کیا سروکار ہمیں رونق بازار کے ساتھ ہم الگ بیٹھے ہیں دستِ ہنر آثار کے ساتھ دیدۂ نمنا ک لئے سینۂ صد چاک سیت سیئے دور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ بلاول نے کہا کہ سلیکٹڈ(selected)لفظ انہوں نے بولا تھا اور سب کو پتہ ہے کہ یہ کس کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ کمال کی بات یہ کہ میڈیا نے بھی بات کو پر لگا دیے کہ جیسے یہ لفظ واقعتاً بلاول ہی نے ایجاد کیا ہے یا دریافت کیا ہے اور دوسرا کوئی اسے استعمال ہی نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف بھی کیسے محتاط لوگ ہیں کہ اس کی جگہ لفظ مسلط بار بار رجسٹر کروانے کی کوشش کی۔بچگانہ سوچ اور اپروچ ہے۔ بہت دلچسپ واقعہ اپنے معصوم دوست نثار اکبر آبادی کا یاد آ گیا۔ پہلے ان کا ایک پیارا سا شعر آپ کو پڑھا دوں: پھر کیوں ہے غریبوں کے مکانوں میں اندھیرا یہ چاند اگر سارے زمانے کے لئے ہے ایک مرتبہ ہمارے ایک بزلہ سنج دوست نے شرارت کی اور نثار اکبر آبادی کو باور کروا دیا کہ سیف زلفی نے جو اپنے ترانے میں سبز پرچم استعمال کیا ہے یہ آپ کے ترانے سے چرایا گیا لہٰذا اس پر کیس کروا دیا جائے۔ مزے کی بات یہ کہ نثار اکبر آبادی ان کی باتوں میں آ گئے تو قبلہ بات یہ ہے کہ جس مقصد کے لئے آپ نے لفظ سلیکٹڈ استعمال کیا اسی مفہوم کو مریم نے ادا کیا۔ ویسے اب تو الیکٹڈ بھی بڑے فصیح معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صرف طریقہ کار کا فرق ہے۔بات تو یہ ہے کہ کوشش تو سب کی سلیکٹ ہونے کی ہوتی ہے یا کم از کم خواہش کہ آپ سب کا تابناک عوام کے سامنے ہے۔ اس طوق کو اتارنے کی ایک کوشش جو اپنے تئیں آپ لوگ کرتے رہتے ہیں یا پھر ایسا آپ سمجھتے ہیں آپ ایک دوسرے کے دوست بھی نہیں کہ میں شورش کا شعر لکھ دیتا: دشمنوں کے وار سہہ لینا تو کچھ مشکل نہ تھا دوستوں نے دوستوں کو دارپہ لٹکا دیا اصل میں آپ حکومت کو کمزور سمجھ کر اس پر چڑھ دوڑے تھے کہ یہ لوگ نااہل ‘نالائق اور نکمے ہیں مگر یہ سوچا ہی نہیں کہ ایک لالچ نے ان کے اندر بھی گھر بنا رکھا ہے۔کسی وقت بھی اس کی صورت گری کوئی کر سکتا ہے۔یہ بھی غلط فہمی آپ کے دماغ میں پیدا ہو گئی کہ حکومت لاوارث ہو چکی ہے۔ یہ بھی بھول گئے کہ اس سے بھی بالا انہیں آئی ایم ایف کی سرپرستی حاصل ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ وہ گھوڑوں سے دوستی کریں یا چراگاہ کو بچائیں۔ قارئین کوکیوں نہ ایک تازہ دلچسپ واقعہ سنا دوں کہ گزشتہ صبح میں نے اپنی ان کھلی آنکھوں کے ساتھ ایک ایمان افروز منظر دیکھا کہ فلٹر پلانٹ پر میں نے ایک گوالے کو پانی بھرتے دیکھا اور عش عش کر اٹھا کہ ہمارے گوالے کس قدر ایماندار ہو گئے ہیں کہ وہ فلٹر کا صاف پانی دودھ میں ملائے گا۔یعنی اسے حفظان صحت کے اصولوں پر کاربند دیکھ کر خوشی ہوئی۔فی زمانہ آپ اسے ایمانداری ہی سمجھیں وگرنہ وہ گندا پانی بھی ملا سکتا تھا۔ایک گوالا تو نہر پر بیٹھا افسوس کا اظہار کر رہا تھا کہ ہائے ہائے کتنا پانی ضائع ہو رہا ہے۔ یہ نیا زمانہ ہے‘ نئے انداز میں اور نئی اقدار ہیں۔ اس سرکاری ملازم کو دیانتدار سمجھا جاتا ہے جو رشوت لے کر پھر کام بھی کر دے۔آپ کو یاد ہو گا اپنی معیشت کو بحال رکھنے کے لئے ایک احسان نواز شریف صاحب نے بھی قوم پر کیا تھا کہ وہ سود کی بندش پر اس کے خلاف پٹیشن لے کر عدالت میں گئے تھے۔ان کا کتنا بڑا احسان ہے: ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنی محبت میں کیا گو سمجھتے ہیں زمانے کی ضرورت کیا تھی چلیے پھر موجودہ منظر نامے کی بات کرتے ہیں کہ مریم فرما رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی نے نقصان پہنچایا اور دوسری طرف بلاول کہہ رہے ہیں کہ حوصلہ رکھیں ۔گویا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا اور آپ نے شور مچا دیا۔ویسے یہ اچھا منظر تھا کہ قمر زماں کائرہ صاحب جاتی امرا میں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور ادھر یوسف رضا گیلانی کی خبر وہاں پہنچی کہ شہر بھنبور لٹ چکا ہے۔ویسے کمال کی بات یہ کہ ایسی خبریں انہیں ٹی وی سے پتہ چلتی ہیں۔ مثلاً ماڈل ٹائون والی قیامت صغریٰ تک کی خبر شہباز شریف کو ٹی وی سے معلوم ہوئی ۔عمران خاں کو بھی ٹی وی سے پتہ چلتا ہے کہ ساہیوال کا واقعہ ہو گیا اور پھر وہ اس کے مجرموں کو عبرت کا نشان بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور پھر کیا ہوتا ہے بتانا بھی الفاظ ضائع کرنا ہے۔بات کہیں اور نکل گئی۔ اصل میں ہم حقیقت پسند نہیں۔ مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک عامی کو بھی معلوم تھا کہ پیپلز پارٹی یہی کچھ کرے گی کہ ن لیگ بھی ان کے ساتھ یہی کچھ کر چکی ہے۔ ہمیں تو جماعت اسلامی کی موو پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ انہوں نے بھی ن لیگ کے ساتھ اپنی ’’کڑ‘‘ نکالی ہے کڑ کا متبادل کوئی لفظ نہیں آپ غصہ کہہ لیں ان کو ن لیگ کی جفا یاد ہے۔ وہ جو خالد شریف نے کہا تھا: کاش ایسا ہو کہ اب کے بے وفائی میں کروں تو پھرے قریہ بہ قریہ کو کو بہ کومیرے لئے ویسے جماعت اسلامی توبہ تائب ہو کر چلہ کاٹتی ہے مگر پھر کوئی ایسا کام کر جاتی ہے کہ پتہ چلتا ہے کہ وہ بھی ہیں۔یوسف رضا گیلانی کو بھی اتنا ہی سہارا چاہیے تھا۔ایک نے تو پوسٹ لگا دی کہ جماعت اسلامی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اسلام نافذ کرے گی۔ خیر یہ کوشش تو جنرل ضیاء الحق نے انہیں ساتھ ملا کر کی تھی۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کا کردار بڑھ رہا ہے مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ ان کا کردار ہے کیا؟زرداری صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ انہیں اندر وہ ہمت نظر نہیں آتی۔ ان کے پاس لے دے کے سندھ رہ گیا ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ عوام کو بائی پاس کر دیا جائے وگرنہ وہاں تو کتے کے کاٹے کی ویکسین تک نہیں۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کا تقریباً صفایا ہو چکا ۔ اس کے مقابلے میںن لیگ پوری طرح موجود ہے اور اب کے یہ عمران خاں کی ستائے عوام بھی ان کے ساتھ جا سکتے ہیں۔ پنجاب اور خاص طور پر لاہور کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اسی بات کا ڈر سب کو ہے۔ بات پھر وہیں آتی ہے کہ کام بولتا ہے۔ہائے ہائے خاں صاحب نے اپنے چاہنے والوں کو کچھ کم مایوس نہیں کیا۔پنجاب کے ساتھ تو یتیموں والا سلوک کیا۔ میں پھر لکھ رہا ہوں کہ ردعمل تو اس کا آتا ہے۔شبلی صاحب نے جگر کا شعر پڑھا تھا کہ تجھے اے جگر مبارک یہ شکست فاتحانہ۔انہوں نے اس غزل میں یہ مصرع بھی تو پڑھا ہو گا جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ۔اس غزل کا ایک اور شعر بھی کمال ہے: مرے عشق کی کرامت یہ نہیں تو اور کیا ہے مرے پاس سے نہ گزرا کبھی بے ادب زمانہ