کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم کس قدر تیزی سے بے لمس زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں، غیر مرئی قسم کی بے روح زندگی۔ لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ہم جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں Penless ماحول ہے۔ میرے جیسے ناسٹلجیا کے مارے ہوئے لوگ سوچتے ہیں کہ انگلیوں کا قلم کے لمس سے محروم ہو جانا فخر کی بات ہے یا المیہ۔ میرا ایج گروپ وہ نسل ہے جس نے سرکنڈے کی قلم گھڑ کے استعمال کی ہے۔ ہم ’’چراغ روشنائی‘‘ کی پڑیاں دوات میں ڈال کر پانی میں حل کر کے ’’سیاہی‘‘ بنایا کرتے تھے پھر قلم کو قَط لگا کر سیاہی میں ڈبو ڈبو کر گاچی سے پوچی ہوئی تختیوں پر لکھا کرتے تھے۔ تب قلم کی تختی پر خوش خرامی سے وہ آواز بھی فضا کی سماعتیں سنا کرتیں جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا۔ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے مجھے اپنے چوتھی جماعت کے استاد سید وزیر شمسی صاحب یاد آتے ہیں۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے، املا ء کے پیریڈ میں وہ بلند آواز سے لفظ پکارتے جسے ہم اپنی تختیوں پر لکھتے جاتے۔ پھر وہ باری باری ساری کلاس کے طلبا کو بلاتے۔ ایک نظر میں تختی دیکھ لیتے، جہاں غلطی ہوتی اس کی نشان دہی کرتے اور ساتھ ہی ایک درمیانی رفتار کا تھپڑ گدی میں جماتے۔ پھر فائونٹین پن کا زمانہ آ گیا۔ ایگل کے اور ڈالر کے پن ہوتے جن میں سے اکثر لیک کرتے اور انگلیاں روشنائی سے بھری رہتیں۔ ہمارے مسلم ہائی سکول ملتان کا جو گیٹ جماعت اسلامی دفتر کے سامنے ہے، اس سے داخل ہوتے ہی دائیں جانب صفدر کی سٹیشنری کی دکان تھی۔ سکول میں کام کرتے کرتے فائونٹین پن کی روشنائی اگرختم ہو جاتی تو کلاس انچارج سے چھٹی لے کر صفدر کے پاس جاتے. وہ پانچ پیسے لیتا اور پن میں روشنائی بھر دیتا۔ آپ یقین کیجئے قلم و قرطاس کا ساتھ چھوٹ رہا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے غیب سے مضامین لانے والے فرشتے بھی روٹھ گئے ہیں یا شائد فرشتوں نے بھی پیغام رسانی کے ورچوئل ذرائع اپنا لئے ہیں۔ اب کوئی آواز نہیں آتی۔ کی بورڈ کی ٹک ٹک بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے، سکرین پر پوروں کا مس کرنا کوئی آواز پید انہیں کرتا۔ کتاب ہی کو لیجئے، یہ لمس بھی ہم سے روٹھتا جا رہا ہے۔ ای بک اور پی ڈی ایف کلچر نے سینکڑوں، ہزاروں کتابوں کو آپ کے ہاتھ میں تھمے آلے کے اندر مقید کر دیا ہے۔ پتہ نہیں دوچار کمانڈز دینے پر کس لامکاں سے اٹھا کر کتاب کو سکرین پر حاضر کر دیتا ہے یہ آلہ۔ کاغذ اور روشنائی کے باہم ملاپ سے جو ایک خوش بو، شامہ سے ٹکرایاکرتی تھی، وہ عنقا ہوئی۔ یہ تو نئی کتاب کا ذکر ہوا، پرانی کتابیں بھی کھولی جاتیں تو ان کی مہک بتا دیا کرتی کہ کتنے ماہ و سال ان پر بیت چکے ہیں۔ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنا اور پڑھتے پڑھتے سینے پر رکھ کے سو جانا۔۔۔۔!! خیال و خواب ہوئی ہیں رفاقتیں کیسی یہ سطریں، چھبیسویں روزے کو لکھی جا رہی ہیں۔ آج جو دفتر آیا تومیز پر سفید لفافہ رکھا تھا جس پر ڈاک ٹکٹیں لگی ہوئی تھیں۔ کھولا تو اندر سے عید کارڈ نکلا۔ یہ عید کارڈ ڈائریکٹر تعلقات عامہ سرگودھا شہزاد احمد ورک کی طرف سے موصول ہوا۔ ایک مدت بعد عید کارڈ کا لمس پا کر مجھے یہ ساری باتیں یاد آگئیں۔ اب تو مبارک بادیں بھی بے لمس ہو گئی ہیں۔ عید آئے گی تو میسجز، وٹس ایپ، ایس یم ایس کے ذریعے بے تحاشہ عید مبارک کے پیغامات موصول ہوں گے۔ سٹیریو ٹائپ بے روح، بے لمس مبارک بادیں اور ویسے ہی بے روح، بے لمس جوابات۔ یادش بخیر! ابھی وہ زمانہ بہت دور نہیں گیا جب دکانوں کے باہر لمبے لمبے سٹال لگ جاتے جن پر رنگا رنگ عید کارڈ سجے ہوتے۔ دو چار روپے سے لے کر چالیس پینتالیس روپے تک کی قیمت والے عید کارڈ۔ جس کی جو حیثیت ہے، اس کے مطابق کارڈ خرید لے۔ محکمہ ڈاک اخبارات میں پریس ریلیز چھپوایا کرتا تھا کہ فلاں تاریخ تک عید کارڈ پوسٹ کردیں، اس تاریخ کے بعد پوسٹ ہونے والے کارڈ عید سے پہلے منزل مقصود نہ پا سکیں گے۔ یہ کالم نگار، چونکہ قلمی دوستی کا بھی رسیا تھا، چنانچہ ہر عید پر کارڈوں کے لئے بجٹ مختص کیا جاتا، پھر دستیاب وسائل اور عید کارڈز کی تعداد کو سامنے رکھ کر فیصلہ ہوتا کہ کس کو کتنے روپے والا کارڈ ارسال کرنا ہے۔ ڈاک خانوں میں ٹکٹیں قلت کا شکار ہو جاتیں اور لیٹر بکس ٹھسا ٹھس بھرجاتے۔ ڈاکئے گھر گھر عید کارڈ پہنچاتے اور مکتوب الیہ اپنے پیاروں کی طرف سے آنے والے عید کارد پا کر ڈاکئے کو عیدی دیتے۔ وہ آدھی ملاقات کا دور تھا۔ آج کی نسل کو بتانا ضروری ہے کہ اس زمانے میں خط کو آدھی ملاقات کہا کرتے تھے۔ دور پار سے لوگ اک دوسرے کو خط لکھتے تو لفافہ اور اس میں بند چٹھی خط لکھنے والے کے ہاتھوں کا لمس لئے مطلوبہ پتے پر پہنچتی۔ پیاروں کو جو خط لکھے جاتے ان میں کبھی پھول بھی ڈال دیئے جاتے۔ اندی ور نے ساٹھ کی دہائی میں ایک بڑا مشہور گیت لکھا تھا ’’پھول تمھیں بھیجا ہے خط میں۔ پھول نہیں میرا دل ہے‘‘ تب خط لمس کی ترسیل کرتے تھے۔ عید کارڈ خریدنے کے لئے بازار جانا، اسے لکھنا، پھر ٹکٹ لگا کر پوسٹ کرنا۔ ایسا تردد انسان وہیں کرتا ہے جہاں محبت ہوتی ہے۔ اب ایک ٹچ سے سینکڑوں لوگوں کو پیغام چلا جاتا ہے۔ کوئی تردد نہیں، کوئی محبت بھی نہیں۔ خطوں میں لکھنے والے کی انگلیوں کے پوروں کا لمس بند ہوتا تھا جسے پا کر آدھی ملاقات کا احساس ہوتا۔ اب سکرین پراک دوجے کو لائیو دیکھ کر بات کرتے ہیں مگر ملاقات کا ایک فی صد احساس بھی پیدا نہیں ہوتا۔ مشینوں اور گیجٹس کے ساتھ رہ کر ہم بھی مشین بنتے جا رہے ہیں، بے حس اور روح سے خالی۔ اتنی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کو دیکھتا ہوں اور پھر اپنی عمر کا حساب کرتا ہوں تو کچھ خود غرض قسم کی تسلی ہوتی ہے کہ شکر ہے کہ دنیا کے مکمل بے لمس اور ورچوئل ہونے تک میں نہیں ہوں گا۔