آج بہاولپور کے لوگ تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کا نشانہ بن رہے ہیں مگر ریاست ِ بہاولپور خود پتھرائی آنکھوں سے اْنہیں دیکھ رہی ہے۔ نوکر ِ شاہی کے مظالم کا شکار بہاولپور جس کے حکمران کو صحیح معنوں میں محسن ِ پاکستان کہا جاتا ہے آج اپنے تاریخی ورثے سے محروم ہوتی جارہی ہے۔ جس کی تازہ ترین مثال بہاولپور کی دو تاریخی مساجد کی زبوں حالی میں نظر آتی ہے۔ بہاولپور ریاست کے فن ِ تعمیر کا شاہکار شاہی مسجد جو قلعہ دیراوڑکے مرکزی دروازے کے سامنے واقع ہے اور دوسری ’الصادق مسجد‘جو معروف فرید گیٹ سے ہوتے ہوئے شاہی بازار میں واقع ہے۔ جس طرح شاہی مسجد کا کوئی پرسان ِ حال نہ ہے۔ بالکل اسی طرح چوبیس کنال رقبہ پر محیط پاکستان کی یہ چوتھی بڑی جامع مسجد جسے الصادق مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس مسجد میں بیک وقت پچاس سے ساٹھ ہزار نمازیوں کی ایک ساتھ نماز پڑھنے کی جگہ موجود ہے۔ اِ س تاریخی مسجد کی بنیاد سلسلہ ِ چشتیہ کے معروف صوفی بزرگ اور نواب آف بہاولپور کے روحانی رہنماء حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ نے دو سوسال قبل رکھی۔ 1935ء میں سر صادق محمد خان عباسی پنجم کے حکم پر مسجد کی مرمت اور تزین و آرائش کا کام شروع ہوا۔ اس مسجد کا ڈیزائن کسی حد تک بادشاہی مسجد لاہور سے مماثلت رکھتا ہے۔ مسجد کے دروازوں پر قرآنی آیات اس انداز میں کندہ کی گئی ہیں کہ دل موہ لیتی ہیں۔چار میناروں والی اس عالیشان مسجد کی چھت بتیس ستونوں پر ٹکی ہے۔اس کی تعمیر کے وقت مسجد کی جگہ سے چار کلومیٹر دور بہتے دریائے ستلج کے پانی کو پائپ کے ذریعے لایا گیا جو تعمیر اور وضوء کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ وزیر خان مسجد لاہور کی طرح نواب آف بہاولپور نے الصادق مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بھی اس انداز میں بنایا کہ یہ مسجد کبھی بھی سرکاری و عوامی امداد کی محتاج نہ رہے۔ اس لئے الصادق مسجد کی تعمیر سے قبل نیچے چار سو دکانیں تعمیر کی گئیں اور اْن کے اوپریہ جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ یہ دکانیں اِس مسجد کی ملکیت ہیں۔ محکمہ اوقات کی ویب سائیٹ پر دی گئی تفصیل کے مطابق اِن دوکانوں سے حاصل ہونے والا کرایہ مسجد کی تزین و آرائش اور مرمت پر خرچ کیا جاتا ہے جو شاید درست نہیں۔ پچھے دِنوں ایک مقامی اخبار میں شائع ہونے والی خبر نظر سے گزری جس میں اس مسجد کی زبوں حالی کا ذکر بڑے واضح اور دردناک انداز میں کیا گیا تھا۔یہ ساری داستان مرکزی تنظیم ِ تاجران پاکستان (جنوبی پنجاب) کے نائب صدر حافظ محمد شفیق وارثی کے بیان پر مشتمل تھی۔ جس میں کہا گیا کہ یہ عالیشان مسجد آجکل زبوں حالی کا شکار ہے۔ محکمہ اوقاف بہاولپور کی توجہ مسجد کی آمدن پر تو ہے مگر مسجد کی دیکھ بھال پر نہ ہے۔ یہ عالی شان مسجد اپنی پریشان حالی کی تصویر کچھ ایسے پیش کررہی ہے کہ دوران ِ بارش اس کی چھت ٹپکتی رہتی ہے اور زیر ِمسجد مارکیٹ میں پانی جمع ہوجاتا ہے جس سے مسجد کی بنیادوں کو خاطر خواہ نقصان ہورہا ہے۔ مسجد کی دیواروں سے پلستر اْکھڑ رہا ہے، واش رومز کی صفائی نہ ہونے کے برابر ہے اور کوئی خاکروب تعینات نہ ہے۔اس مسجد میں تعینات مستقل افراد کی ایک چوتھائی ڈیوٹی پر موجود ہوتی ہے۔ فرش اْکھڑے ہوئے ہیں اور پانی والی ٹینکی کی صفائی تک نہ کی گئی ہے۔ زیر مسجد مرچوں کی پسائی کی غیر قانونی چکیاں ہیں جن کی وائبریشن سے مسجد کی عمارت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے اور کھلی مرچوں اور چکیوں سے نکلنے والا مرچوں کا گودا نمازیوں کے لئے وبال ِ جان بن چکا ہے۔اگرچہ محکمہ اوقاف با ضابطہ طور پر اس مسجد کی دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے مگر اس مسجد کا کوئی پرسانِ حال نہ ہے۔ اس عالی شان تاریخی مسجد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا یہ کوئی دور دراز کے کسی دیہات کی مسجد ہو جس کی گزر بسر علاقے کے لوگوں کے چندے سے ہوتی ہو۔ حالانکہ مسجد اپنی آمدن میں خوف کفیل ہے کیونکہ مسجد کے نیچے وسیع و عریض مارکیٹ سے جو آمدن آتی ہے وہ براہِ راست اس صرف مسجد کو فعال رکھنے، اس کی مرمت اور تزین و آرائش کے لئے مختص ہے۔ مگر افسوس کہ آج تک مذکورہ بالا مسجد کے مرمتی اور تزین و آرائش کے کام نہ ہوسکے ہیں اور روز بہ روز مسجد شکستہ ہوتی جارہی ہے۔ حیران کن طور پر یہ بھی بتلایا گیا کہ مسجد میں بہت سے مخیر حضرات اپنا حصہ نقد رقم، پنکھوں، قالین اور دیگر اشیاء کی مد میں کرتے ہیں مگر یہ اشیاء مسجد سے غائب ہوجاتی ہیں اور بااثر لوگوں کے گھروں میں استعمال ہوجاتی ہیں۔حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے پہلے ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر آفس) بہاولپور کو تحریری درخواست دی گئی، محکمہ اوقاف بہاولپور کے دروازے کھٹکھٹائے گئے اور حتیٰ کہ اب گورنر پنجاب جو خود بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں اْنہیں بھی درخواست دی گئی ہے مگر تاحال کسی طرف سے کوئی مثبت ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ گورنر سے جہاں سرائیکی وسیب کی اْمیدیں بندھی ہیں وہیں بہاولپور ڈویژن کے کئی مسائل اْن کی راہ دیکھ رہے ہیں۔اس وقت ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجا ب (بہاولپور سیکرٹریٹ)، کئی محکموں کے سیکرٹریز، کمشنر بہاولپور، ڈپٹی کمشنر بہاولپور، محکمہ اوقاف، بلدیہ اور دیگر کئی محکمہ جات بہاولپور میں قائم ہیں۔ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومت میں بہاولپور ڈویژن سے کئی نامور سیاستدان طاقتور وزارتوں پر براجمان ہیں۔ ایسے ایسے سیاستدان و ہ چاہیں تو بہاولپور کو سونے کی چڑیا بنا دیں مگر شاید وہ اپنے سونے کے بچھڑے بنانے میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے بہاولپور شہر میں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،بارش کے وقت سڑکوں اور چوکوں پر پانی کھڑا ہونا معمول بن چکا ہے۔ اندرون شہر کی حالت ناقابل ِ بیان ہے۔ حالیہ بارشوں نے گلیوں کو تعفن زدہ کردیا،غلاظت کے انبار ہیں اور اس ماحول میں بہاولپور بلدیہ مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ اس سنگین ترین صورت حال میں اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ سبھی طاقتور افراد اور نامور سیاستدان و وزیر اس تاریخی الصادق مسجد کی زبوں حالی کا تماشہ دیکھتے ہیں یا پھر خوف ِ خدارکھتے ہوئے اور ریاستِ بہاولپور کے احسان مند ہوکر اس عظیم الشان مسجد کی مرمت و بحالی اور تزین و آرائش کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ یہ فیصلہ وقت کرے گا۔