محمد علی جناح کو قوم نے قائد اعظم کا خطاب دیا جو 1938ء سے ان کے اصل نام سے بھی زیادہ مشہور ہو گیا ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں اتفاق رائے سے اس عوامی خطاب کو سرکاری طور پر منظورکیا گیا ۔ قائد اعظم 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میں کھارادر کی بستی میں وزیر مینشن میں پیداہوئے ۔اصل وطن راج کوٹ تھا۔ ان کے والد جناح پونجا چمڑے اور کھالوں کا کاروبار کرتے تھے اور آپ کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ہی کاروبار کی وسعت کیلئے راج کوٹ سے کراچی منتقل ہوئے تھے۔ قائدا عظم اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ، آپ نے 1885 اور 1886ء میں گوکل داس تیج پرائمری سکول بمبئی میں ، پھر سندھ مدرسۃ الاسلام اور کرسچن مشن ہائی سکول کراچی میں تعلیم پائی۔ سولہ برس کی عمر میں 1892ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کیلئے انگلستان گئے ۔ وہاں لنکنز ان سے 1896ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ 1896ء میں انگلستان سے واپس آ کر کراچی میں وکالت شروع کی اور ایک سال بعد 1897ء میں بمبئی میں دفتر کھولا ۔ 1906ء میں سیاسی زندگی کا آغاز نیشنل کانگریس سے کیا ۔ اپریل 1913ء میں دوبارہ انگلستان گئے ، وہاں گوکھلے سے طویل رفاقت رہی ۔ ہندوستانی طلبہ کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کیلئے ’’ لندن انڈین ایسوسی ایشن ‘‘ قائم کی ۔ اس زمانے میں مولانا محمد علی جوہر اور سید وزیرحسن کی فرمائش پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اس شرط کے ساتھ اختیار کی کہ مسلم لیگ میں ان کی رکنیت ان کی کانگریس کی رکنیت پر کسی بھی اعتبار سے اثر انداز یا خلل انداز نہ ہوگی۔ مئی تا دسمبر 1914ء برطانیہ میں اس کانگریسی وفد میں بطور رکن شامل رہے جو انڈیا کونسل کے مجوزہ آئینی اصطلاحات پر غور کرنے کیلئے انگلستان بھیجا گیا تھا ۔ دسمبر 1915ء اور جنوری 1916ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے آٹھویں اجلاس میں شریک ہوئے ۔ اکتوبر 1916ء میں بمبئی پراونشل کانفرنس منعقدہ احمد آباد کی صدارت کی ، مرکزی قانون ساز اسمبلی میں بر اعظم پاک و ہند کے کسی بھی پارلیمنٹرین سے زیادہ عرصے تک اور سب سے زیادہ تدبر، حکمت ، جرأت اور حریت سے شاندار کردار ادا کیا ۔ 1919ء میں مسلم لیگ کے بارہویں اجلاس کی صدارت کی۔1920ء میں چودہ سالہ رفاقت کے بعد کانگریس کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے۔ 1922ء میں آل پارٹیز کانفرنس بمبئی کے سیکرٹری منتخب ہوئے ۔قائد اعظم کا اہم کارنامہ لاہور میں 1940ء کی قرارداد ہے ۔ 3 جون 1947ء کو وائسرائے ہند لارڈ ماؤبیٹن نے آل انڈیا ریڈیو پر قیام پاکستان کا اعلان کیا ۔ جس کا قائد اعظم نے اپنی تقریر میں خیر مقدم کیا ۔قیام پاکستان کے بعد 14 اگست 1947ء کو پاکستان کے گورنر جنرل بنے اور 11 ستمبر 1948ء کو وفات پائی ۔ قائد اعظم اور وسیب کے حوالے سے عرض ہے کہ معروف صحافی مرحوم فخر الدین بلے نے اپنی تحریر میں انکشاف کیا تھا کہ قائد اعظم کے بزرگوں کا تعلق ملتان سے رہا ۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ قائد اعظم پاکستان کا دارالحکومت ملتان اور ڈی جی خان کے درمیان بنانا چاہتے تھے کہ یہ علاقہ مغربی پاکستان کے درمیان میں آتا تھا ۔ معروف ریسرچ اسکالر ڈاکٹر طاہر تونسوی کی کتاب ’’ قائد اعظم تے سرائیکی زبان و ادب ‘‘ 2002ء میں شائع ہوئی جس میں سرائیکی زبان میں اہل قلم کی بہت سی تحریریں شامل ہیں اور ان میں شعراء کرام کی طرف سے منظوم نذرانہ عقیدت بھی پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہر تونسوی نے پاکستان چوک ڈی جی خان کے بابا شیر محمد پاکستانی ( وہ قیام پاکستان سے پہلے خود کو پاکستانی لکھتے تھے ) کی ایک نظم اپنی کتاب میں شامل کی ہے ، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’ آئیے قائد اعظم کی قیادت میں قومی کلمہ پڑھ کر زندگی اتحاد و اتفاق سے مل کر گزاریں‘‘۔ اسی طرح سرائیکی شاعر غلام رسول ڈڈہ کے یہ شعر بھی کتاب میں شامل ہیں : وطن پاک مقصد مسلمان دا ہے پاکستان ہُنْ جُز ایمان دا ہے اساں مقصد تے جند جان لیسوں وطن پاک گھنسوں توڑے جند وچیسوں اب میں حضرت قائد اعظم اور سرائیکی وسیب کے حوالے سے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بتائوں گا کہ وسیب کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب آف بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے 7کروڑ روپے کی خطیر رقم دی ۔قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو بنایا گیا جس کی ریاست بہاولپور کے مقابلے میں خدمات عشر عشیر بھی نہ تھیں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ قیام پاکستان سے قبل بھی ایک پاکستان ڈھائی سو سال پہلے موجود تھا اور اس کا نام ریاست بہاولپور تھا ۔ تحریک پاکستان قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کا کردار ناقابل فراموش ہے مگر افسوس کہ آج ان باتوں کا تذکرہ تاریخ پاکستان اور نصاب کی کسی کتاب میں موجود نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نواب آف بہاولپور وائسرائے ہند کے استقبال سے اجتناب کرتے تھے مگر قائد اعظم کا دل سے احترام کرتے وجہ یہ بھی کہ ان کے اندر مسلمان کا دل موجود تھا ۔کوئٹہ میں1935ء میں زلزلہ آیا یا پھر 1947ء میں ہندوستان سے آبادکاروں کے قافلے بہاولپور اسٹیشن پہنچے۔نواب بہاولپور بنفس نفیس بہاولپور اسٹیشن پہنچے تحائف نقدی کے علاوہ اپنے ہاتھ سے مصیبت زدگان میں طعام تقسیم کیا ۔ علامہ اقبال نواب آف بہاولپور کے مداح اور عقیدت مند تھے انہوں نے آج تک کسی بادشاہ کا قصیدہ نہ لکھا مگر نواب آف بہاولپور کیلئے انہوں نے طویل قصیدہ لکھا۔اسی طرح حفیظ جالندھری علامہ اقبال اور بہت سے زعما باقاعدہ وظیفہ حاصل کرتے رہے ۔اس کا ثبوت اس چٹھی سے بھی ہوتا ہے جو علامہ اقبال نے نواب آف بہاولپور کے پرائیویٹ سیکرٹری میجر شمس 5مئی 1929ء کوجس میں لکھاکہ بہت شکریہ !مجھے ریاست کی طرف سے بھیجا گیا الاؤنس برابر مل رہا ہے۔پاکستانی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی ریاست بہاولپور سے وظیفہ لیتے رہے۔ افسوس کہ آج ان تمام احسانات کو فراموش کر دیا گیا ہے۔