اس برس اپریل میں گندم کی نئی فصل آنے کے باوجود آٹے کی قیمت مستحکم نہیں ہوسکی۔ کبھی آٹا بازار سے غائب ہوگیا ۔ کبھی سرکاری مقرر نرخ سے مہنگا ملنے لگا۔ خیبرپختونخواہ ‘ بلوچستان اور کراچی میں خاص طور سے آٹے کی قیمت خاصی بڑھ گئی ۔ پنجاب میں ملوں کا آٹا تو 43 روپے فی کلوگرام کے کنٹرول ریٹ پر دستیاب ہے لیکن چکی کا آٹا چند ماہ پہلے کی نسبت دس سے پندرہ روپے فی کلو مہنگا ہوچکا ہے۔جب گندم کی نئی فصل آئی تو شروع میں حکومت کہتی رہی کہ گندم کی پیداوار ہمارے سال بھر کی ضرورت کے لیے کافی ہے لیکن بعد میں سرکاری اعدادوشمار سے پتہ چلا کہ ایسا نہیں ہے۔ اس بار گندم کی پیداوار ضرورت سے خاصی کم ہوئی ہے۔تقریباً اٹھارہ لاکھ ٹن کی قلت ہے۔ پنجاب میںدیہات کے لوگ بتاتے ہیں کہ کاشتکاروں کی بڑی تعداد نے زیادہ تر اپنے خاندان کی ضرورت کے مطابق گندم کاشت کی کیونکہ اس فصل سے انہیں کوئی منافع ہونے کی توقع نہیں تھی۔ حکومت نے گزشتہ سال گندم کی سرکاری امدادی قیمت خرید تقریباً چودہ سو روپے فی من(پینتیس روپے فی کلو) مقرر کی تھی جو فصل پر آنے والی لاگت سے بمشکل چالیس پچاس روپے فی من زیادہ تھی۔نئی فصل آئے ابھی ایک دو ماہ گزرے تھے کہ منڈی میں گندم کی قیمت دو ہزار روپے من سے تئیس سو روپے من تک جا پہنچی۔ مانگ زیادہ تھی جبکہ دستیابی کم۔ اب اس قلت کو دور کرنے کو حکومت رُوس سے اٹھارہ لاکھ گندم منگوا رہی ہے۔ باہر سے جو گندم درآمد کی جارہی ہے اسکی قیمت دو ہزار روپے من ہے۔یعنی پچاس روپے فی کلوگرام۔ ظاہر ہے حکومت یہ گندم سرکاری نرخ ( 38.60روپے فی کلو )پر آٹا ملوں کو فروخت کرے گی تو اسے خاصا نقصان ہوگا۔ اگلے برس کے لیے حکومت نے گندم کی امدادی قیمت بڑھا کر سولہ سو روپے فی من مقرر کردی ہے تاکہ کاشتکار زیادہ مقدار میں گندم اگائیں۔ تاہم یہ نرخ عالمی منڈی کی قیمت سے اب بھی کم ہے۔جب ملک میں کسی جنس کا نرخ عالمی مارکیٹ سے کم ہوتا ہے تو اس شے کے ملک سے باہر اسمگل ہوجانے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔وفاقی کمیٹی برائے زراعت نے اگلے سال گندم کی پیداوار کا ہدف تقریباًپونے تین کروڑ ٹن مقرر کیا ہے۔ اگر یہ ہدف حاصل بھی ہوگیا تو بھی ملک میںگندم کی قیمت کنٹرول نہ کی جاسکے کیونکہ اب بھی اسکا سرکاری نرخ عالمی مارکیٹ سے بہت کم ہے۔لوگوں کو گندم کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے اس لیے اگلے برس فصل اترتے ہی ذخیرہ اندوزی شروع ہوجائے گی۔ گندم کی سرکاری قیمت مقرر کرنا کسی بھی حکومت کے لیے اچھا خاصا سر درد ہے۔ اگر قیمت کم ہو تو کسان ناخوش ہوتے ہیں اور اسکی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ اگر قیمت بڑھائی جائے تو آٹا مہنگا ہوجاتا ہے جس سے شہری آبادی بلبلانے لگتی ہے۔جتنی گندم ملک میں پیدا ہوتی ہے اسکا تیس فیصد حکومت امدادی قیمت پر خریدتی ہے تاکہ نئی فصل آنے کے موقع پر آڑھتی کاشتکاروں کا استحصال نہ کرسکیں کہ فراوانی کے وقت انہیں بہت کم قیمت ادا کریں۔ دوسرے‘ جب فصل کے آخری دو تین مہینے ہوتے ہیں جنوری سے مارچ تک تو ذخیرہ اندوز جنس کم ہونے کے وقت اسکی قیمت بہت زیادہ بڑھا نہ سکیں۔ پاکستان کی اسّی فیصد غریب آبادی ہے جو آٹے کی قیمتوں میں یک دم اضافہ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ گو اس کام میں حکومت کو گندم خریدنے اور اسے ذخیرہ کرنے کے انتظامات پرہر سال پینتیس چالیس ارب روپے بینکوں سے سود پر قرض کے طور پر لینے پڑتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشکل پنجاب حکومت کو پیش آتی ہے کیونکہ پاکستان کی گندم کی مجموعی پیداوار کا 75فیصد حصہ پنجاب میںپیدا ہوتا ہے‘ زیادہ تر جنوبی پنجاب میں۔ گزشتہ برس سندھ حکومت نے گندم خرید کر ذخیرہ نہیں کی جس کے باعث سال کے آخر میں پنجاب سے سندھ گندم جانے لگی تو اسکے نرخ بہت بڑھ گئے۔ اس بار سندھ حکومت نے ملوں کو کنٹرول ریٹ پرگندم کی فراہمی تاخیر سے شروع کی جس کے باعث کراچی کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی آٹامہنگا ہوگیا۔ چند روز پہلے سندھ حکومت نے گندم کا اجرا شروع کیا ہے تو آٹے کی قیمت میں سات روپے فی کلو کمی ہوئی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کامکمل انحصار پنجاب کی گندم پر ہوتا ہے۔ وہاں سے افغانستان اسمگلنگ ہونے کی وجہ سے گندم کی کبھی قلت ہوجاتی ہے ‘کبھی اسکا نرخ بڑھ جاتا ہے۔ بعض اوقات پاکستانی گندم وسط ایشیا تک جاتی ہے۔ اگر حکومت ایک دفعہ کڑوا گھونٹ پی کر گندم کا نرخ عالمی منڈی کے مطابق کردے تو افغانستان بھی پاکستان کی سستی گندم خریدنے کی بجائے بین الاقوامی مارکیٹ سے خریدلے۔ جب ہمارے کاشتکار کو اپنی فصل کی مناسب قیمت ملے گی تو اسکی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ دیہات میں غربت کم ہوگی۔لیکن اس ا قدام کی ایک سیاسی قیمت ہے کہ شہری غریب آبادی کے لیے آٹا تینتالیس روپے فی کلو سے بڑھ کر پچپن روپے کلو ہوجائے گا۔گندم کی روٹی ہمارے ملک میں لوگوں کی غذا کا سب سے بڑا جزو ہے۔ کئی لوگ تو چائے یا پانی سے روٹی کھا کر گزارا کرلیتے ہیں۔ اس کے مہنگے ہونے سے آبادی کی اکثریت متاثر ہوتی ہے۔ اسی ڈر سے حکومت یہ فیصلہ کرنے سے گھبراتی ہے۔اگر حکومت کم آمدن والے لوگوں کے لیے سستے آٹے کے راشن پرمٹ یا فوڈٹوکن جاری کردے تومسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اس کام پر تقریباً اتنا ہی خرچ آئے گا جتنا اس وقت محکمہ خوراک اور پاسکو کے ذریعے گندم کاشتکاروں سے خریدنے اور اسے ذخیرہ کرنے پر آتا ہے۔حکومت خو دکو گندم کی خریداری کے کام سے باہر نکال لے ۔ نئی فصل آنے کے چند ماہ بعد گندم کی درآمد کھول دے تاکہ کوئی مصنوعی قلت پیدا نہ کرسکے۔ موجودہ نظام میں کاشتکاروں کو بھی نقصان ہورہا ہے۔ حکومت کو امدادی قیمت کے طور پر اربوں روپے قومی خزانہ سے دینا پڑتے ہیں اور مفت کی بدنامی بھی مول لینی پڑتی ہے۔ حکومت کو گندم کی خرید و فروخت کی بجائے اسکی پیداوار بڑھانے میں کاشتکاروں کی مدد کرنی چاہیے۔ پاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار تین ٹن فی ہیکٹر (ایک ہیکٹر برابر ہے تقریباًاڑھائی ایکڑ)ہے جبکہ دنیا میں اسکی اوسط پیداوار آٹھ ٹن فی ہیکٹر ہے۔ ہماری آبادی جس تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اگر گندم کی فی ایکڑ پیداوار نہ بڑھائی گئی تو اسکا بحرن وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جائے گا۔