منظر انقلاب فرانس کا ہو‘ ہندوستان کا ہو یا آج کے پاکستان کا ‘ انسانوں کی ساری دوڑ دھوپ ایک شے کے لئے ہوتی ہے جسے ’’روٹی‘‘ کہتے ہیں۔ جب اٹھارویں صدی کے آواخر میں فرانس کے عوام بادشاہ اور کلیسا کے گٹھ جوڑ کے خلاف پارلیمنٹ سے نکل کر سڑکوں پر آ گئے تھے تب ایک فرانسیسی شہزادی نے ایک جملہ کہہ کر عوام کے غیظ و غضب میں مزید شدت پیدا کر دی تھی۔ شہزادی نے کہا تھا کہ ان لوگوںکو روٹی نہیں ملتی تو یہ کیک کھائیں۔ عین اسی زمانے میں ہندوستان کے شاعر نظیر اکبر آبادی نے گل و بلبل اور ہجروصال کی رومانی شاعری چھوڑ کر ہندو مسلم رسومات اور عوامی احساسات کے بارے میں نظمیں لکھنا شروع کر دیں ان کی شاعری کو زبردست پذیرائی ملی۔ ان کی ایک نظم ’’روٹیاں‘‘ بنیادی انسانی مسئلے یوں اجاگر کرتی ہے۔ پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے یہ مہرو ماہ حق نے بنائے کاہے کے وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانتے بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہی روٹیاں آج کے تبدیلی یا سونامی والے پاکستان میں بھی ذرا روٹی کی فریاد سن لیجیے ایک ثقہ اخباری رپورٹ کے مطابق 29اگست سے پنجاب میں 60ہزار تندور بند ہو جائیں گے کئی علاقوں میں روٹی پہلے ہی 6روپے سے 10روپے ہو چکی ہے۔ نان بائی ایسوسی ایشن کے ذمہ داروں نے حکومت کو مطلع کر دیا ہے کہ مزدوری بڑھنے ٹرانسپورٹ اور گیس وغیرہ کے ریٹ بڑھنے سے 100گرام کی روٹی کی کم سے کم لاگت 8روپے ہے اور 6روپے میں فروخت کرنا ناممکن ہے حکومت اس کی قیمت دس روپے مقرر کرے پنجاب حکومت نے بسوں ویگنوں اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 35فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت بجلی گیس اور پٹرول جبکہ صوبائی حکومت ٹرانسپورٹ ‘ روٹی‘ ہسپتالوں کے ٹیسٹوں کے نرخ سو سوگنا بڑھا دے گی تو بندہ مزدور اور بندہ مجبور کہاں جائے گا۔ کہاں سے زندہ رہنے کے وسائل اکٹھا کرے گا۔ بڑھتے ہوئے بے روزگاروں کے پاس دو آپشن ہی بچتے ہیں ایک چوری ڈاکہ اور دوسرا خودکشی۔ حکومت کی اپنی وزارت خزانہ نے گزشتہ روز مالیاتی خسارے کی جو رپورٹ دی ہے انتہائی تشویشناک ہے۔ مالیاتی خسارہ کیا ہوتا ہے ؟ اندرون ملک آمدنی اور اخراجات میں جو کمی ہوتی ہے اسے مالیاتی خسارہ کہتے ہیں۔ قومی پیداوار کے حوالے سے حکومت کے پہلے سال کا مالیاتی خسارہ 8.9فیصد تک پہنچ چکا ہے جو پاکستان کی 28سالہ تاریخ کا بلند ترین خسارہ ہے۔ حکومت نے نئے مالیاتی سال کے آغاز میں خسارے کا تخمینہ 4.9فیصد لگایا تھا مگر یہ خسارہ بڑھ کر 8.9فیصد ہو گیا ہے دوسرے لفظوں میں اسے یوں سمجھیے کہ مجموعی ٹیکس 4900ارب رہا جبکہ اخراجات 8345ارب تک جا پہنچے ان اعداد و شمار میں دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ تقریباً 7ہزارارب روپے سے زائد غیر ترقیاتی اخراجات ہیں۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لئے 3444.9 ارب روپے کے مجموعی قرضے لئے گئے جن پر 2091ارب روپے سود ادا کرنا ہو گا۔گور کنارے کھڑی اس معیشت کے پی ٹی آئی کے سیاسی منظر نامے پر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ سوال گزشتہ روز میں نے ایک عزیز سے پوچھا کہ جن کا خاندان گزشتہ ایک سو برس سے سیاست کی وادی پرخار میں آبلہ پائی کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خلق خدا بہت پریشان ہے۔ حکومت بجلی و پٹرول گیس کے ہوش ربا نرخ اس لئے بڑھاتی ہے کہ آئی ایم ایف نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں۔ پھر صوبائی حکومتیں اشیائے خورو نوش ٹرانسپورٹ اور علاج معالجے کے اخراجات بڑھا دیتی ہیں اس کمر توڑ اضافے کا اصل بوجھ جا کر ان جاں بلب غریب عوام اور دم توڑتے ہوئے سفید پوش طبقے پر جا کر پڑتا ہے۔ میرے عزیز کا کہنا ہے کہ اگر آج کسی غیبی دست شفقت کے بغیر بلدیاتی انتخابات ہوں تو تحریک انصاف کی فتح نہیں شکست یقینی ہے۔ اب ذرا لگتے ہاتھ حکومت کے ایک سالہ مالیاتی خسارے کے ساتھ ساتھ مجموعی معاشی صورت حال کی بھی ایک جھلک دیکھ لیجیے ترقیاتی شرح نمو 6فیصد سے 2.5فیصد تک آگئی ہے۔ شرح نمو جتنے فیصد کم ہوتی جائے گی روزگار کے مواقع بھی اتنے ہی کم ہوتے جائیں گے پٹرول 74روپے سے 118روپے اور ڈیزل 88روپے سے 132روپے ہو چکا ہے مہنگائی کی شرح 8فیصد سے تقریباً 13فیصد ہو چکی ہے اسی ایک سال میں ڈالر 120سے 160روپے کا ہو گیا ہے سی پیک منصوبے کے راستے میں اس ایک سال کے دوران جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی ان میں گفتنی و ناگفتنی بہت سے فسانے مشہور ہیں جن کا تذکرہ نہ کرنا ہی مناسب ہے۔ لوگ فیشن کے طور پر انقلاب فرانس کا نام لیتے ہیں۔ اس انقلاب کی تاریخ بڑی تلخ اور خونیں ہے۔ خدا ہمیں اس سے محفوظ رکھے مگر ایسے خوفناک مرحلے پر جانے سے پہلے ہی حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بندہ مزدور اور بندہ سفید پوش دونوں کے ایام بہت تلخ ہیں حکومتیں اپنی عوام کو معیشت کے مشینی شکنجے میں کس دینے کے بعد ایک طرف لاتعلق ہوکر نہیں بیٹھ جاتیں یہ حکومت تو ریاست مدینہ کی نام لیوا ہو۔تحریک انصاف کے بڑے بڑے بلند آہنگ نعروں کو ووٹ دینے والے ووٹر اب گھبرا کر کہتے ہیں کہ چاہے ہمیں عمران خان ایک کروڑ نوکریاں نہ دیں۔ ہمیں پچاس لاکھ گھر نہ دیں۔ ہمیں تیشۂ فرہاد سے دودھ اور شہد کی نہریں بہا کر نہ دیں چاہے ہمیں دکھائے گئے خوابوں کی تعبیر نہ دیں مگر وہ اتنی مہربانی ضرورکریں کہ ہمیں پرانی قیمتوں والا پرانا پاکستان لوٹا دیں۔ سود خوروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے غریب عوام کا خان صاحب ذرا حال تومعلوم کریں حکومت کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے لئے اب انسداد کرپشن کا سودا مزید بیچنا ممکن نہیں رہا۔ اگر حکومت اپنی معاشی و انتظامی کارکردگی بہتر نہیں بناتی تو اس کا بچ نکلنا بہت دشوار ہے غربت کی ماری نصف آبادی کیا مانگتی ہے۔ دو وقت کی روٹی کیا خان صاحب بھوک سے تڑپتے عوام کو پرانی قیمتوں پر روٹی دے سکیں گے؟ اس کا جواب آپ اپنے آپ سے پوچھیے۔