قارئین میں نے پچھلے کالم میں کئی ممکنات کا ذکر کیا تھا۔ تقریبا سب کچھ ہو گیا اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ کیا دلچسپ صورتحا ل ہے۔وزیر اعلی جناب پرویز الہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی آگئی اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ گورنر نے وزیر اعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا اور کچھ بھی نہی ہوا۔ سپیکر نے گورنر کے اقدام کو چلینج کر دیا اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ گورنر نے وزیر اعلی کو ڈی نوٹیفائی کر دیا اور کچھ بھی نہیں ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف گورنر کے اقدام کے خلاف عدالت میں چلی گئی اور عدالت نے گورنر کے اقدام کو معطل کر دیا۔ عدالت نے وزیر اعلی کو بحا ل کر دیا اور ساتھ ہی ان سے اسمبلی ناں توڑنے کی یقین دہانی بھی کروا لی۔ اب صورتحال یہ ہے جناب پرویز الہی پنجاب کے وزیر اعلی ہیں لیکن وہ اسمبلی اپنی مر ضی سے نہیں توڑ سکتے۔ آپ کسی بندے کو سکول کا ٹیچر لگا دیں اور ساتھ ہی یہ قد غن بھی لگا دیں کہ یہ ٹیچر کلاس نہیں پڑھا سکتا۔ اب اس سارے کھیل میں جیت کس کی ہوئی اور ہار کس کی ، دماغ یہ سوچنے سے قا صر ہے۔یہاں اس صورتحال میں سب ہی جیت گئے ہیں اور سب ہی ہار گئے ہیں۔ کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی ناکامی ہے جو وہ بروز جمعہ کو اسمبلی کی تحلیل چاہتے تھے وہ نہیں ہو سکی۔اب اسمبلیوں کی تحلیل کا مسئلہ وقتی طور پر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ جناب پرویز الہی کی جیت ہے وہ ایک یقین دہانی عمران خان کو کروا چکے تھے کہ وہ اسمبلی کی تحلیل کر دیں گے اب دوسری یقین دہانی انہوں نے عدلیہ کو کروا دی ہے کہ وہ اسمبلی کو تحلیل نہیں کریں گے۔اب وہ عمران خان کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو اسمبلی تحلیل کرنا چاہتے تھے مگر ان کو عدالت نے روک دیا ہے۔ پی ڈی ایم اب پنجاب میں تبدیلی لانے میں ناکام رہی ہے۔ فی الحال پنجاب حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔ اب تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوتی ہے تو پتہ چلے گا کہ کون کس کے ساتھ ہے اور کتنے لوگوں کے ضمیر جاگے ہیں۔ اب پرویز الہی بہت بہتر پوزیشن میں ہیں اب وہ عمران خان سے پنجاب کی اگلی وزارت اعلی کے بارے میں بہت اچھے طریقے سے بارگین کر سکتے ہیں۔اب اگر وہ الگ پارٹی کی صورت میں الیکشن لڑیں گے تو بہت سی سیٹوں پر تحریک انصاف کی حمایت ان کو حاصل ہو گی اور دوسرے اس عرصہ میں وہ اپنے حلقوں میں ترقیاتی کام مکمل کروا سکتے ہیں۔ گجرات میں جو کچھ چوہدری پرویز الہی نے کر دیا ہے اب ان کو یہاں سے ہرانا بہت مشکل ہوگا۔ انہوں نے سو ارب روپے کے قریب فنڈ گجرات کو ڈویژن بنانے پر خرچ کر دیے ہیں اور گجرات، چکوال اب ان کی مٹھی میں ہیں۔ملک کی سب سے مقبول جماعت کی حمائت ان کو حاصل ہے اور ملک سے سب سے بڑے صوبے کے وہ انتظامی سربراہ ہیں۔ ان کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں۔ حمزہ شہباز کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔ سلمان شہباز بھی پاکستان آچکے ہیں اور ان کے کیس بھی ختم ہو چکے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ آنے والے وقت میں پنجاب پر پنجہ آزمائی مونس الہی اور حمزہ شہباز کے درمیان ہو گی۔اب معاملہ عدالت کے رحم و کرم پر ہے اور ہماری عدالتیں اگر چاہیں تو کسی مسئلہ کو دو تین پشت تک بھی لے جا سکتی ہیں۔ الیکشن کے لئے عمران خان بہت دباؤ ڈال رہے ہیں۔مگر لگتا ہے کہ الیکشن شاید 2023ء میں بھی نہ ہوں۔ ہماری عدالتیں موجود ہیں وہ اگر مشرف کو دو سال دے سکتی ہیں تو اس سیٹ اپ کو مزید ایک سال تک مزید چلایا جا سکتا ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر آچکی ہیں۔ بنوں میں سکیورٹی فورسز کے افراد کا یرغمال بنایا جانا کوئی عام معاملہ نہیں ہے۔ اب یہ لہر خیبر پختونخوا سے ملک کے دارالحکومت تک پہنچ چکی ہے۔ اسلام آباد میں خود کش حملہ آورکا داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس سال 2022ء میں ہمارے سکیورٹی کے اداروں کے بہت سے افراد شہید ہو چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں کے پی کے کی پولیس کی قربانیوں کا پہلا نمبر ہے۔تحریک طالبان پاکستان نے جنگ بندی کی مدت گزرنے کے بعد اپنی کاروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اب وہ پہلے کی نسبت متحد بھی زیادہ ہیں اور انکے پاس اسلحہ بھی بہت جدید ہے۔ سوات میں پچھلے دنوں طالبان کی نقل و حرکت غیر معمولی تھی۔ اب طالبان حکومت پر پاکستان کی حکومت دباو ڈال سکتی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افراد کو افغانستان سے نکالے۔ مگر افغان حکومت اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ خود تحریک طالبان پاکستان کے افراد کو افغانستان سے نکالے۔وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان افغان سر زمیں پر نہ رہیں مگر وہ خود کوئی کاروائی کرنے سے اجتناب کریں گے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ حکومت پاکستان کے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں اور اب کے پی کے اور بلوچستان کا امن بہت خطرہ میں ہے۔اس وقت جب ملک پہلے ہی معاشی طور پر بہت سے بحرانوں کا شکار ہے اب دہشت گردی کی نئی لہر ایک اور سنجیدہ مسئلہ پیدا کر رہی ہے۔ پاکستان اب چاروں اطراف سے مشکلات میں ہے۔ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے اور آئے دن یہ صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے ہمارے سب سیاسی اکابرین کو چاہئے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو بھانپیں اور ہوش کے ناخن لیکر کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔معاشی طور پر پاکستان دیوالیہ پن کے قریب ہے اور مہنگائی کا طوفان لوگوں کی زندگی کو عذاب میں بدل چکا ہے اور اب دہشت گردی کی نئی لہر ملک میں سر اٹھا رہی ہے اور ہم آنکھیں بند کر کے اپنی فضول جنگوں میں مصروف ہیں۔اس وقت امریکہ جیسا ملک شدید سردی کی لپیٹ میں ہے اور وہاں کچھ مقامات پر درجہ حرارت منفی 40 سے تجاوز کر گیا ہے اور پاکستان میں ہر معاملہ میں گرمی آئی ہوئی ہے۔