محمود غزنوی ایک عظیم فاتح اور بہترین منتظم تھے۔ انہوں نے اپنی پچاس ساٹھ سالہ زندگی میں کئی علاقے فتح کئے۔ ان کا نظام اور انتظام مثالی اور عدل پر استوار تھا۔ ان کا انصاف فوری اور غیر جانبدارانہ بھی تھا جس کی تعریف دشمن ریاستوں کے حکمائ‘ علمائ‘ اولیائ‘ وزراء اور قاضی صاحبان دیا کرتے تھے۔ عوام کی دسترس سے دور نہ تھے۔ ایک بڑھیا بکریاں چرا رہی تھی۔ راستہ کی ناہمواری یعنی سڑک کی ٹوٹ پھوٹ نے بکری کی ٹانگ توڑ دی۔ محمود غزنوی نے بحیثیت مسافر بڑھیا سے ہمدردی کی اور کہا کہ حاکم وقت سے بکری کے نقصان کا ازالہ وصول کرو۔ بڑھیا نے جواب دیا کہ محمود غزنوی کو فتوحات سے فرصت نہیں‘ وہ کیا ازالہ کرے گا۔ جب محمود غزنوی نے اپنی شناخت ظاہر کی تو بڑھیا نے کہا ’’بیٹا اتنے علاقے فتح کرو‘ جتنے سنبھال سکو۔ محمود غزنوی عالم‘ ولی اور فقیہہ تھے۔ درود شریف کے شیدائی تھے اور ان کی ’’تفرید الفروع‘‘ ایک وقیع علمی کتاب ہے۔ حافظ محمود غزنوی کی فتوحات کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ انہوں نے مفتوحہ علاقوں کو علم و فن‘ امن‘ خوشی‘ خوشحال اور ترقی سے مزین کیا اور مذکورہ فتوحات کو سیاسی‘ معاشی اور انتظامی استحکام بخشا۔ محمود غزنوی کی سلطنت میں استحکام کا راز عدل و انصاف کی حکمرانی تھی۔ ان کے نزدیک امیر‘ غریب‘ حاکم‘ محکوم‘ عام شہری اور حکومتی اہلکار‘ عزیز‘ غیر ‘ عوام اور اشرافیہ سب برابر تھے۔ ایک مقدمہ میں حافظ محمود غزنوی نے اپنے سگے بھانجے کو اپنے ہاتھ سے سزا دی۔ ان کی سلطنت میں کوئی عدل سے بالا نہیں تھا۔ سلطان محمود غزنوی کی سلطنت موجودہ پاکستان بشمول سرہند تک پھیلی ہوئی تھی ۔ ہندو شاہی حکومت ختم کی اور لاہور کو مرکز بنا کر شمال مغربی ہندوستان میں غزنوی اسلامی سلطنت قائم کی۔ اس غزنوی ریاست کی سرکاری زبان عربی اور تہذیبی زبان وسط ایشیائی فارسی تھی جس نے مقامی آبادی کے ساتھ میل جول کے نتیجے میں اردو زبان کو پروان چڑھایا۔ یہ سلطان محمود غزنوی ہی تھے جنہوں نے لاہور شہر کو علمی و ادبی اور اسلامی تہذیب و تمدن کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ ابتداء میں محمود غزنوی کی سلطنت غزنی تک امحدود ہو کر رہ گئی جس کو انہوں نے اپنی ہمت‘ جرأت اور شجاعت سے وسعت دی۔ حافظ محمود غزنوی کے والد سبکتگیں کی سلطنت‘ غزنی‘ خراسان‘ سیستان اور لمغان تک تھی جبکہ محمود غزنوی کے نانا الپتگیں نے ساسانی فرمانروا سے علیحدگی اختیار کر کے غزنی میں اپنی حکومت قائم کی۔سلطان محمود غزنوی کی تمام جنگوں کے دو مقاصد تھے۔ پہلا مقصد غزنی سلطنت کا تحفظ اور استحکام تھا۔ دوسرا مقصد عالم اسلام میں سبائی‘ فاطمی اور ایرانی سازش اور شورش سے پیدا شدہ مذہبی‘ سیاسی‘ سماجی‘ فوجی‘ اخلاقی اور معاشی ابتری تھی جس نے عباسی خلفاء کو طاقتور ایرانی قبیلوں اور فرقوں کا محصور بنا دیا تھا۔ نیز عباسی سلطنت کی کمزوری نے اسلامی معاشرے کو قرآن اور اسوہ رسولؐ سے دور کر دیا تھا۔ درایں صورت محمود غزنوی نے عباسی خلیفہ القادر باللہ کے وقار کو بحال کیا۔ مذکورہ بالا فتنوں سے عباسی خلافت کی طاقت کو بحال اور اسلامی معاشرے کو قرآن و سنت پر ازسرنو استوار کیا جس میں سلطان محمود غزنوی کے مصاحب علماء اور اولیاء اللہ کا اہم کردار ہے۔ حضرت ابوالحسن خرقانی اور بعدازاں حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒکی خدمات کام آئیں۔ فی الحقیقت محمود غزنوی نے برسراقتدار آنے کے بعد مسلسل ترکوں‘ ایرانیوں‘ سامانیوں‘ دیلچیوں‘ مکرانیوں‘ افغانوں اور ہندوستان کے جنگجو راجپوتوں سے برسر پیکار رہا اور ہمیشہ فتح مند رہا۔ سلطان محمود غزنوی اپنی بے مثال بہادری اور حربی مہارت‘ مستعدی اور دانشمندی کے باعث دشمن کے لیے ناقابل تسخیر رہا۔ سلطان محمود غزنوی ہندوستان میں پشاور اور بلوچستان کی جانب سے حملہ آور ہوا۔ ہندو شاہی حکومت لمغان (جلال آباد‘ افغانستان) سے سرہند کے خطے تک پھیلی تھی جبکہ ان کا دارالحکومت اٹک کے قریب ویہند تھا۔ ہندو شاہی حکومت کے کئی حکمران نسل در نسل مثلاً جے پال‘ آنند‘ ترلوچن‘ سکھپال‘ محمود غزنوی کی شخصیت اور ریاست کے دشمن تھے جبکہ ہندو شاہی حکمران محمود غزنوی اور اس کے والد سبکتگین کے باجگزار تھے مگر یہ سازش‘ شورش اور شرپسندی سے باز نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اردگرد کی کئی ہندو ریاستوں اجین‘ گوالیار‘ کالنجر‘ قنوج‘ دہلی‘ اجمیر کے حکمرانوں کو محمود غزنوی کے خلاف اتحادی بنا لیا تھا۔ اسی پہ ہندو فوجی محاذ نے ملتان کے اسماعیلی حکمران ابوالفتح دائود اور دیگر ملحد اور مرتد مذاہب سے وابستہ حکمرانوں کو بھی مذکورہ ہندو اتحادی فوجی محاذ کا حصہ بنا رکھا تھا۔ یاد رہے کہ ملتان کا ابوالفتح دائود بھی محمود غزنوی کا باجگزار حاکم تھا۔ محمود غزنوی آئے دن اس ہندو اتحاد سے لڑتا رہا اور متواتر شکست کے باوجود ہندو‘ اسماعیلی متحدہ محاذ شرپسندی سے باز نہ آیا۔ اسماعیلی ملتان سے نکلے گجرات کاٹھیا و اڑ (ممبئی) میں جا بسے اور ہندو انتہا پسند ہندو آبادی کے ساتھ مقامی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی تھی۔ سومنات کا حملہ اسماعیلی اور ہندو اتحادی قوتوں کی سرکوبی میں عملاً رکاوٹ بن رہا تھا۔ سومنات کا لفظی معنی چاند دیوی ہے۔ سومنات کے مالی اخراجات کے لیے دس ہزار دیہات مختص تھے۔ مندر میں 1000 برہمن اور 500 داسیاں پرستش اور خدمات پر مامور تھیں جبکہ سومنات کی حفاظت کے لیے ہر ہندو مرنے مارنے کے لیے تیار تھا لہٰذا ایک وسیع اور بھرپور فوج مقابلہ زن تھی اور اس گمان میں تھی کہ سومنات دیوتا نے محمود غزنوی کو ہلاک کرنے کے لیے بلایا ہے۔ نیز سومنات کا بڑا بت مقناطیسی کشش کے ذریعے ہوا میں معلق تھا۔ ہندوئوں کا عقیدہ یاگمان تھا کہ سومنات کا بت ہندو قوم اور حکومتوں کا محافظ ہے۔ محمود غزنوی نے سومنات کا بت گرا کر ہندو توہمات کا بت توڑ دیا۔ محمود غزنوی نے سومنات کا بت گرایا تھا‘ مندر نہیں۔ مندر قائم رہا۔ البتہ محمود غزنوی نے سومنات کی راہداری یا راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کر دی تھی جو ہندو انتہا پسندوں کو بابری مسجد کی طرح کھلتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندو شاہی سلطنت کو ختم کرکے متحدہ پنجاب اور موجودہ پاکستان میں غزنوی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کا پہلا حاکم محمود غزنوی کا معتمد محمد ایاز تھا جس کی مسجد اور مدفن رنگ محل چوک میں ہے۔