مکرمی!تاریخ کی سب سے بڑی افادیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ یہ معاشرے کی یادداشتوں کو مجموعی طور پر محفوظ کرتی ہے ایک فرد کی یادداشت کمزور ہوتی ہے، اور اس کے ساتھ معاشرہ بھی ایک واقع کو جلد بھول جاتا ہے اگر ان واقعات کو تاریخ کے ذریعے محفوظ نہیں کیا جائے تو معاشرہ ان کے تجربات کو چاہے وہ اچھے ہوں یا برے ہوں جلد ہی بھول جاتا ہے۔ کے اسی کا نتیجہ ہے کہ ان میں جہاں جدید تاریخ تشکیل نہیں دی گئی اور جہاں عوام کو جاہل رکھا گیا ہے وہاں سیاسی طور پر وہی اشخاص باربار اقتدار میں آتے ہیں جو ماضی میں جرائم کے مرتکب ہو چکے ہوتے ہیں۔ وہی سیاسی جماعتیں جو ایک بار اقتدار میں رہ کر عوام پر ظلم و ستم کر چکی ہوتی ہیں وہ دوبارہ پھر عوام دوستی کے نعرے لگا کر اقتدار حاصل کر لیتی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں تاریخ ان کے کردار اور اعمال کو محفوظ نہیں رکھتی اور عوام اپنا دکھ بھرا ماضی جلدی بھلا کر فریب میں آ جاتے ہیں۔ صرف تاریخ کے ذریعے اس عمل کو روکا جا سکتا ہے اور صرف اسی کے ذریعے رہنماؤں اور جماعتیوں کا احتساب ہو سکتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تاریخ کے مطالعہ سے معاشرہ کو آگہی کا احساس ہوتا ہے وہ اس کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ دوسرے معاشروں کے مقابلے میں وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔ تاریخ ہی سے اسے پتہ چلتا ہے کہ معاشرے کن وجوہات کی بنا پر ترقی کرتے ہیں اور کون سی وجوہات ترقی کی راہوں کو روکتی ہے۔ ماضی کا تجربہ اس کے لیے نئے آئینہ کا مانند ہوتا ہے جس میں وہ اپنی رفتار اور عمل کو دیکھ سکتا ہے۔ خود آگہی کا یہ احساس معاشرے کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے اس لئے تاریخ کا مطالعہ کریں اور تاریخ کے اوراق سنبھال کر رکھیں۔ (آنند پرکاش،جامعہ کراچی)