’’مولانا فضل الرحمن نے پورے سیاسی کیرئیر میں ایک کام بھی ملک کے مفاد میں نہیں کِیا‘‘

سعودی عرب مکمل طور پر امریکا کے ہتھے چڑھ چکا ہے ،ایران کی جانب سے سعودی عرب پر حملے نہیں کیے گئے‘‘

ملکی وہ بین الاقوامی صورتِ حال پر لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب کا خصوصی انٹرویو

 

پاکستان کو امریکا کو سمجھانے چاہیے تھا کہ افغانستان کے طالبان پر ایران اور روس کا اثررسوخ ہے ،وہ ان کو ہر طرح کی مدد دیتے ہیں ،مالی مدد بھی اور اسلحہ کی مدد بھی،جبکہ پاکستان کا اثررسوخ محض یہ ہے کہ یہاں اُن کی کچھ فیملیز ہیں ،جن کی وجہ سے ہم اُن کو دھمکاتے رہتے ہیں‘‘

 

سعودی عرب اور ایران کے تناظر میںہمیں کسی طرح کا دبائو برداشت نہیں کرنا چاہیے ۔اگر ایران کے ساتھ ہمارا کوئی بگاڑ شروع ہواتو پھر لمبا عرصہ رہے گا،جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ہمیں ہر حالت ایران کے خلاف امریکا یا سعودی عرب کی کوئی معاونت نہیں کرنی چاہیے‘‘

 

احمد اعجاز

٭ایران اور سعودی عرب کے مابین حالیہ عرصہ میں کشیدگی بڑھی ہے،اس کشیدگی کی بنیاد ی وجہ تو یمن کی جنگ ہے،لیکن گذشتہ دِنوں سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملہ ہوا۔اس حملے کی ذمہ داری بھی حوثی باغیوں نے لی ،سعودی عرب کے مطابق یہ حملے یمن سے نہیںشام کی جانب سے کیے گئے ہیں،جس کے پیچھے ایران ہے ،اس مؤقف کی حمایت امریکا نے بھی کی ،ایران نے ان الزامات کو مسترد کیا۔آپ بتائیں کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین اصل تنازعہ کیا ہے اور آنے والے وقت میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی نوعیت کیا رہے گی؟کوئی جنگ بھی دونوں کے مابین ہو سکتی ہے؟

٭٭دونوں کے مابین تعلقات میں مغربی قوتوں کی سازش کارفرما ہے۔مغربی قوتیں ایران کو ایک عرصہ سے بدنام کررہی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ ملک دہشت گرد ہے ،یہاں لاقانونیت ہے، وغیرہ۔جب کہ اصل میں ایسا نہیں ہے۔شام کے معاملے میں امریکا نے کہا تھا کہ وہاں احتجاج کرنے والوں نے کیمیکل حملے کیے ہیں لہٰذا ان پر حملہ کرنا بنتا ہے۔ان کیمیکل حملوں کے پیچھے اسرائیل تھا،بہت سی رپورٹ نے اس بات کو ثابت بھی کیا۔ایران اور سعودی عرب کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا جارہا ہے،ایران کے معاملے میں اگر کسی کو سب سے زیادہ تشویش ہے تو وہ اسرائیل ہے۔امریکا کو بھی اگر ایران سے کوئی تکلیف یا پرابلم ہے تو وہ بھی اسرائیل کی وجہ سے ہے۔ایک محتاط اندازہ یہی ہے کہ اسرائیل کی انٹیلی جنس یہ سب کچھ کروارہی ہے ،یہ حملہ بھی اسرائیل کی انٹیلی جنس نے کیا ہے ، سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر جو حملہ ہوا ،یہ واضح کرتا ہے کہ بہت پلاننگ اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہوا ہے ،اور جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے ،میرا نہیں خیال کہ یہ ٹیکنالوجی ایران کے پاس ہو۔یمنی تو ایسا حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔اسرائیل کے پاس امریکا کی جدید ٹیکنالوجی ہے،مجھے یہی لگتا ہے کہ اسرائیل نے حملہ کروایا اور ایران کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔اب دیکھیں کہ مائیک پومپیو اس حملے کے بعد فوری طور پر سعودی عرب پہنچے۔یہاں سے وہ سازش شروع ہوتی ہے ،جس کے لیے یہ سب کچھ کروایا گیا ۔وہ سازش یہ ہے کہ سعودی عرب کو نئے سرے سے ہتھیار فروخت کیے جائیں ،اب کے بار ایسے میزائل سعودی عرب کو فروخت کیے جائیں گے جو ایران پر حملہ آور ہو سکتے ہیں ۔امریکا سعودی عرب سے کہے گا کہ ایران نے آپ کی تیل کی تنصیبات پر حملہ کیا آپ بھی ان میزائل سے ایران کی تیل کی تنصیبات تباہ کردیں۔اگر سعودی عرب کچھ کرے گا تو ایران بھی ردِ عمل دے گا یوں تباہی مچے گی۔اس طرح اسرائیل کی جنگ دومسلم ملک باہم لڑیں گے اور ایک دوسرے کو تباہ کریں گے۔امریکا اس میں پیسہ کمائے گا۔سعودی عرب یہ سمجھتا رہے گا کہ ایران میرا دُشمن ہے اور ایران بھی ایسا ہی سوچے گا۔یہ مَیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سعودی اس معاملے میں امریکا کے ہاتھوں ہمیشہ بے وقوف بنتے چلے آرہے ہیںاور یہی وجہ ہے کہ آج یمن کی جنگ میں پھنسے پڑے ہیں۔یمن کی جنگ میں سعودی عرب کا بہت پیسہ خرچ ہوا اورہورہا ہے ،امریکا کا گولہ بارود بہت فروخت ہورہا ہے ۔ مگر سعودی عرب کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا،سعودی یہ بھو ل گئے کہ یمن کی تاریخ ہے کہ باہر کے حملہ آور کبھی یہاں کامیاب نہیں ہوئے۔لیکن سعودی باز نہ آئے کیونکہ امریکا کی آشیر باد حاصل تھی۔

٭لیکن جس سازش کا آپ ذکر کر رہے ہیں ،اس قدر سادہ معاملہ ایران اور سعودی عرب کی سمجھ میںنہیں آرہا ؟نیز یہ کہ امریکا نے جب سعود ی عرب کو مدد کی پیش کش کی تو سعودی شہزادے محمد بن سلمان نے کہا کہ ہم اپنی جنگ خود لڑیں گے؟اس طرح سے تو یہ انکار ہے؟

٭٭پومپیو کا دورہ میں امریکا نے سعودی عرب سے پوچھا ہوگا کہ آپ کیا کرنے والے ہیں ؟اگر سعودی عرب نے کہا ہو کہ ہم خود اپنی جنگ لڑیں گے تو امریکا سعودی عرب کا ریسپانس چیک کرے گا۔میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ امریکا نے سعودی عرب سے کہا ہو گا کہ جو آپ خود اس وقت کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو وہ کامیابی نہیں ملے گی جو ہماری مدد کے تحت ملے گی۔اصل چیز یہ ہے کہ سعودی عرب نے خود کو امریکا کے حوالے کیا ہوا ہے۔آپ نے ٹرمپ کی وہ باتیں سن رکھی ہیں کہ جس میںوہ کہتا ہے کہ ہماری سکیورٹی کے بغیر تو سعودی عرب ایک ہفتہ بھی نہیں رہ سکتا ہے ،یہ باتیں بہت شرم ناک ہیں ۔یہ عزت نفس کے خلاف باتیں ہیں۔

سعودی حکومت اپنے اندر جمہوریت نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت خائف رہتی ہے،سعودی عرب نے کسی عرب ملک کی فوج اپنے پاس نہیں رکھی ،وہ فوج پاکستان سے لیتے ہیں۔وہ کسی عرب ملک کی فوج اس لیے نہیں رکھتے وہ ڈرتے ہیں کہ اگر کسی عرب ملک کی فوج اُن کے ملک میں آئی تو وہ یہاں کے عوام کے ساتھ مل جائیں گے اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیں گے۔یہ جو سعودی عرب نے خود کو امریکا کے حوالے یہ سوچ کرکِیا ہوا ہے کہ اُن کی سکیورٹی کے لیے ضروری ہے تویہاں سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔جب ٹرمپ نے سعودی عرب کا وزٹ کیا تھا اور سعودی عرب نے جس طرح خدمت کی تھی ،اُس سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی ،امریکیوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں ۔

٭سعودی عرب اگر امریکا کے قریب ہے دونوں اتحادی ہیں تو اس میں کیا برائی یا نقصان کی بات ہے؟

٭٭پاکستان کو دیکھ لیں جب پاکستان نے مشرف کے دور میں امریکا کا ساتھ دیا تو پاکستان کا نقصان ہوا۔اُس وقت امریکا کا ساتھ دیتے وقت یہ نہ سوچا گیا کہ بعدمیں نقصان کتنا زیادہ ہوگا؟چونکہ اب تجربہ ہو چکا ہے اور نقصان کا اندازہ بھی ہوچکا ہے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ پاکستان اب کسی کی کرائے کی بندوق نہیں بنے گا،لیکن اب کچھ دِنوں سے امریکیوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ افغانستان کی جنگ تو ہمیں پاکستان سے اَڈے لے کر لڑنی چاہیے۔اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم آزادانہ اور خودمختارانہ فیصلے کرسکتے ہیں کیونکہ ہماری مالی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔ہمیں سوچنا ہوگا کہ اَٹھارہ سال ہم نے خسارااُٹھاکر دیکھ لیا اب دوبارہ اُسی راستے پرجاتے ہیں تو یہ عقلمندی تو نہیں ہوگی۔لیکن آنے والے وقت میں کس طرح کی مجبوریاں آپ کو اُسی راستے پر چلنے پراُکساسکتی ہیں۔اگر حکومت خودمختارفیصلے کرسکتی ہے تو اس سے اچھی بات کوئی نہیں ہے ۔ہر ملک کو اپنے مفاد کے فیصلے خودکرنے چاہئیں۔سعودی عرب کے صحافی خاشقوجی کا معاملہ ذہن میں رکھیں ،پوری دُنیا شہزادہ محمد بن سلمان کے پیچھے پڑگئی تھی ،مگر ٹرمپ نے کوئی ایکشن نہ لیا تو دُنیا خاموش ہوگئی۔

٭اگر آنے والے وقت میں سعودی عرب اور ایران خدانخواستہ جنگ کی طرف بڑھتے ہیں تو پاکستان کو کیا کرنا ہوگا؟

٭٭اس معاملے میں پاکستان کو وہی کرنا ہوگا جو پاکستان نے یمن کے معاملے میں کیا۔ہماری پالیسی اُس وقت پارلیمنٹ نے واضح کی ،اس معاملے میں بھی پارلیمنٹ سے رُجو ع کرنا چاہیے۔ویسے تو حکومت پاکستان کو ایک پالیسی بنا لینی چاہیے کہ اگر دو اسلامی ملک آپس میں لڑتے ہیں تو ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ہمیں مصالحت اختیار کرنی چاہیے ۔لیکن ان دونوں ملکوں کے حوالے سے ایک فیکٹر یہ ہے کہ اگر امریکا سعودی عرب اور ایران کی جنگ میں شامل ہوتا ہے ،اگرچہ اس کے چانسز کم ہیں ،لیکن اگر امریکا جنگ کا حصہ بنتا ہے تو اُس میں وہ پاکستان سے مدد چاہے گا۔لیکن ہمیں انکار کرنا ہوگا اور واضح بتانا ہوگا کہ ہمارا ایران کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ایران اپنے آئین کے مطابق کام کررہا ہے ،کسی کے خلاف ایران دہشت گردی نہیں پھیلا رہا لہٰذاہم اس جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔میرا اپنا اندازہ یہ ہے کہ امریکا یا سعودی عرب ،اس ضمن میں ہم سے کسی مدد کی خواہش نہیں کریں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کو ایران سے جنگ کے لیے گلف میں وہ تمام سہولیات دستیاب ہیں ،جس کی وہ خواہش پاکستان سے کریں۔قطر میں امریکیوں کا بہت بڑا بیس ہے۔اسی طرح ابوظہبی ،عمان سے مدد لے سکتے ہیں۔

٭لیکن اگر سعودی عرب اور امریکا سے پاکستان پر ایران کے ساتھ جنگ کے معاملے میں کوئی دبائو پڑتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟

٭٭بات یہ ہے کہ دبائو کی شکل میں ہمیں صرف ایک مسئلہ درپیش رہے گا وہ ہے مالی مسئلہ۔کیونکہ مالیاتی ادارے تمام کے تمام ،امریکا کے زیرِ اثر ہیں۔یہ مشکلات تو ہیں ،لیکن اگر ہم یہ مشکلات برداشت کر لیں تو ان کا مداوا چین ،ایران یا کسی دوسرے ملک کی مدد سے ہوسکتا ہے ۔لیکن اگرہم نے دبائو برداشت کیا تو ایران کے ساتھ جو بگاڑ ہمارا شروع ہو گا وہ پھر لمبا عرصہ رہے گا،جس کے ہم دونوں ممالک متحمل نہیں ہو سکیں گے۔ہمیں ہر حالت ،افغانستان اور ایران کے خلاف امریکا کو اڈے نہیں دینے چاہئیں۔

٭ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے دورہ امریکا کے بعد یہ چہ میگوئیاں بھی سنی گئیں کہ چین کے ساتھ ہماراسی پیک پراجیکٹ سست پڑاہے؟

٭٭نہیں ایسا نہیں ہے۔ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ چین کی تجویز یہ تھی کہ ہمیں متبادل ریلوے ٹرائیک بچھا نا چاہیے۔اس پر خرچہ بہت ہے۔پاکستان کو فوری بنیادوں پر اس تجویز پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔اگر کل کلاں سی پیک سے اچھی آمدنی آناشروع ہو جائے اور متبادل ریلوے ٹرائک کی ضرورت پڑجائے تو پھر بنانا چاہیے۔لیکن ایسا کوئی پراجیکٹ شروع نہیں کرناچاہیے کہ جو قرضوں سے بنے اور بعدمیں ہم قرضے اُتارتے رہیں ،اس سے بچنا چاہیے۔

٭امریکا اور افغانستان کے مابین اَمن مذاکرات کے نودور ہوئے،اَمن معاہدہ تشکیل پاچکا تھا ،صدر ٹرمپ کے دستخط رہ گئے تھے کہ سارا معاملہ ہی ختم ہو گیا۔اگرچہ افغان طالبان کی جانب سے امریکا کو کہا جارہا ہے کہ وہ اَمن مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔لیکن صدر ٹرمپ فی الحال اَمن کی طرف نہیں آرہے ،کیا پاکستان امریکا کو اَمن مذاکرات کی طرف لاسکتا ہے؟

٭٭امریکا اور افغانستان کے مابین اَمن مذاکرات کے خاتمے پر انڈیا تو بہت خوش ہے۔اگر افغانستان میں اَمن آجاتا اور آنے والے وقت میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہوجاتی تو انڈیا کو یہ گوارا نہ تھا۔ان مذاکرات کے خاتمے سے پاکستان کو نقصان جب کہ انڈیا کو فائدہ ہوا ہے۔پاکستان کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ امریکا کے کہنے پر ہم افغان طالبان کو راضی کرتے رہے ،ہم افغان طالبان پر ہر طرح کا اثررسوخ استعمال کرتے رہے ،ہم نے افغان طالبان کو دھمکیاں تک دیں ،کیونکہ افغان طالبان کی کچھ فیملیز یہاں ہیں ،جن کی وجہ سے ہم اُن پر دبائو ڈالتے تھے ،ورنہ افغان طالبان پر ہمارا اثررسوخ اور کیا ہوسکتا ہے ؟ان چیزوں کی وجہ سے طالبان مذاکرات کرتے رہے اور ہم اُن پر اثررسوخ استعمال کرتے رہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ آئندہ ہم طالبان پر اپنا اثررسوخ استعمال کرسکیں گے؟مجھے تو بہت مشکل لگتا ہے ۔افغان طالبان کو جب ہم زیادہ مجبور کریں گے تو وہ ہمیں کہہ سکتے ہیں کہ آپ بار بار ہمیں ہی کیوں مذاکرات کا کہتے ہیں ،جبکہ امریکا کو تو آپ مذاکرات کا کہہ نہیں سکتے۔ہاں اگر ایساہو کہ آپ ہمیں بھی کہیں اور امریکا کو بھی کہیں ،تب تو بات ہے۔جب امریکا آپ کو کہتا ہے کہ مذاکرات کرنے ہیں تو آپ ہمارے پیچھے پڑجاتے ہیں ،جب امریکا کہتا ہے کہ مذاکرات نہیں کرنے تو آپ خاموش ہوجاتے ہیں۔اس لحاظ سے ہمارا ایک نقصان یہ ہوگا کہ ہمارا طالبان پر اثررسوخ مزید کم ہوگا۔اُن کے پاس جواز ہوگاکہ وہ ہماری بات نہ سنیں ۔یہ بات پاکستان کو امریکا کو سمجھانے چاہیے تھی کہ افغانستان کے طالبان پر ایران اور روس کا اثررسوخ ہے ،وہ ان کو ہر طرح کی مدد دیتے ہیں ،مالی مدد بھی اور اسلحہ بھی،جبکہ پاکستان کا اثررسوخ محض یہ ہے کہ یہاں اُن کی کچھ فیملیز ہیں ،جن کی وجہ سے ہم اُن کو دھمکاتے رہتے ہیں ،اس کے علاوہ تو ہمارا کوئی اثررسوخ نہیں ہے۔امریکا کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ روس اور ایران سے اس ضمن میں کوئی مدد نہیں مانگ سکتے ہیں۔لے دے کر پاکستان بچتا ہے ،جس کا بازو مروڑ کر وہ مدد لے سکتے ہیں اور ہمارا معاملہ یہ ہے کہ امریکا ہماری کچھ بھی مدد نہ کرے بس پیار سے بات کرلے تو ہم چھلانگیں لگانا شروع ہو جاتے ہیں ۔

٭یعنی آڑے ہماری معیشت آجاتی ہے؟

٭٭جی!بالکل۔

٭پھر پاکستان کی حکومتیں ،اپنے آپ کو معاشی خودمختاری کے راستے پر کیوں نہیں لگاتیں؟

٭٭اس وقت کی معاشی صورت حال کو ہم دیکھیں تو خرابی ساری یہ ہے کہ مارکیٹ میں جو کاروبار چلتا نظر آتا تھا ،وہ سارے کا سارا دونمبر پیسے کی بدولت سے چل رہا تھا۔جو کاروبار اُس وقت حلال کے پیسے سے ٹیکس دے کر چل رہا تھا ،وہ کاروبار آج بھی چل رہا ہے ،لیکن دونمبر پیسے سے کیا جانے والا کاروبار رُک چکا ہے ،لوگوں نے خود روک لیا ہے،کیونکہ پکڑ دھکڑ ہونے لگ پڑی۔پھررئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں سارادونمبر پیسہ لگایا جاتا ہے ،جس نے جو پیسا کمایا وہ پلاٹ لے لیا جاتا،پلازہ ،گھر خرید لیا جاتا۔یہ کاروبار آج بالکل جمود کاشکار ہے۔اس شعبے میں کاروبار بالکل نہیں ہے۔اب یہاں دوآپشنز ہیں ۔عمران خان صاحب اپنی وہ سوچ کہ مَیں کرپشن کا خاتمہ کردوں گا ،اُس سوچ کو دفن کردیں،اُسی نظام کی طرف چلے جائیں جو میاں نواز شریف کا تھا،تم بھی کھائو،ہم بھی کھائیں ،سب کھائیں،جو کھاتے کھلے ہوئے تھے۔اگر عمران خان صاحب اس طرف چلے جائیں تو کاروبار پھر سے چلتا نظر آئے گا۔دوسرا آپشن یہ ہے کہ آج ڈٹے رہیں،کب تک لوگ پیسہ دبا کر بیٹھیں رہیں گے۔آج کچھ فیصلے بڑے اور تلخ کرنے پڑیں گے لیکن اگر سوسائٹی کو ٹھیک کرنا ہے تو پھر یہ فیصلے کرنا پڑیں گے۔ہمیں پرانے نظام کی طرف نہیں جاناچاہیے۔ہمیں آج سخت فیصلے کرنے چاہئیں۔ہماری پارلیمنٹ بالکل بے کار ہے ،وہ پوچھتی ہی نہیں ۔ہمارے خسارے بڑھے ہیں ،قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں ،ایک قرضہ اُتارنے کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہے ،نواز شریف کے دور کے جو قرضے تھے ،وہ اب مزید بڑھ چکے ہیں ،اب یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ اس حکومت سے پوچھیں کہ جو قرضے لے رہے ہیں اس کو کیسے اُتاریں گے؟

٭لیکن پارلیمنٹ کیسے پوچھے ؟وہ تو پکڑ دھکڑ میں پھنسی ہوئی ہے ؟

٭٭پکڑ دھکڑ تو ضرور ہونی چاہیے۔مگر پارلیمنٹ کو یہ پوچھنا چاہیے کہ بھئی!جو قرضے تم لے رہے ہو ،بعد میں جو حکومت آئے گی وہ ان قرضوں کو کیسے اُتارے گی ،اُتار بھی سکے گی یانہیں ؟ اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے ،ان کو چاہیے تھا کہ یہ بہت اچھا کام کرتے جو ادارے خسارے میں ہیں ،ان پر توجہ دیتے ،ایسے اداروں کو منافع بخش بنانے پر توجہ دی جاتی ،مگر نہ ہوا۔جو ادارے آپ کو کما کردیتے ،اُن کو آپ ملکی خزانے سے چلارہے ہیں ۔دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا۔اگر موجودہ حکومت نے میٹروبس کا کرایہ بڑھایا ہے تو اس کو ضرور بڑھنا چاہیے تھا،میٹرو کو آپ نے قرضے لے کر بنا دیا ،اب اگر میٹرو کمائی نہیں کرتی تو قرضہ کیسے اُترے گا؟آپ ہر ماہ ایک ارب کی سبسڈی دیںتو یہ سبسڈی کب تک آپ دیتے رہیں گے۔کل کلاں نئی بسیں لینے کی ضرورت پڑے گی ،ان کے جو اسٹیشن بنے ہوئے ہیں ،اُن کی مرمت کے کام نکلیںگے،پیسہ لگے گا،وہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ہمیشہ جو پراجیکٹ بنایا جاتا ہے ،وہ اس اصول پر بنایا جاتا ہے کہ یہ اپنی مدد آپ کے تحت چلتارہے گا ،یہ جو پیسے کمائے گا ،اس پر لگائے جائیں گے۔

جو پکڑ دھکڑ ہورہی ہے ،وہ میرے نزدیک بے کار ہے ، نیب کی طرف سے یہ سنتے ہیں کہ آج ہم نے فلاں کو پکڑ لیا،لیکن کسی ایک کیس کو بھی نیب منطقی انجام تک نہیں لے جاسکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی کو یہاں سزا نہیں دے سکتے۔یہاں کا کرپٹ فرد بہت مضبوط ہے اور اُس کا ساتھ دینے والے بھی بہت ہیں ،ان ساتھ دینے والوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی موجود ہیں ۔بہت اچھے اچھے لوگ بھی کرپٹ افراد کا مقدمہ لڑتے پائے جاتے ہیں ،یہ تو اُن کی اخلاقیات ہے ۔

٭مگر فیصلے تو نظام نے کرنے ہوتے ہیں ،افراد نے تو نہیں ؟

٭٭دیکھیں !نظام کیا ہے؟کرپٹ فرد کے پاس پیسہ ہے ،وہ نظام میں سے نیچے سے بندے خریدنا شروع کردیتا ہے ،پھر اوپر تک خریدتا چلا آتا ہے ،اُسکے پاس پیسہ اس قدر زیادہ ہے کہ وہ نظام کو خرید لیتا ہے ،پھر وہ کیوں آپ سے پلی بار گین کرے ،آپ کو لوٹا ہو ا پیسہ واپس کرے؟جب اُس کو معلوم ہو کہ وہ ایک دن باعزت طریقے سے باہر آجائے گا۔جس قدر اُس کے پاس پیسہ ہوتا ہے ،اُس میں سے معمولی پیسے سے وہ سسٹم خرید لیتا ہے۔جج ارشد ملک کے کیس کو دیکھ لیں۔جسٹس فائز عیسیٰ کا معاملہ دیکھ لیں ،جس سے ثابت ہوا کہ یہ نظام اپنے پیروں پر نہیں کھڑا ہے۔قاضی فائز عیسیٰ کا کیس دیکھیں؟قاضی صاحب کے پاس جائیداد نکلی ہے ،آپ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ آپ نے پوچھ لیا کہ جناب یہ جائیداد کہاں سے آئی ہے ؟آپ جائیداد کا جواب نہیں دے رہے ،باقی سب کچھ کہے جارہے ہیں ،کبھی کہتے ہیں کہ ملک کا صدر ٹھیک نہیںہے ،اُس نے غلطی کی ہے ،ہماری جو سپریم جوڈیشل کونسل ہے اُ سکے لوگ ٹھیک نہیں ہیں ،وغیرہ۔مگر سوال یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے تو آپ کی جائیداد باہر جاکر نہیں بنائی ؟

٭لیکن اس ضمن میں کہا جاتا ہے کہ کچھ مخصوص لوگوںکو ٹارگٹ کیا جاتاہے؟

٭٭چلیں !یہ بات مان لیتے ہیں لیکن قاضی صاحب کی جائیداد تو پکڑی گئی ہے ناں؟اس کا کیا جواب ہے۔ جواب تو جائیداد کا مانگا جارہا ہے۔حدیبیہ پیپر مل کا جو فیصلہ ہوا ہے ،اس سے زیادہ گھنائونا اور شرم ناک فیصلہ اور ملک دُشمن فیصلہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا،آپ ملک سے کرپشن کیسے ختم کریں گے؟یہ واحدکیس تھا کہ چل جاتا تو میاں نواز شریف کا پورا خاندان اندر ہوسکتا تھا،کسی اور کیس کو کھولنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔لاہور ہائی کورٹ کے ججز کیسے فیصلے کرتے رہے ہیں؟ماڈل ٹائون میں چودہ بندے مرے ،اُس پر جے آئی ٹی نہ بننے دی گی،سسٹم آپ کا بے کار ہو چکا ہے۔

٭مسلم لیگ ن کو آنے والے وقت میں کوئی ریلیف مل سکتا ہے؟

٭٭یہ اس ملک کی بدقسمتی ہوگی کہ اگر شریف فیملی کو کوئی ریلیف ملتا ہے۔اس قوم کے ساتھ ،شریف خاندان نے سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں بولا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا تین بار نواز شریف وزیرِ اعظم رہا لہٰذا ریلیف دے دو،بھئی!تین بار وزیرِ اعظم بنا کر ہم نے غلطی کی ہے ؟ہمیں معاف کردو۔آپ دس کروڑ ووٹ لے کر وزیرِ اعظم بن جائیں تو آپ کو یہ اختیارات حاصل ہوسکتے ہیں کہ قوم کا پیسہ چوری کریں۔آپ کو پیسہ چوری کرنے کی اجازت حاصل ہو جائے گی؟

٭موجودہ حکومت کی کارکردگی کے بارے آپ کا کیا خیال ہے ۔ایک سال کی کارکردگی کو کیسا دیکھتے ہیں ،آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان صاحب پر عوام کا اعتماد برقرار ہے؟

٭٭دیکھیں!مَیں تو دو چار چیزیں جانتا ہوں ۔ایک تو یہ کہ اس حکومت کو پورے پانچ سال اقتدار کرنے کے لیے ملنے چاہئیں۔اگر اس حکومت کو آپ نکال باہر کریں گے تو یہ چین سے نہیں بیٹھیں گے ،یہ آنے والوں کو بھی نہیں بیٹھنے دیں گے۔ہماری سیاست میں بہت گند موجود رہا ہے ،جب یہ حکومت مدت پوری کرلے ،پھر جو نئی حکومت آئے وہ اس حکومت کے لوگوں کا ٹھوک کر احتساب کرے۔احتساب کی روایت پڑنی چاہیے۔یہ ریاست مدینہ تو ہے نہیں کہ سب کا احتساب ہوتارہے۔بدقسمتی سے یہ ریاست مدینہ ہے نہ بنے گی۔دوسری چیز یہ ہے کہ اس حکومت کو فیل کرنے میں جو محنت اور پیسہ لگایا جارہا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔یہ تاثر بھی پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ حکومت بہت نکمی ہے۔مَیں پوچھتا ہوں کہ یہ حکومت نکمی ہے؟کشمیر کے معاملے میں نواز حکومت نے کبھی نام تک نہ لیا۔اس حکومت نے بہت کام کیا ہے اور بہت کام کررہی ہے۔نواز شریف جیسے حکمرانوں نے ہمار ا دنیا میں تاثر خراب کروایا۔

٭مولانا فضل الرحمن اسلام آباد کا رُخ کرنے کی ٹھان چکے ہیں ۔کیا کہتے ہیں اس حوالے سے آپ؟

٭٭مَیں مولانا فضل الرحمن کو بارہا کہہ چکا ہوں کہ وہ اپنی چھتیس سال کی سیاست میں صرف ایک کام بتادیں جو انہوں نے یا ان کی جماعت نے کِیاہو؟مولانا فضل الرحمن صرف ایک کام بتا دیں کہ فلاں کام انہوں نے ملک و قوم کے مفاد کے لیے کیِاتھا؟ایک کام مولانا کے پَلے میں نہیں ہے۔اگر یہ لوگ لے کر اسلام آباد پر چڑھ دوڑتے ہیں تو ملک میرا یا آپ اکیلے کا تو نہیں ہے ناں؟جو بھی نقصان ہو گا ہم سب کا ہو گا۔یہ حرکتیں ملک کے لیے اچھی نہیں ہیں۔مجھے یقین ہے کہ حکومت کے پاس پورا پلان ہوگا ۔