پاکستان کے عوام کی اکثریت معاشی پسماندگی کے ساتھ ساتھ جذباتی تنزلی کا بھی شکار ہے اسکی وجہ سے وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو کر مشتعل ہو کر اپنا نقصان کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم اکثر معاملات میں ہوش و خرد کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور ٹکراؤ کی راہ پر لمحے میں چل پڑتے ہیں اور پھر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ٹکراؤ کوئی ذات کے اندر ہی ہوا ہے بکھرا جو پڑا ہے مرا ملبہ مرے آگے پاکستان میں رائج شدہ نظام معیشت کا سانچا ایسا ہے کہ اس ملک کی محدود اقلیت کی بے تحاشا دولت کی ہوس نے غریب طبقے کے لوگوں کو شدید مایوسی اور ریاست کے ساتھ بیگانگی کا رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی ایجی ٹیشن میں شامل ہو کر ریاست کی ان املاک کو بھی تباہ و برباد کر نا شروع کر دیتے ہیں جو ان کی اجتماعی فلاح و بہبود کے لئے بنائی گئی ہوتی ہیں اور وہ سمبلز آف سٹیٹ بھی تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں جو پوری قوم کے لئے قابل تعظیم ہوتے ہیں اور عوام کی اکثریت کی ان کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے جیسے شہداء کی یادگار یں اور جناح ہاؤس پوری قوم کو عزیز ہیں ان کو نقصان پہنچانا نا قابل برداشت جرم ہے مگر ایسی انتہا پسندی کا ہمیشہ ایک پس منظر ہوتا ہے وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا ہمارے ملک کا بالائی طبقہ بڑا کاریگر ہے۔ ایک تو اس کی دولت بٹورنے کی ہوس کا سلسلہ لامتناہی ہے ان کے اندر لالچ، نفسا نفسی، سفاکی، کے جذبات اور احساسات ہر وقت پھلتے پھولتے رہتے ہیں تو دوسری طرف چونکہ یہ نودولتیے ہیں اور غریب کی نفسیات سے واقف ہوتے ہیں تو جب بھی غریب طبقہ ظلم انصافی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو یہی ا استحصالی بالا ئی طبقے کے لوگ ان غریبوں کے ہمدرد بن کر اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر نا شروع کر دیتے ہیں۔ شہباز شریف حبیب جالب کے انقلابی اشعار پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ عمران خان حقیقی آزادی کے نعرے لگا کر ممولے کو شہباز سے ٹکرا دیتا ہے کیونکہ ہمارے مزاحمتی شعراء کے بعض اشعار بھی ان کے دل ودماغ میں سیاسی رہنما گرمائے رکھتے ہیں کہ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں اسی اضطراب کو لے کر ماضی کا نوجوان کبھی سرخ انقلاب کے لئے تاریک راہوں میں مارا گیا تو کبھی افغانستان میں سویت یونین کے خلاف امریکی سپانسر ڈ جہاد کا ایندھن بنا۔ وہی اسامہ بن لادن امریکہ اور ہمارا ہیرو تھا مگر جب وہ امریکہ کے خلاف ہوا تو 9/11 کے بعد وہ دہشت گرد ٹھہرا اور یکدم ہماری نسل کے جہادی دہشت گرد ٹھرے مگر وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ شامل ہو کر بندوق کے زور پر پر ہی سیاست کرتے رہے۔ بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک ملک میں گھیراؤ جلاؤ کی کوئی حد نہیں بے نظیر کے قتل پر سرکاری املاک اور ریل گاڑیاں جلائی گئیں۔ ہمارے ہاں سیاست میں ہمیشہ جنگ وجدل کا کلچر رہا ایم کیو ایم کا ملٹری ونگ، بلوچ لبریشن آرمی اور طالبان کے کئی گروہ ہماری سیاسی مذہبی جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ تو ریاست نے بہت سارے نان سٹیٹ ایکٹرز کو موجودہ حالات میں خود ختم کر دیا ہے مگر کہتے ہیں کہ چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی __ایسے لوگ تحریک انصاف جیسی سیاسی جماعتوں کے ہروال دستے بن کر سیاسی تحریکوں کو تشدد اور گھیراؤ جلائوؤکی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ قیادت کا ناک اور کان بن جاتے ہیں دشمن کے ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے بھٹو، بے نظیر، نواز شریف اور عمران خان جیسے پاپولر لیڈرز کو المناک انجام کا شکار کر دیتے ہیں ۔آج ہم ایک ایسی صورت حال کا شکار ہیں جہاں محبت اور اخوت کے جزبات کی جگہ نفرت اور حقارت نے لے لی ہے۔ متحارب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ملک کو تباہی اور بربادی کے دہانے پر لیجا چکیں ہیں ،معاشرے میں معاشی، جذباتی اور سماجی ناآسودگی، سیاسی انتشار اور عدم تحفظ کے باعث نوجوانوں کے دلوں اور دماغوں میں موجودہ سسٹم اور سٹیس کو کے خلاف نفرت اور بیزاری انہیں تخریب کاری کی طرف راغب کر رہا ہے ہمارے رہنماؤں کے پاس کوئی ایسا انقلابی پروگرام نہیں ہے جو ہماری ناراض نسل کے دلوں میں سے اداسی اور بیگانگی کو ختم کر کے ان کی صلاحیتوں کو تعمیر وطن کی طرف لگا دے پہلے غریب نوجوان معاشی مجبوری اور مذہب کی ناقص تشریح پر راہ راست سے بھٹکتا تھا مگر 9 مئی پر تشدد ہنگاموں میں اپر مڈل کلاس کے نوجوانوں اور خواتین کے اندر باغیانہ جذبات کا پیدا ہونا ہمارے حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے اورسیز پاکستانیوں کو بھی غلط معلومات پر اپنے ریاستی اداروں کے خلاف نہیں ہونا چاہیے اس کی بڑی وجہ اس ملک کی موجودہ حکومت ہے جس نے الیکشن نہ کروا کے سپریم کورٹ کی حکم عدولی کی ہے اس وجہ سے پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف بغیر سوچے سمجھے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا گئی اور اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہے مگر کون تحریک انصاف کو تحلیل کر رہا ہے ملک کی معیشت تباہ برباد مگر حکومت اسی فتح کے نشے میں بھنگڑے ڈال رہی ہے کہ عمران خان بم کو دولتی مار کر راندہ درگاہ ہوگیا مگر معیشت کب ٹھیک ہو گی اسحاق ڈار ڈالر کو دو سو سے نیچے کب لاے گا ۔عمران کے دور میں معیشت 5.95 فیصد پر ترقی کر رہی تھی آج0.5 فیصد پر ہے لہذا فوج سے محبت ساری قوم کرتی ہے وزیراعظم یہ بتائیں تو ادھر اْدھر کی بات نہ کر بتا کہ قافلہ کیوں لٹا مجھے راہزنوں سے گلہ نہیں، تیری راہبری کا سوال ہے