کچھ ہی فاصلے پر نہر فرأت اپنی بھر پور روانی کے ساتھ بہہ رہی ہے ۔ عراقی انگریزی زبان سے مکمل پرہیز کرتے اوران کی عربی ذرا سمجھنے میں ہمیں دقّت ہوتی ہے ، تاہم ’’خمسہ دقیقہ‘‘یعنی پانچ منٹ کے اعلان ساتھ ہی نہر فرات پر گاڑیاں رُک گئی۔ ذہن کے کینوس پر حضرت اقبالؒ کا یہ شعر جلوہ گر ہو گیا : قافلۂ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے تابدار ابھی گیسوئے دجلہ و فرات عربی میں نہر دریاکو کہتے ہیں ۔دجلہ اور فرات عراق کے دو مشہور دریاہیں ، دجلہ کم چوڑا اور زیادہ گہرا ہے ۔اس کے پانی میں روانی اور رفتار میں تیزی ہے ،جبکہ فرأت زیادہ چوڑا اور اپنے بہائو میں پُر سکون بلکہ بغداد میں اس کا نظارہ قدرے لاہور کے راوی جیسا ہے ۔ خطّے کی آبپاشی کا زیادہ تر انحصار انہی دریائوں سے متصل نہری نظام سے ہے، اگرچہ ہریالی کم اور سبزہ نہ ہونے کے برابر ہے ، تاہم کھجوروں کے باغات اوردرختوں کی طویل قطاریں شاہرائوں کے گرد ا گرد، دعوتِ نظارہ دے رہیں تھیں ۔ ہماری گاڑیاں سبک رفتار اور ڈرائیور انتہائی مستعد تھے، عراق میں امن وامان کی مجموعی صورتحال کو مستحکم رکھنے کیلئے اس وقت بھی جگہ جگہ پولیس چیک پوسٹیں قائم تھیں، اگرچہ اس سلسلے میں کہیں دقت کا سامنا نہیں تھا تاہم عام آدمی کی دشواریوں کا ادراک کیا جاسکتا تھا ۔ عراق کی اقتصادی اورمعاشی حالت کو گیارہ سالہ ایران ، عراق جنگ ،کویت تنازع اور پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگی کارروائیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بین الاقوامی مقاطعہ اور خطّے کے نامساعد حالات کے باوجود قوموں اور ملکوں کو اپنی بقا کے لیے آگے بڑھنا ہی ہوتا ہے ۔ عراق بھی اس وقت ایسے ہی حالات سے گزر رہا تھا۔ عراقی دینار کی حالت دیکھ کر پاکستانی روپیہ معتبر محسوس ہوا ۔ اس وقت ایک ہزار روپیہ کے دس ہزار عراقی دینار ہاتھ لگے ۔ تاہم وہاں کی خریداری میں سو کا نوٹ تقریباً ختم ہی ہوچکا ہے ، خرید وفروخت ہزاروں سے شروع ہو کر لاکھوں تک جاتی ہے ۔ کربلا سے بغداد کا فاصلہ ، جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرتے ہوئے بلا توقف سامرہ کی طرف روانہ ہوئے ،جو بغداد سے 130کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے ،ان دنوں سامرہ داعش کی کارروائیوں کا شدید اور سنگین ہدف ہونے سبب سیکیورٹی فورسز کے خصوصی حصار میںتھا، بالخصوص حضرت امام علی النقی اور امام حسن العسکری کے مزارات ان کارروائیوں میں خاص طور پر نشانہ پرتھے ، جس کے اثرات اب بھی محسوس کیے جاسکتے تھے ۔ حضرت امام علی النقی الہادی … حضرت امام علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور امام محمد الجوادالتقی کے صاحبزادے ہیں ، آپ کی ولادت رجب 214ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی ، کنیت ابوالحسن ،القاب ہادی ، متوکل ،ناصح ، متقی،مرتضیٰ،فقیہ،امین،طیب اور سب سے مشہور لقب ہادی تھا۔ اہل بیت اطہار کی نسبی وخاندانی وجاہت ، فطری ذکاوت اورعلمی شہرت وشرافت کی وجہ سے حکمران خائف رہتے اور ان پر کڑی نظر رکھتے… معتصم نے بھی اہل بیت اطہار کے گل سر سید سیّدنا علی ہادیؓ کو اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں 253ء میں مدینہ منورہ سے نقل مکانی کرکے سامرہ میں اقامت پذیر ہونے پر مجبور کر دیا۔حضرت سیّدنا اما م علی نقی ؓ علوم نبوت کے امین، سخاوت وشجاعت کا پیکر اور بابِ مدینۃ ُ العلم کے فیضانِ عالیہ سے متصف تھے، اسی لیے آپ کے فرمودات اور اقوال اُمت کے لیے ہمیشہ مینارہ نور کی حیثیت سے جگمگاتے رہیں گے، آپ فرماتے ہیں۔حسد حسنات اورنیکیوں کو مٹا ڈالتا ہے اور بغض ونفرت کو اپنا تا ہے،انسان کا اترانا،اس کو طلب علم سے روک دیتا اور پستی اورجہالت کی طرف لے جاتا ہے۔آپ فرماتے ہیں ،مذاق اور تمسخر بے وقوفوں کی خوش طبعی اور جاہلوں کا ہنر ہے۔ والدین کی نافرمانی اپنے پیچھے قلت اسباب لاتی اور ذلت تک پہنچاتی ہے۔بعض روایات کے مطابق آپ کا یوم شہادت 25جمادی الثانی اور ایک روایت کے مطابق 3رجب 254ہجری، خلیفہ مستنصربن متوکل کے عہد حکومت میں ہے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ خلیفہ مستنصر نے امام عالی مقام کو زہر دے کر ہلاک کیا اور سامرہ میں دفن کرایا۔