بقا کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لئے زمانہ کچھ نہیں کرتا‘ کبھی‘ کسی کے لئے الفاظ چبائے بغیر عمران خان نے وہ سب کچھ کہہ دیا جو نیو کلیئر پاکستان کے وزیر اعظم اور ایک کروڑ بیس لاکھ کشمیریوں کے ’’سفیر‘‘ کو کہنا چاہیے۔ قوم سے عمران خان کے خطاب میں ٹیپ کا بند یہ تھا ’’کوئی ہمارے ساتھ کھڑا ہو نہ ہو ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘ ہم آخری سانس تک کشمیریوں کا ساتھ دیں گے‘‘ وزیر اعظم نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا‘ بین الاقوامی برادری اور طاقتور ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ کو اس کے فرائض یاد دلائے اور ایٹمی جنگ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ یہ اتمام حجت ہے صرف اقوام متحدہ‘ عالمی برادری اور عالم اسلام پر نہیں بلکہ اپنی قوم پربھی‘ جو روزانہ حکومت کو کمزوری‘ سہل پسندی اور بے عملی کے طعنے دیتی اور کچھ کر دکھانے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اگلے جمعہ کو بارہ بجے طورخم سے کراچی اور واہگہ سے چمن تک کروڑوں جیتے جاگتے انسان گھروں‘ دفتروں‘ کاروباری و تجارتی مراکز اورکارخانوں سے باہر نکل کر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہو کر بھارت اور دنیا بھر کو یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ اور کوئی ہونہ ہو پاکستان ‘ستم رسیدہ عوام کے ساتھ ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے کشمیریوں کے قاتل‘گجرات کے قصائی نریندر مودی کی پذیرائی کر کے کشمیری اور پاکستانی عوام کے سینے چھلنی کئے‘ عربوں کی روائتی مردانگی‘ اسلامی اخوت اوردور اندیشی کا تصور پاش پاش کیا اور یہ تاثر ابھارا کہ دور جدید کے عرب پرلے درجے کے موقع پرست ‘ ناعاقبت اندیش اور کودن ہیں‘ حقیقی دوست دشمن کی تمیز سے محروم اور ظاہری چمک دمک کے دلدادہ ۔ واجپائی یا من موہن سنگھ جیسے کسی بھارتی حکمران کو عرب ممالک میں خوش آمدید کہا جاتا تو آدمی حسن ظن کا شکار ہو سکتا تھا کہ دونوں روایتی برہمن ذہنیت کے مالک تھے ۔مکار‘ بغل میں چھری منہ میں رام رام اور سیکولرازم کے نقاب پوش‘ نریندر مودی پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا ‘اس نے اپنی نسل پرستی کسی سے چھپائی ہے نہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اور نہ اسرائیل سے گہرا ربط و ضبط۔ کشمیری عوام کی نسل کشی کے ارادوں پر امریکہ و یورپ تک کو تشویش ہے‘ مغربی ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینک روزانہ وسیع پیمانے پر نسل کشی کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ بھارت میں انصاف پسند حلقے پریشان ہیں مگر عربوں نے آنکھوں پر مفادات کی پٹی باندھ رکھی ہے‘ انہیں بھارت کی منڈی سے اربوں ڈالر کمانے کی امید ہے۔ ممبئی کی فلمی دنیا اور حسن کی ملکائوں نے ان کی آنکھیں چندھیا دی ہیں اور چرب زبان بنیوں کی ساہوکارانہ مہارت‘ سستی بھارتی افرادی قوت کو وہ صنعت و تجارت کی ترقی کا رستہ سمجھ بیٹھے ہیں۔ انہیں مظلوم کشمیری خواتین کی آہ و بکا سنائی دے رہی ہے نہ نوجوانوں کے لاشے نظر آتے ہیں اور نہ گلیوں میں بہتا خون ان کی اسلامی و انسانی غیرت و حمیت کو جگاتا ہے۔ سارا قصور مگرعربوں کا بھی نہیں جب تک ہم کشمیری عوام کا مقدمہ دلیری اور استقامت سے عالمی فورموں پر لڑتے رہے عالم عرب ہی نہیں پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ کھڑا رہا 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں ایک آدھ کے سوا سارے مسلم ممالک کی صرف اخلاقی و سفارتی نہیں عملی تائید و حمائت ہمیں حاصل تھی۔ جب ہم نے اُمہ اورعالم عرب سے مُنہ موڑ کر سارک کو نسخہ کیمیا جانا‘ کشمیر کو سردخانے میں ڈال کر بھارت سے تجارت کو ترجیح دی اورامریکہ بہادر کے ایما پر ہمارے سیاستدانوں‘ حکمرانوں‘ دانشوروں‘ تجزیہ کاروں ‘سول و خاکی بیوروکریٹس نے باہمی مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے کاراگ الاپنا شروع کیا۔ بھارت کو بڑا بھائی گردانا تومسلم ‘ عرب ممالک نے بھی بڑے بھائی‘ بڑی معیشت اور بڑی عسکری قوت کی طرف دیکھنا شروع کر دیا،زرداری اورنواز شریف دور میں سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات کے شہزادوں کی شکار گاہیں منسوخ ہوئیں‘ یمن جنگ کے موقع پر عربوں کی استدعا کو ہم نے پائے حقارت سے ٹھکرایا اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خواجہ آصف کے علاوہ تحریک انصاف کے بعض لیڈروں نے عرب بادشاہوں کا تمسخر اڑایا وہ ہم بھول چکے مگر عربوں کو یاد ہے ہمیں ضرورت پڑے تو عرب بھائی ہیں انہیں احتیاج ہو تو ہم غیر جانبدار بلکہ زیادہ درست الفاظ میں تو کون‘ میں کون؟ سبحان اللہ۔ مسئلہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف نے جو یوٹرن لیا‘ آزاد کشمیر کی سرزمین کو بھی کشمیری مجاہدین کے لئے علاقہ غیر بنایا اور بھارت کو باڑ لگانے کا موقع فراہم کیا اس کے بعد ہم کس منہ سے عرب اور اسلامی ممالک سے گلہ کر سکتے ہیں ع شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور ہماری دور اندیشی اورعقلمندی کا عالم یہ ہے کہ 9/11کے بعد پاکستان پردبائو بڑھاتو پہلے قوم کو ایٹمی پروگرام اورمسئلہ کشمیر کے بچائو کا جھانسہ دے کر امریکہ سے غلامانہ تعاون کا وعدہ کیا پھر اُسے خوش کرنے کے لئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم شروع کر دی‘ آج بھی بعض تجزیہ کار عین اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں جب بھارت کشمیریوں سے وہی سلوک کر رہا ہے جو فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا وطیرہ ہے اسرائیل اور پاکستان میں دشمنی‘ عربوںکی وجہ سے ہے نہ فلسطینیوں کی محبت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ میں رکاوٹ۔ فلسطین اور کشمیر عالمی سامراج کے پیدا کردہ تنازعات ہیں‘ کشمیر پر بھارت اور فلسطین پر اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ دونوں غاصب اور قابض ریاستیں کشمیری و فلسطینی عوام کا حق خود ارادیت ماننے سے منکر ہیں‘ بھارت اور اسرائیل دونوں نسل پرست‘ اسلام دشمن اور متکبر ریاستیں ہیں۔ ایک مہا بھارت اور دوسری گریٹر اسرائیل کی علمبردار۔ بھارت کا قیام جائز اور قانونی طریقے سے عمل میں آیا مگراسرائیل اعلان بالفور کاناجائز شیطانی بچہ ہے ۔اسرائیل کو تسلیم کرنے سے قبل پاکستان جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضہ کو جائز اور قانونی تسلیم کرے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں ‘ شملہ معاہدے سے دستبردارہو اور یہ اعلان بھی کرے کہ اگر خدانخواستہ کل کلاں کو بھارت آزاد کشمیر و گلگت و بلتستان پر فوجی جارحیت مسلط کرے تو ہم مزاحمت نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے یہ ناممکن ہے تو پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا شوشہ چھوڑنے کا مقصد کیا ہے؟ کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے موقف کو کمزور ‘ موجودہ حکومت کی ساکھ کو مشکوک اور عمران خان کو اسرائیل و بھارت کا ہمدرد‘ کشمیریوں اور فلسطینیوں کا غدار ثابت کرنے کے مترادف ۔ کوئی احمق ہی یہ تصور کر سکتا ہے کہ اسرائیل محض پاکستان کی خاطر بھارت سے تعلق توڑ سکتا ہے یا بھارت سے جڑے مفادات سے دستبردار ہو گا۔ جموں و کشمیرمیں آج نریندر مودی جو کر رہا ہے وہ اسرائیلی مشوروں کا نتیجہ ہے جبکہ پاکستان کے اسلامی تشخص ‘ایٹمی پروگرام اورجذبہ جہاد سے سرشارفوج سے اسرائیل خائف ہی نہیں گریٹر اسرائیل کی راہ میں سب سے بڑی اور آخری رکاوٹ سمجھتا ہے۔ عمران خان نے اپنی نشری تقریر سے کشمیری عوام اور قوم کے حوصلے بلند کئے ہیں‘ کشمیری اور پاکستانی عوام کو ایک ساتھ لاکھڑا کیاہے‘ سید علی گیلانی کے خط کا اس سے زیادہ موثر ‘ہمدردانہ اور پُرجوش جواب دینا ممکن نہ تھا۔ یہ عالمی برادری اور اداروں کے علاوہ عرب ممالک کے لئے بھی چشم کشا تھا‘ جنہیں اب احساس ہو گا کہ اگر ان کی بے جا پذیرائی اور حوصلہ افزائی نے نریندر مودی کو مہم جوئی پر آمادہ کیا‘ وہ کوئی حماقت کر بیٹھا تو پاکستان کا جواب صرف ہندوستان کی تباہی کا پیش خیمہ نہیں عرب شہزادوںکی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھی لے ڈوبے گا۔ عرب بھائی اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت نہیں اپنی سرمایہ کاری بچانے کے لئے پاگل مودی کا ہاتھ روکیں‘ کشمیریوں سے اظہار ہمدردی اور پاکستان سے تعلق کے باعث نہ سہی اپنی عیش و عشرت اور شکاری فطرت کی تسکین کے لئے بھارت کو کشمیر سے دستبردار ہونے پر مجبور کریں ورنہ پاکستان تو فیصلہ کر چکاہے‘ عمران خان کا پیغام واضح ہے ہم آخری حد تک جائیں گے اور آخری سانس تک کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے‘ ہرچہ باداباد ع ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے