ورکشاپ کے شرکا کو میں نے کئی ذاتی تجربات سے آگاہ کیا،جن میں جنرل باجوہ کی تقرری کی سب سے پہلے خبر کا معاملہ، نیو یارک میں ہمارے نمائندے ندیم سلہری کی رپورٹ وغیرہ کا واقعہ شامل تھا۔ 4.تنقیدی ذہنیت کو برقرار رکھیں: خوف یا غصے جیسے شدید جذباتی ردعمل کو بھڑکانے کے لیے بہت ساری جعلی خبریں بڑی چالاکی سے لکھی جاتی ہیں۔ اپنے آپ سے پوچھ کر تنقیدی ذہنیت کو برقرار رکھیں کہ یہ کہانی کیوں لکھی گئی ہے؟ کیا یہ کسی خاص مقصد یا ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے؟ کیا یہ مجھے کسی اور ویب سائٹ پر کلک کرنے کی ترغیب دے رہی ہے؟ 5. حقائق کی جانچ کریں: معتبر خبروں میں بہت سارے حقائق شامل ہوں گے ۔ ڈیٹا، اعدادوشمار، ماہرین کے اقتباسات وغیرہ۔ اگر یہ غائب ہیں تو سوال کریں ،کیوں؟ غلط معلومات والی رپورٹس میں اکثر غلط تاریخیں یا تبدیل شدہ ٹائم لائنز ہوتی ہیں، لہذا یہ چیک کرنا اچھا خیال ہے کہ متن کب شائع ہوا تھا۔ کیا یہ موجودہ یا پرانی خبر ہے؟ 6. تبصرے چیک کریں: اکثر مواد کے جواب میں پوسٹ کیے گئے لنکس یا تبصرے بوٹس یا ہماری گمراہ کن یا مبہم معلومات کے لیے رکھے گئے لوگوں کے ذریعے خود کار طریقے سے تیار کیے جا سکتے ہیں۔ 7. اپنے اپنے تعصبات کو چیک کریں: ہم سب کے پاس تعصبات ہیں ، سوشل میڈیا آپ کی موجودہ براؤزنگ کی عادات، دلچسپیوں اور آراء سے مماثل کہانیاں تجویز کرکے ایکو چیمبر بنا سکتا ہے۔ہم جو موضوعات پڑھتے یا جس قسم کی ویڈیوز زیادہ دیکھتے ہیں سوشل میڈیا وہی مواد ہمارے سامنے لاتا ہے ۔ ہم ایک دو کی بجائے زیادہ ذرائع اور نقطہ ہائے نظر سے جتنا زیادہ پڑھیں گے، اتنا ہی زیادہ امکان ہے کہ ہم درست نتائج اخذ کر سکیں۔ 8. چیک کریں کہ آیا یہ مذاق ہے: طنزیہ ویب سائٹس مقبول ہیں، بعض اوقات یہ ہمیشہ واضح نہیں ہوتا کہ کہانی محض ایک مذاق ہے یا پیروڈی۔ یہ دیکھنے کے لیے ویب سائٹ چیک کریں کہ آیا یہ طنزیہ یا مضحکہ خیز کہانیاں تخلیق کرنے کے لیے مشہور ہے۔ 9. چیک کریں کہ تصاویر مستند ہیں: سوشل میڈیا پر آپ جو تصاویر دیکھتے ہیں ان میں ترمیم یا ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ ممکنہ علامات میں وارپنگ شامل ہے جہاں اب پس منظر میں سیدھی لکیریں لہراتی دکھائی دیتی ہیں – نیز سایہ، دھاری دار کنارے، یا جلد کا رنگ جو بہت پرفیکٹ نظر آتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ایک تصویر درست ہو سکتی ہے لیکن محض گمراہ کن سیاق و سباق میں استعمال کر لی جاتی ہے۔ آپ گوگل کی ریورس امیج سرچ جیسے ٹولز کا استعمال کر سکتے ہیں تاکہ یہ چیک کیا جا سکے کہ تصویر کہاں سے نکلتی ہے اور آیا اس میں تبدیلی کی گئی ہے۔ 10. حقائق کی جانچ کرنے والی سائٹ کا استعمال کریں: سب سے مشہور میں سے کچھیہ ہیں: Snopes۔ ُPolitifact۔Fact Check۔BBC Reality Check آن لائن محفوظ رہنے میں مدد کے لیے اینٹی وائرس کا استعمال کریں، جو آپ کو ہیکرز، وائرس، میلویئر اور دیگر آن لائن خطرات سے بچاتا ہے۔ صحافیوں کو سرکار کی جانب سے ہراساں کرنا دنیا کے کئی حصوں میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ کائے کے مطابق " بہت سارے رہنما صحافت کو دشمن، رپورٹرز کو بدمعاش، دہشت گرد، اور بلاگرز کو گستاخ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آمرانہ ریاستوں کی طرف سے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی چالیں چلی جا رہی ہیں۔ صحافیوں پر اکثر جعلی خبریں گھڑنے کا الزام لگایا جا تا ہے ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں صحافیوں کو گرفتار کیا گیا یا ان کے کام کو سرکاری جانچ پڑتال کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ حکومتیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے اور مواد کو سنسر کرنے کے لیے حکومتی ضابطے بنانے کے لیے بھی آگے بڑھی ہیں۔ انسداد ی اقدامات 1) دنیا بھر کی حکومتیں جو سب سے اہم کام کر سکتی ہیں ان میں سے ایک آزاد، پیشہ ورانہ صحافت کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ بہت سے علاقے تبدیلی سے گزر رہے ہیں ،ان تبدیلیوں نے بہت زیادہ غصہ، اضطراب اور الجھن پیدا کی ہے۔پاکستان میں افغان جہاد اور دہشت گردی کے خلاف جنگ نے تشدد کو ابھارا ہے ریاست کا کردار کئی جگہ انسانی حقوق سے متصادم ہو جاتا ہے، جبری لاپتہ ہونے جیسے واقعات ہوتے ہیں ۔ ایسی صورتحال میں ایک صحت مند فورتھ پلر کا ہونا بہت ضروری ہے جو سرکاری حکام سے آزاد ہو۔ 2) حکومتوں کو نیوز میڈیا کی خبروں کو کور کرنے کی صلاحیت پر کریک ڈاؤن سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ سرگرمیاں اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرتی ہیں ۔ 1) نیوز انڈسٹری کو اعلیٰ معیار کی صحافت پر توجہ مرکوز کرنا رکھنی چاہیے جو اعتماد پیدا کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ قارئین و سامعین کو راغب کرتی ہے۔ ایک حوصلہ افزا پیش رفت یہ ہے کہ متعدد میڈیا ہاوسز نے گزشتہ چند برسوں میں قارئین اور ناظرین کی تعداد میں اضافے سے بڑے فوائد حاصل کیے ہیں، اس سے بڑے خبر رساں اداروں کو مدد ملتی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں نیوز میڈیا پر عوام کے اعتماد میں تیزی سے کمی آئی ہے، (باقی صفحہ9پر ملاحظہ کریں) اس نے صحافیوں کی خبروں کی رپورٹ کرنے اور رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرانے کی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ 2) نیوز آرگنائزیشنز کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جعلی خبروں اور غلط معلومات کو قانونی حیثیت دئیے بغیر ان کو الگ رکھیں۔ وہ پیشہ ور افراد اور قابل احترام فیکٹ چیکرز پر بھروسہ کرکے ایسا کر سکتے ہیں۔ 18 فروری 2022 کو حکومت نے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) میں ترمیم کرتے ہوئے ایک آرڈیننس پاس کیا جس میں فوج اور عدلیہ سمیت حکام کی آن لائن "ہتک عزت" کو سخت سزاؤں کے ساتھ ایک مجرمانہ جرم قرار دیا گیا تھا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاکہ "پی ای سی اے کو 'جعلی خبروں،' سائبر کرائم اور غلط معلومات کا مقابلہ کرنے کے بہانے آزادی اظہار کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔" "یہ ترمیم نہ صرف پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی کرتی ہے بلکہ حکومت یا دیگر ریاستی اداروں سے سوال کرنے والے کو مزید خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ یہ قانون خاص طور پر صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور سیاسی مخالفین کو نشانہ بناتا ہے جو محض اپنے کام کرنے کی وجہ سے قانونی چارہ جوئی کا خطرہ مول لیتے ہیں۔