سید ظفر علی شاہ مہروی

 

سید نا مہر علی شاہ گولڑوی قدس سرہ ایک جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کے جس کمال کی طرف دام خیال پھیلایا جائے تو                                    

زفرق تابقدم ہر کجاکہ مے بنگرم

کرشمہ دامن دل مے کشد کہ ایں جا است

(سر کی مانگ سے لے کر قدم ہر جگہ نظر ڈالو،دامن دل ہر جگہ کے بارے میں کہے گا،جگہ یہی ہے ) یوں تو آپ کی ہمہ گیر زندگی کو چند لفظوں میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے، مثلاً شرافت ونجابت، تقویٰ و تقدس،زہدوفقر، جرات وبسالت، علم وعشق اگر انسانی صورت اختیار کرلیں تو’’حضرت مہر علی شاہ‘‘کا سراپا بن جائے گا۔ ہشاش بشاش،خوش طبع، خوش ظاہر،خوش لباس، کم گو جن کی ہر مجلس تصوف و اخلاق اور علوم عالیہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کراں سمندر ہوتا تھا،اگر اس اجمال کو تفصیل کے قالب میں ڈھالیںتو آپ کی پیدائش گولڑہ شریف میں یکم رمضان المبارک1275ھ بمطابق 1859ء بروز پیر کو ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب سیدنا غوث اعظم سید عبدالقادر گیلانی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔ حضرت قبلہ عالم کی زندگی کی ہماہمی اور مصروفیت کے تصور کے لیے اٹھا رویں صدی کے ثلث آخر سے لے کر انیسویں صدی کے مختلف اَدوار کی طوفانی تاریخ کا پس منظر ذہن میں رکھنا لازمی امر ہوگا۔ جس طرح بنو امیہ اور بنو عباس کی جابرانہ سلطنتوں اور شاہانہ دنیاوی عظمتوں کے فلک بوس مینار پیوند ِ زمین ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے پورا عالم اسلام طوائف الملوکی اور شخصی اقتدار کی ہولناکیوں کے اْمڈتے سیلاب کی لپیٹ میں آچکا تھا دین کے تابناک سورج کی آنکھوں کو خیرہ کرنے والی نور بیزشعاعیں زرد پڑنے لگی تھیں ،برائے نام اسلامی حکومتوں کی زِمام اقتدارجن کے ہاتھوں میں تھی وہ عیش وعشرت میں مدہوش زمانہ وما فیھا سے بالکل بے خبر داد ِعیش دے رہے تھے۔عیسائیت ویہودیت، رفض و اعتزال کی شب تار آندھیوںنے زمین وآسمان کی پنہائیوں اور نصف کرہ ٔارض کی وسعتوں کو اپنی ناپسندیدہ اور مکروہ ظلمتوں میں چھپارکھا تھا۔ دین اسلام کے ماننے والوں سے تقویٰ وزہد وعبادت، اور علم وحیا دنیا سے رخصت ہورہے تھے، عین اسی وقت بغداد سے سرکار غوث اعظم قدس سرہ کی صورت میں حق کا سورج اس شان سے طلو ع ہو ا کہ با طل کی آ نکھیں خیرہ ہو گئیں۔

بدی و شیطانیت کی بسا ط الٹ گئی، فسق و فسا د کا غبا ر چھٹ گیا،اسلا م کا بو ل با لا ہو گیا، دین حق پر پھر سے بہا ر آ گئی چمنستا ں کی ایسی آبیا ری ہو ئی کہ پھر قیا مت تک اس کی سر سبزی و شا دا بی اک امریقینی ہو گئی۔ بعینہٖ اس طر ح اٹھا رویں صدی کے آخری بیس سالو ں میں مغل خا ندا نو ں کی شکل میں برائے نا م اسلامی حکو مت جب زوال پذیر ہو گئی تو فر نگیوں کی جا برا نہ حکو مت ،مکا را نہ طر زِ طریق سے شجر اسلام کی بیخ کنی میں مصروف ہو گئی، ہر طر ف انگریز کے خودکا شتہ شجر خبیث نے ملت ِحنیفیہ کے با غ کے گو شہ گو شہ میں اپنا تسلط جما نا شر و ع کر دیا۔   نیچر یت،چکڑالویت وغیرہ نے غلط کا ر، کج رفتا ر ہا تھ پا ؤں ما رناشر وع کر دئیے،تو اندریں حا لا ت سر کا رِ بغدا د کے فر ز ند ار جمندسید نا  مہرعلی شا ہ قدس سرہ نے میدان میں قدم رکھاجو وقت کے بے مثل مدر س، بے نظیر عالم، مسلِّمہ مصنف تھے، آسما نِ طریقت کے نیرّ اعظم    فطر ت کے ذہین طبع،رو شن دما غ، پر سکو ن سمندر، کم گو ،شیر یں زبا ں کھو لیں تو پھول جھڑیں،آنکھ اٹھے تو سینکڑوں دل تڑپنے لگ جا ئیں۔

 زبا ن ِدُرِّ فشا ں سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ مخا لف کی ایک کتا ب کا جوا ب ہو جا تاکیوں کہ فصا حت و بلاغت خا ندا نِ نبوت کا طرہ ٔامتیا ز ہے    سلطا ن ان کے دروازے پر آئے تو گدا بن گئے اور گدا آئے تو سلطان بن گئے۔ تصو ف کے عالم ہی نہیں مجدد و مجتہدتھے،            تصوف اس چیز کا نا م ہے کہ انسان نیکی اس لئے نہ کرے کہ مجھے دو زخ سے نجا ت مل جا ئے یا جنت الفر دوس میں مقا م حا صل ہو جا ئے۔ نیکی اس لئے کر ے کہ وہ ادائے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حکم رب تعا لیٰ ہے۔نیکی سے تزکیہ نفس ہو جا تا ہے اور تزکیہ نفس سے محبت و الفت حا صل ہو تی ہے اور محبت و الفت سے خدا ملتا ہے۔ صو فی کا علم وعمل، حرکت و سکو ن، گو یا ئی و خا مو شی،ذِکرو فکر، محبت ِالٰہی اور شفقت ِ    خدا وندی کا آئینہ دار ہو تا ہے۔ مندر جہ با لا گزا رشا ت سے صا ف واضح ہوا کہ تصو ف اسلام کے بعد شروع نہیں ہوا بلکہ ہرعہد ،ہر دین و ملت میں مختلف رنگوں میں مو جو د رہا ہے۔

اسلام سے قبل ہر نبی ورسول نے نیکی و بدی اور رُشد وہدا یت کا ایک معیا ر مقر ر فر ما یا۔تو حید خا لص جو ہر قسم کے شرک و کفر اور بغض و غناد سے مبُرا ہو جس کی بنیا د خا لص عشق و محبت پر قا ئم ہو، اسے احسان کہہ لیجئے ،تصوف نا م رکھیئے، طریقت سے تعبیر کر لیجئے ،چیز ایک ہی ہے نا م علیحدہ علیحدہ ہے لیکن تصوف کے نا م پر بعض او قات زندگی سے گریز اور قنو طیت کا نام تصو ف رکھ دیا گیاہے۔ بو سیدہ اور متعفن چیتھڑ ے پہن کر خلق خدا اور اس کے دکھوں سے دور جنگلو ں اور پہا ڑوں میں چھپتے پھرنا اور اپنے تزکیہ نفس کے بر کا ت و فیو ضا ت سے مخلو ق خدا کو محرو م رکھنا۔بدھ مت اور رہبا نیت و ہدانیت ہے، تصو ف و اسلام سے اس کا کو ئی تعلق نہیں ۔

آپ نے با طل نظریا ت کی سر کو بی اور احقاق ِحق کے لیے قلمی اورلسا نی جہا د فرما یا اور عوام و خواص کی بر وقت رہنما ئی فر ما ئی جس کی وجہ سے مختلف مکا تب فکر کے علما ء نے لکھا کہ قبلہ عا لم کی تصنیفا ت عا لیہ سے ڈھیرو ں ڈگمگا ئے لوگ را ہِ حق پر استقا مت سے سر فر از ہو ئے۔

آپ کا علمی دنیا میں سب سے بڑا کا رنا مہ قادیانیت کے خلا ف معرکہ ہے۔جب مر زا غلام قا دیا نی نے ہندو ستا ن کے 80 سے زا ئد علماء و مشا ئخ کو منا ظرہ کا چیلنج دیا تو حضرت نے اس چیلنج کو قبو ل فر ما یا اور با دشا ہی مسجد میں مقر ر شدہ منا ظرہ کے لیے تشریف لے گئے علما ء کی ایک بڑی تعداد بھی لاہو ر میں جمع ہو گئی۔مرزا قا دیا نی جو جھوٹا مدعی نبو ت تھا ،نے اپنے اشتہا ر میں منا ظرہ لا ہور کو اپنی سچا ئی اور جھو ٹے ہو نے کا معیا ر قرار دیا تھا۔ تین دن تک حضرت قبلہ عا لم بمعہ اپنے رفقاء لا ہو ر میں مو جو د رہے اور لا کھو ں لوگ بھی با د شا ہی مسجد میں جمع رہے۔ مر زا  قا دیا نی اس اللہ کے شیر کے دبدبہ اور ہیبت کی وجہ سے لا ہو ر نہ آیا بلکہ یوں کہنے لگا کہ اگر میں لاہو ر آؤں توپیر صا حب کے غلام مجھے قتل کر دیں گے یو ں وہ اپنے مقرر کردہ معیار پر ہمیشہ کیلئے جھو ٹا ثا بت ہوا۔اس وا قعہ کی تفصیل کے لیے’’ مہر منیر‘‘کا مطا لعہ کیجئے۔

      حضرت قبلہ عا لم کا ارشا د گرا می ہے:’’ جو شخص اخلاص و محبت کے ساتھ ختم نبو ت کیلئے کا م کرے گا اس کی پشت پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہا تھ مبا رک ہے۔ ‘‘ مرزا قا دیا نی کے رد میں آپ نے پہلے’شمس الھدا یہ فی اثبا ت حیات المسیح،کتاب لکھی۔جس میں قرآن و سنت اور لغت عربیہ سے وفات کا معنی متعین کر تے ہو ئے حیا ت عیسیٰ علیہ السلام کو ثا بت کیا، علما ء کرام اور دانشور پڑھ کر عش عش کراٹھے مر زا قا دیا نی اور اس کی جما عت اس کا جو اب دینے سے عا جز رہی۔ رَدِّ قا د یا نت میں آپ کی دو سری معر کۃ الآرا،لاجو اب کتا ب’’سیف چشتیا ئی‘‘  ہے۔ جس میں قبلہ عالم نے مر زا قا دیا نی کا سر قہ اور صرف ونحوکی اغلا ط کی نشا ندہی کی اور اس کا جوا ب بھی آج تک قا د یا نیو ں پرقرض ہے۔

مدرسہ علی گڑھ میں مولا نا لطف اللہ علی گڑھی کے پا س جب آپ زیر تعلیم تھے اُن دِنوںمدر سہ بند کرنے کی تحریک چل رہی تھی۔ایک ما ہر ریا ضی کو بلوا کر ایک بہت ہی مشکل سوال نا مہ تیا ر کرایا گیا اور کہا گیا کہ کل ممتحن امتحا ن لیں گے لڑکے پا س نہ ہو ئے تو مدر سہ بند کر دیا جا ئے گا۔حضرت پیر صا حب نے ان سوا لوں کے بھر پور جوا ب لکھے اور ساتھ اقلیدس پر اپنی طر ف سے بہت ادق سوال قائم کر کے ممتحن کے پا س بھجوا ئے،ممتحن بھا گ گیا اور کہا جس مدر سہ کاکم عمر طا لب علم اقلیدس پر اعتراضات کر سکتا ہے اتنے بلند معیا ر مدرسہ کو بند نہیں کیا جا سکتا۔

              حضرت قبلہ عا لم ہندو ستان بھر کے مقبول عا م شیخ طریقت سے لا کھو ں لو گ آپ سے منسلک تھے۔ جس میں بڑے بڑے گدی نشین ،نامی گرامی علما ء وفقہا،محدثین، ما ہرین علو م نقلیہ و عقلیہ کی بڑی تعداد آپ سے منسلک ہو چکی تھی ،اس کے علا وہ پنجا ب و سرحد کے بڑے سیاستدا ن اوررؤساآپ سے بیعت ہو چکے تھے۔انگریز وں کے کا نو ں میں یہ با ت ڈالی گئی کہ گو لڑہ شریف کا ایک بز رگ کسی وقت بھی بر طا نوی را ج کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے چنا نچہ حکو مت نے آپ کو پھا نسنے کی منصوبہ بندی کر لی۔پہلے ڈی سی را ولپنڈی نے آپ کو بلا یا آپ نے جواب دیا کہ میرا ڈی سی سے کو ئی کا م نہیں اس لیئے میں اس کے پاس نہیں جا ؤں گا۔اگر ڈی سی کو مجھ سے کو ئی کام ہے گو لڑہ شریف آ جا ئے۔ وا ئسرا ئے کی تا ج پو شی کے مو قع پر آپ کو بھی دعوت دی گئی جس کو آپ نے ٹھکرا دیا۔ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو آپ کی خدمت میں بھا ری پیشکش کے سا تھ بھیجا گیاکہ آپ وا ئسرائے کو لا ہو ر جا کرصرف سلام کر دیںآپ کو پا نچ سو مر بع زرعی زمین تحفہ دی جائے گی،جس سے آپ کو لنگرچلانے اور مدرسہ کے طلبا ء کی خدمت کرنے کی سہو لت ہو جا ئے گی۔اس کے جواب میں آپ نے ڈی سی سے کہا:’’ مشرق سے لے کر مغرب تک میرے جد امجد حضر ت غو ث الا عظم رضی اللہ تعا لیٰ عنہ کی جا گیر ہے جن کا میں وارث ہوں آپ لو گ اس حقیر سی زمین کے بدلے میرا ایما ن نہیں خرید سکتے چنا نچہ حکو مت کے کا رندے ما یو س ہو کر چلے گئے۔ اما م احمد رضا بریلو ی قدس سرہ نے کیا خو ب کہا:

کرو ں مدح اہل ِدول رضاپڑے اس بلا میری بلا

 میں گدا ہوں اپنے کریم کا،میرا دین پا رۂ ناں نہیں

اور چرا غ گو لڑہ حضرت نصیر ملت قدس سرہ فر ما تے ہیں:

میں نصیر فقر سر شت ہوں میں رند سا قی چشت ہوں

 میرا دنیا داروں سے ربط کیا انہیں دور سے سلام ہے  

جن کا تعلق با د شا ہوں کے با د شا ہ ما لک الملک سے اور محبو ب کبریا سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو،انھیں کو ئی حکمران خرید سکتا ہے اور نا ہی کو ئی جھکا سکتا ہے۔

آپ نے جہاں ظا ہری علم کے دریا بہا ئے وہیں رو حا نیت کے سمندر سے ہزاروں طا لبا ن حق نے موتی چنے، آپ نے اپنی نگا ہ ِولا یت سے سینکڑو ں لو گو ں کو اللہ تعا لیٰ تک رسا ئی کرا ئی آپ نے بہت سے لو گو ں کو خلا فت سے نوا زا اور انہیں علم دین کی نشر وا شاعت اور رو حا نیت کا نور عام کر نے کا مشن سو نپا۔ ان خو ش نصیب حضرات میں حضورسید غلا م محی الدین با بو جی قدس سرہٗ آپ کے دو نو ں پو تے سید غلا م معین الدین بڑے لالہ جی اور سید شا ہ عبدالحق چھو ٹے لا لہ جی مد ظلہ، مولا نا محمد غا زی، مو لا نا غلام محمد گھو ٹوی اور بحر العلوم امام الوا صلین سید امام شاہ مہر آبا دی شامل ہیں۔ جنھیں آپ نے خود خوا ب میں اپنے پاس بلا کربیعت کیا پھر پا کپتن مسجد اولیا میں بیعت فرما یا اور خلا فت عطا فرما ئی مہر منیر میں ان حضرات کے نا م شا مل ہیں۔آپ کے ایک فر زند تھے حضرت سیدنا غلا م محی الدین بابو جی علیہ الرحمۃ جن کا ولا یت اور طریقت میں بہت بڑا مقام ہے۔ آ پ کا خاصہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔آ پ کے دو صا حبزا دے تھے بڑے حضر ت سید غلا م معین الدین علیہ الرحمۃ اور چھو ٹے حضرت سید نا شاہ عبد الحق مدظلہ دو نو ں  بھا ئی جید عالم دین اور مادر زاد ولی ہیں دو نو ں کی اولا د امجاد آستا نہ عا لیہ کی رونق ہیں۔

آبا د خدا رکھےمئے خا نہ محمد کا