چھوڑیے بڑی بڑی باتیں‘آج ذرا چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا ذکر کرتے ہیں۔عام طور پر جب ہم لوگ کسی کھانے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو رشک کرنے والے سمجھتے ہیں ضیافتیں اڑھائی جا رہی ہیں یا لاہوریوں کی زبان میں کھابے کھائے جا رہے ہیں۔تاہم یہ کھانے کی محفلیں بھی اکثر اوقات بڑی بامعنی ہوتی ہیں۔خدا بھلا کرے طیب اعجاز قریشی کا جو ہمارے ڈاکٹر اعجاز قریشی مرحوم کے فرزند اور الطاف قریشی صاحب کے بھتیجے ہیں۔یوں تو اب اردو ڈائجسٹ کے معاملات انہوں نے ہی سنبھال رکھے ہیں اور پوری طرح صحافیانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ کاروباری صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں۔ان کا فون آیا‘پھر الطاف قریشی صاحب نے اصرار سے یاد دہانی کرائی کہ دوپہر کا کھانا طیب کے ہاں کھائیے۔چند افراد سے ملاقات ہوگی۔جہاں دو چار تو ایسے لوگ تھے جن سے دنیا واقف ہے‘مگر ایسے بھی میں جس کا ذکر کم کم ہوتا ہے مگر جو نیکی کا بڑا کام کر رہے ہیں۔دراصل یہ محفل ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے اعزاز میں تھی۔وہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ جو یوں تو کسٹم میں آفیسر تھے مگر انہوں نے اپنے محکمے ہی کے لوگوں کو فعال کر کے خدمت خلق کی ایک تنظیم بنائی جو پھیلتے پھیلتے ایک ایسا ادارہ بن گئی جو مصیبت اور مشکل کی ہر گھڑی میں خدمت کے لئے تیار رہتی ہے۔زلزلہ ہو ‘سیلاب ہو یا حالت امن ، خدمت کے بہت سے کام وہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔تھر کے صحرائوں سے لے کر شمال کے پہاڑوں تک ان کی خدمت کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔انہوں نے درمیان میں شاید شوکت خانم میں یا کہیں اور عمران خاں کے ساتھ بھی کام کیا تھا۔ہمارے ملک میں ایک تو محتسب اعلیٰ ہوتا ہے۔ایک ٹیکس محتسب اعلیٰ کا ادارہ بھی موجود ہے۔یہ بھی غالباً آئینی ادارہ ہے۔جو نہ صرف ٹیکس چھپانے والوں کا احتساب کرتا ہو گا بلکہ ٹیکس وصول کرنے والوں کی چیرہ دستیوں سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہو گا۔اس کے پورے کام تو میرے ذہن میں نہیں تاہم ملک کی موجودہ صورت میں یہ ایک بہت ضروری اور ناگزیر ادارہ ہے۔جب ایک محتسب اعلیٰ کے تقرر کا مرحلہ آیا اور تین نام پیش کئے گئے تو وزیر اعظم نے کہا کہ ایک نام میری طرف سے بھی شامل کر لیا جائے۔یہ نام آصف محمود جاہ کا تھا۔کسی نے کہا‘ہو سکتا ہے روز حساب اسی پر وزیر اعظم کی بخشش ہو جائے وگرنہ مہنگائی اور غربت میں پسے لوگوں کی آہیں تو آسمان کو چھو رہی ہیں۔اس محفل میں بس چار چھ لوگ ہی تھے۔الطاف قریشی صاحب کے علاوہ مجیب شامی، منشا قاضی اور خاکسار تھے جو ان لوگوں کے کارناموں سے واقف تھے۔بس چھوٹا سا اجتماع تھا جس میں طیب قریشی صاحب نے چند ایسے احباب کو اکٹھا کر رکھا تھا جو راہ خدا میں نیکیاں کماتے ہیں۔ سب سے نمایاں نام تو ڈاکٹر امجد ثاقب کا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے اخوت کے نام سے مؤاخات کا ایک ایسا ماڈل متعارف کرایا ہے جو اس دور جدید میں اپنی مثال آپ ہے۔بلا سود مائیکرو فنانس سے وہ ہزاروں لاکھوں گھرانوں کی زندگیاں بدل چکے ہیں۔اب انہوں نے اخوت یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ہے جہاں دوچار ہفتے پہلے جانے کا موقع ملا۔اس یونیورسٹی کا تصور یہ ہے کہ کوئی تعلیم سے اس لئے محروم نہ رہے کہ اس کے پاس وسائل نہیں ہیں۔خیر یہ تو ان کے وہ کام ہیں جن سے میڈیا کے ذریعے سب لوگ واقف ہیں مگر ایک چھوٹے سے کام کا تذکرہ میں نے اس محفل میں کیا تو معلوم ہوا کہ اکثر احباب اس سے واقف نہ تھے۔ان کا ایک ذیابیطس کا کلینک ہے جہاں شوگر کے مریضوںکو ایسی خدمات فراہم کی جاتی ہیں جو شاید بڑے بڑے ہسپتالوں میں میسر نہیں۔شوگر کے مریضوں کے پائوں سے محرومی کے کیس ہم نے سنے ہیں۔ان کا ایک خصوصی یونٹ مرہم پٹی ہی کے ذریعے مریضوں کو پائوں سے محروم ہونے سے بچا لیتا ہے۔یہ تربیت یافتہ عملہ اپنی مثال آپ ہے۔کراچی میں غالباً آغا خاں اور بقائی ہسپتال میں اس کے ماہرین ہیں ،لاہور میں مگر کم کم ہی ہوں گے۔ بنیادی طور پر یہ شوگر کے مریضوں کا کلینک ہے جہاں روزانہ سو ڈیڑھ سو مریض تو آتے ہوں گے۔غریب مریضوں کے لئے ہر طرح کی سہولت موجود ہے۔یہاں کے انچارج ڈاکٹر طاہر رسول ایک مسیحا صفت انسان ہیں۔ذاتی طور پر وہ مرے معالج بھی ہیں۔ جب کوئی سپیشلسٹ غلط راہ پر ڈال دیتا ہے تو میں بالآخر انہی سے رجوع کرتا ہوں۔اس دن معلوم ہوا کہ ہمارے باخبر ساتھیوں میں بھی بہت کم اس سے واقف تھے۔ مرا تو ایمان ہے کہ اگر تعلیم اور صحت کے شعبے میں ایسے ادارے کام نہ کر رہے ہوں تو لوگوں کے لئے جینا مشکل ہو جائے۔وہاں مغل سٹیل کے طارق مغل بھی موجود تھے جن کا مغل آئی ہسپتال کم از کم اس علاقے میں تو بڑی شہرت رکھتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس ہسپتال کے سامنے ہی اب ایک مغل لیب بھی کھول دی ہے جس کے کلیکشن سنٹر شہر بھر میں کھول رہے ہیں۔میڈیکل ٹیسٹ بھی اس ملک میں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔یہ اس کارخیر کو بھی عام کرنا چاہتے ہیں۔ان کے ساتھ شہزاد باجوہ بھی تھے جن کے بڑوں نے حجاز ہسپتال کا آغاز کیا تھا اور اب وہ اس میں توسیع کر رہے ہیں۔یہ ایک طرح کا بنیادی طور پر آئوٹ ڈور ہسپتال میں جہاں مریض مفت علاج کے لئے آتے ہیں۔جگہ کم پڑ رہی تھی۔اب وہ اس میں توسیع کر رہے ہیں۔میں اس ہسپتال کے سامنے سے کئی بار گزرا ہوں مگر مجھے اس کے کام کا اندازہ نہ تھا‘صرف سن رکھا تھا کہ یہ ہسپتال رضائے الٰہی کے لئے عوام کی خدمت کرتا ہے۔ایسے میں انڈس ہسپتال کا ذکر چھڑ گیا جب 2007ء میں کراچی کو خیر باد کہہ کر واپس لاہور آ رہا تھا تو یہ ہسپتال ابھی شروع ہو رہا تھا۔اب تو سنا ہے یہ لاہور تک پہنچ رہا ہے۔یہاں کوئی آپ سے نہیں پوچھے گا کہ آپ کے پاس علاج کا پیسہ ہے یا نہیں۔سچ پوچھیے‘صحت کا شعبہ اب ایک کاروبار بن گیا ہے۔اس طرح کے ادارے بہت بڑی نعمت ہیں۔جو کام سرکاری شعبے کی ذمہ داری ہے‘وہ اب نجی شعبے کے ہاتھ میں چلے گئے ہیں۔جو اسے کاروبار بناتے ہیں خوب کما رہے ہیں مگر ایسے بھی ہیں جو خدمت خلق کے جذبے سے ان کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ اس دن اس محفل کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسے لوگوں سے تعارف ہو جائے اور ان کے کاموں سے ہم واقف ہو سکیں۔خدا ان سب پر اپنی رحمتیں نازل کریں اور دوسروں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔میں این جی او پوسٹ ماڈرن تصور کے خلاف بولتا ہوں کہ یہ تیسری دنیا میں ایک کاروبار بن گیا ہے مگر خدمت خلق کے یہ ادارے جو ہماری مقامی روایات کے تحت خدمت انجام دے رہے ہیں یقینا قابل قدر ہیں۔یہ ملک ایسے ہی خدمت گزاروں کے سہارے چل رہا ہے۔حکومت نے تو اب پناہ گاہیں بنائیں وگرنہ اس ملک میں مفت دسترخواں کا رواج برسوں سے ہے جس میں بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں۔کسی سے اور کچھ نہیں ہوتا تو وہ ریستورانوں کو پیسے دے آتا ہے کہ میری طرف سے اتنے لوگوں کو مفت کھانا کھلا دینا۔یہ صدقہ جاریہ بھی بڑی دیانت داری سے جاری ہے۔جو جس کی بساط ہے۔ہمارے ملک میں نیکی کا کام کرنے والوں کی کمی نہیں۔جو جتنا کر سکے۔شاید یہ معاشرہ ایسے ہی نیکوکاروں کی وجہ سے قائم ہے۔