ہم دو افراد کا کنبہ ہیں۔ گھر بھی کوئی بہت بڑا نہیں۔ بجلی کا اس بار جو بل آیا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ گزشتہ دو تین ماہ سے بجلی کے محکمہ کے ساتھ ایک تنازع چل رہا تھا‘ وہ تو اپنی جگہ۔ اس ماہ طوفانی بارشوں کی وجہ سے جہاں ملک بھر آفت زدہ تھا وہاں ہم شہروں میں رہنے والوں کے لیے موسم خوشگوار ہوگیا تھا۔ اے سی بھی کبھی کبھار ایک آدھ گھنٹے کے لیے حبس دور کرنے کے لیے چلتا ہوگا۔ وگرنہ مہینے میں ہم خوش تھے کہ بجلی کم خرچ ہورہی ہے۔ بھلا بتائیے دو افراد کے ایک کبنے کا بل ایک لاکھ سے تجاوزکرجانا کوئی معنی رکھتا ہے۔ کبھی ہم سینکڑوں میں بل دیا کرتے تھے‘ اسی شہر لاہور میں۔ مجھے یہاں واپس آئے اب پندرہ سال ہو گئے ہیں۔ پھر یہ بل ہزاروں کے ہو گئے تاہم اس صورت میں جب بجلی بہت خرچ ہوئی تو بل سترہ اٹھارہ ہزار تک پہنچتا۔ یہ کبھی سوچا نہ تھا کہ ہم ایسے رئیس زادے ہیں کہ محض بجلی کی مد میں بل کی ادائیگی لاکھ سے اوپر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ تاجر تو احتجاج کر رہے ہیں‘ ہم کیا کریں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ معیشت مضبوط ہورہی ہے۔ بھاڑ میں جائے ایسی معیشت کی مضبوطی جو غریب آدمی کیا متوسط طبقے کے لیے بھی جینا حرام کردے۔ زندگی کے ضروری اخراجات میں کھانے پینے کے علاوہ تعلیم اور صحت کے شعبے ہوا کرتے تھے۔ لوگ روتے تھے تعلیم مہنگی ہو گئی‘ صحت عام آدمی کے کنٹرول سے اوپر ہے۔ میں کہا کرتا تھا میں نے اپنے ملک کی بہترین درسگاہوں (سرکاری) میں تعلیم حاصل کی۔ پہلی جماعت سے ایم اے تک‘ پرائمری سکول سے یونیورسٹی تک اعلیٰ ترین اداروں میں پڑھا۔ اس عرصے میں سولہ برس میں جو خرچ ہوا وہ آج ایک بچے پر پرائمری سے بھی نچلے درجے پر ایک مہینے میں آتا ہے۔ غضب خدا کا‘ نہ ایسی عمارتیںرہیں نہ ویسے کھیل کے میدان‘ نہ ویسے اساتذہ، یہ ہم نے ملک کا کیا حال کر دیا ہے۔ سرکار نے تعلیم کا جوا اپنے گلے سے اتار کر پھینکا ہے۔ یہی نہیں صحت کی تعلیم کا بھی یہ حال کر دیا ہے۔ جس بچے کے والدین لاکھوں روپے خرچ کرکے اپنے بچے کو ڈاکٹر بناتے ہیں وہ بھی اس پائے کا نہیں جیسا وہ سرکاری وسائل سے بنی درسگاہوں میں بن سکتا ہے۔ وہ بچہ ڈاکٹر بن کر لوگوں کی جیبیں نہ بھی کاٹے تو مقابلے کی اس دنیا میں کچھ نہ کچھ توقع لے کر تو اترے گا۔ پہلے زمانے میں حکیم ہی نہیں ڈاکٹر بھی ایسے ہوتے جو غریب آدمی کا کوڑیوں کے مول علاج کیا کرتے تھے۔ تعلیم‘ صحت‘ روٹی‘ کپڑا اور مکان تو چار پانچ ضروری اشیاء تھیں‘ اب ہم نے انرجی بھی اتنی مہنگی کردی ہے کہ خدا کی پناہ ۔یہ جو میں ایک لاکھ سے اوپر بجلی کا بل دوں گا‘ اس بجلی کا یہ حال ہے کہ اس وقت میں یوپی ایس پر بیٹھا کالم لکھ رہا ہوں اور دعا کر رہا ہوں کہ لائٹ آ جائے تو ذرا آسانی سے دل کی بھڑاس نکال سکوں۔ بلاشبہ ہم نے ملک کا ستیاناس کر دیا ہے۔ ہر کوئی آتا ہے اپنی کہانی سناتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم ایسے ہی تھے۔ صرف تین چار مثالیں دیتا ہوں۔ ایوب خان کے زمانے میں ہماری منصوبہ بندی کے نقشے کئی ملک لے کر جاتے تھے۔ ہماری معیشت پر فخر کیا جاتا تھا۔ پھر ایسا وقت بھی آیا جب ہم ایشیائی ٹائیگر بننے کے خواب دیکھتے تھے اور یہ سب کچھ بعید بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ بھارت کے اس وقت کے وزیر خزانہ اور بعد میں وزیراعظم نے دہائی دی ،دیکھنا ہم نہ جاگے تو پاکستان بہت آگے نکل جائے گا۔ ہم یقینا ایسے مضبوط تھے۔ ہماری کرنسی بھی مضبوط تھی۔ بھارت سے ہمارا پہلا جھگڑا کرنسی کی قیمت پر ہی ہوا تھا۔ جب بھارت چاہتا تھا کہ ہم بھی بھارت کی طرح اپنی کرنسی کو سستا کریں تاکہ بھارت کو پٹ سن سمیت مصنوعات سستی دیں۔ خیر یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ ابھی یہ پرانا قصہ نہیں جب ہمیں دنیا کی 18 معیشتوں میں شمار کیا گیا اور عالمی اداروں نے پیش گوئی کی کہ 2030ء تک پاکستان جی 20 میں شامل ہو جائے گا۔ اصل عذاب کب آیا۔ اب یہ ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جب 16 کے آخر میں پانامہ کے مقدمے کو یکم جنوری سے شروع کرنے کا آغاز کیا گیا تو ہم نیچے کی طرف آنے لگے۔ اب یہ صورت حال ہے کہ ہمارے دیوالیہ ہونے کی بات ہورہی ہے۔ خدا معاف کرے لوگوں کے پاس کھانے کو پیسے نہیں‘ ہم بجلی کے بل لاکھوں میں پہنچ رہے ہیں‘ ان کو سینکڑوں کی ہوا کرتی تھی۔ مٹن تو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ لاہوریوں نے دیسی مرغی کو سٹیٹس سمبل بنا رکھا تھا۔ اب اس کی بات کم کم سننے میں آتی ہے۔ سبزی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ آج ہی مجھ سے کوئی کہہ رہا تھا پیاز منگوا کر گھر میں رکھ چھوڑوں یہ پانچ سو روپے کلو تک ہونے والا ہے۔ پیاز کو چھوڑیئے عام سبزیاں بھی ملنا بند ہو چکی ہیں۔ کل ہمیں بتایا جائے گا کہ بارشوں کی نذر ہو گئیں۔ سب درست ہے مگر پھر ہمیں روز روز معیشت کے بہتر ہونے کی خبریں کاہے کو دیتے ہیں۔ ہم نے امپورٹ بل کم کر دیا ہے‘ مگر کس قیمت پر۔ ایکسپورٹ پھر نہیں بڑھ رہی ہیں۔ نوید دی جا رہی ہے اس سال کے آخر تک ہماری مانگے تانگے کے زرمبادلہ 16 ارب ڈالر ہوں گے۔ مبارک ہو مگر عام آدمی کاکیا بنے گا۔ مرے کو مارے شاہ مدار۔ میں مفتاح اسماعیل کو کچھ نہیں کہوں گا۔ بے چارہ مظلوم آدمی لگتا ہے۔ اس اسحاق ڈار نے تو اعلان کیا تھا کہ وہ دس دن میں ملک کے اندر ہوں گے، خبریں آنے لگیں۔ مفتاح اسماعیل عارضی وزیر خزانہ تھے‘ وہ بھی اصل آدمی ہو کر جوہر دکھائے گا‘ اس وقت ملک میں کوئی معیشت داں ایسا دکھائی نہیں دیتا جو خیر کی خبر دے رہا ہو۔ وجہ واضح ہے ہماری معاشی بہتری کے لیے چین سے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہیں۔ جو آئی ایم ایف ہونے نہیں دے گا۔ ویسے بھی ہم نے چین کو بہت ناراض کر رکھا ہے۔ ہم نے کچھ نہیں چھوڑا۔ اوپر سے سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے۔ فقرے بازی ملاحظہ ہو۔ فرماتے ہیں یہ کشکول لے کر قطر گیا ہوا ہے۔ یہ کشکول اس کے ہاتھ میں کس نے تھمایا ہے۔ خدا کا خوف کرو‘ ملک ڈوب رہا ہے اور تمہیں سیاست کی سوجھی ہے۔ عوام انقلاب کی سختیابی جھیلنے کو تیار نہیں۔ ایسی جمہوریت ہی نے تو نچلی مڈل کلاس کی کمر توڑ دی‘ ایک لاکھ کا بل بھیج کر وہ کہاں سے جمہوریت لائے گی‘ باتیں چبا چبا کر کرنا بند کرو‘ سر جوڑ کر بیٹھ جائو‘ وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ وقت کا پہیہ بہت تیز چل رہا ہے۔ اسے ذرا احتیاط سے چلانا پڑے گا۔ وگرنہ تباہی ہی تباہی ہے۔