دانش احمد انصاری

 

جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی میں بے شمار آسانیاں پیدا کر دی ہیں، جس کی چند ایک مثالیں ’گوگل میپ، آن لائن ٹیکسی سروس، سرچ انجنز، الیکٹرانک مشینری‘ وغیرہ ہیں۔ گوگل میپ ایک ایسے آئن لائن سافٹ ویئر کا نام ہے کہ جس کے ذریعے آپ ان مقامات تک بھی بآسانی رسائی پا سکتے ہیں، جن سے آپ واقف نہیں۔ اِسی طرح آپ آن لائن ٹیکسی سروس کے ذریعے اپنے سمارٹ فون پر صرف چند کلکس کر کے گاڑی گھر کی دہلیز پر بلوا سکتے ہیں۔ لیکن ٹیکنالوجی نے جہاں راحت و سہولت کا سامان پیدا کیا ہے وہیں لاتعداد مسائل بھی لا کھڑے کیے ہیں۔ انٹرنیٹ اور اِس سے وابستہ مختلف ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس آج کے نوجوانوں کی تمام تر توجہ کا مرکز بن گئی ہیں۔ صرف سوشل میڈیا ایپلی کیشنز فیس بُک ، ٹویٹر اور ٹک ٹاک کی ہی وجہ سے ایسے ایسے مسائل نے جنم لیا ہے کہ خدا کی پناہ۔ دوسری جانب انٹرنیٹ پر وسیع تعداد میں موجود فحش مواد بھی نوعمر بچوں اور نوجوانوں کے مستقبل سے کھلواڑ کا سبب بن رہا ہے۔ ’ڈیپ فیک‘(Deepfake) یا ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی بھی حالیہ عرصے میں مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ہونے والی پیش رفت کا ایک شاہکار ہے۔ لیکن غیر متوقع طور پر یہ ٹیکنالوجی سائنس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے، معاشرے کے بدنما عناصر کے ہاتھوں استعما ل ہو کر فحش مواد کی تیاری کا سبب بن رہی ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی ’جنریٹو ایڈورسیریل‘ نامی تکنیک کو استعمال کر کے کسی عام شخص کے چہرے پر معروف شخصیت کا چہرہ لگا سکتی ہے، جو دکھنے میں اِس قدر حقیقی ہوتا ہے کہ سچ یا جھوٹ میں امتیاز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مذکورہ ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے ہالی وڈ کی متعدد معروف ہیروئنز کے چہروں کو فحش مواد کی تیاری کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اِس قسم کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر ’ڈیپ فیک‘ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک ایسی بحث کا آغاز ہوا، جو ایک برس گزر جانے کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ تاہم حال ہی میں اِس ٹیکنالوجی کا استعمال میڈیکل سائنس کے شعبے میں کیا گیا، جس سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج کو سائنسدان مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ایک اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی بنیادی طور پر ایسے ’الگورتھم‘ پر مشتمل ہوتی ہے، جو مختلف طرح کے پیٹرنز کو سمجھنے اور اِن کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان الگورتھمز کا استعمال سائنسدانوں نے ایکس ریز، ایم ۔آر ۔ آئی اور سی ٹی سکین کے دوران بہترطریقے سے کینسر کی نشاندہی کے لیے کیا ہے۔ خیال رہے کہ سی ٹی سکین کو طب کی دنیا میں ایک شاہکار قرار دیا جاتا ہے، جس کے ذریعے جسم کے مختلف زاویوں سے ایکسرے لیے جاتے ہیں۔ یہ ایکسرے بنیادی طور پر ایسی  کراس سیکشنل تصاویر ہوتی ہیں جن میں ہڈیوں، خون کی شریانوں اور سافٹ ٹشوز میں پائے جانے والے مسائل کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ محققین کے مطابق مستقبل قریب میں ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی اور سٹی سکین کے امتزاج سے تیار ہونے والی نئی ایجاد سے طب کی دنیا میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیپ لرننگ ٹیکنالوجی کا دائرہ کار صرف طب تک ہی محدود نہیں، بلکہ اِسے سائنس کے مختلف شعبہ جات میں مشاہدات اور تجربات کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے ۔