بالآخر عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کا اعلان کر ہی دیا ۔پروگرام کے مطابق اس مارچ کا ، جسے انہوں نے آزادی مارچ کا نام دیا ہے ، آغاز جمعہ کے روز 28 اکتوبر کو لبرٹی چوک لاہور سے کر رہے ہیںاور یہ معرو ف اور تاریخی گزرگاہ جی۔ٹی روڈ سے مختلف شہروں سے گزرتا ،قیام کرتا تین یا چار نومبر کو اسلام آباد پر اختتام پذیر ہوگا۔اس کی قیادت عمران خان خود کرینگے۔ اس کے لئے ایک اخباری اطلاع کے مطابق ایک چالیس فٹ لمبا سہولتوں سے آراستہ کنٹینر تیار کیا گیا ہے، جس میں حفاظت کے تمام انتظامات بشمول چار سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں۔ کنٹینر میں جنریٹرز،سائونڈ سسٹم،وائی فائی،کچن اور واش روم کی سہولیات بھی رکھی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ کنٹینر کی چھت پر 80 افراد کی گنجائش بھی ہے جہاں سے پار ٹی کے رہنما وقتا فوقتا جلوہ افروز ہوتے رہیں گے۔ جدید سیاسی تاریخ میںجس لانگ مارچ کے انمٹ نقوش ہیں وہ چیئر مین ماوزے تنگ کا لانگ مارچ ہے جو 1934 میں چیانگ کائی شیک کی استبدادی حکومت کے خلاف تھا۔ یہ لانگ مارچ آج کی سہولیات اور وسائل کے بغیر محض سرخ انقلاب کے جوش اور ماو زے تنگ اور چو این لائی جیسی ہمالیائی قیادت میں تقریبا نو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ تمام تر سفری او رموسمی صعوبتوں کے ساتھ پا پیادہ کیا گیا تھا۔ اس لانگ مارچ نے شرکا ء اور قیادت کی صبر آزما مشقت،،مقصد سے بے لوث وابستگی، ساتھیوں پر متزلزل اعتماد اور کامیابی کے مکمل یقین کے ساتھ ایک ایسی تاریخ رقم کردی جس کی مثال کوئی اور نہیں۔ موجودہ لانگ مارچ جس کا بنیاد ی مقصد نئے انتخابات کے لئے موجودہ حکومت کو ، جسے عمران خان اور ان کی جماعت امپورٹڈ حکومت کا نام دیتے ہیں، فوری طور انعقاد کے لئے مجبور کرنا ہے۔ دوسری جانب حکومت یہ واضح کر چکی ہے کہ انہیں اس کی کوئی جلدی نہیں ہے اور آئندہ سال کے آخر تک انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا۔ہر دو فریق اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور سیاسی حدت بلندیوں کو چھو رہی ہے۔اس وقت ملک جن مشکل حالات سے دوچار ہے ۔ سیاست دان اس کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔۔محاذ آرائی کی شدت کسی کے مفاد میں بھی نہیں ۔ عمران خان اگرچہ اس بات کی یقین دہانی کراتے رہے ہیں کہ ان کا لانگ مارچ پر امن ہوگا اور وہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ہی مجوزہ مقامات تک خود کو محدود رکھیں گے۔ تا ہم اسلام آباد میں جس طرح کے دفاعی اقدامات اور اعلانات رانا ثناء اللہ کی وزارت نے کر رکھے ہیں اس سے اس بات کی امید کم ہی ہے کہ یہ مارچ پر امن رہ پائے گا۔ اس پر مستزاد پاکستان تحریک انصاف کے منتخب سینیٹر فیصل واوڈا نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ انتہائی تشویش ناک اور توجہ طلب ہیں۔ملک کی پیچیدہ قومی اور بین الاقوامی صورت حال کا تقاضہ ہے کہ ملک میںسیاسی استحکام ہو ۔معیشت کی زبوں حالی کسی سے مخفی نہیں۔حکومت کا سارا کاروبار قرضوں اور بیرونی امداد کا رہین منت ہے۔ بیرونی قرضوں کا حصول داخلی سیاسی استحکام کی بنیاد پر ہی ممکن ہے، یہ قرضے ملک کے لئے حاصل کئے جارہے ہیں تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے۔عمران خان خود بھی وزیر اعظم رہ چکے ہیں وہ ملک کی نازک معاشی صورت حال سے بخوبی واقف ہیں۔ ملک کی داخلی سلامتی اور خارجہ امور کے تقاضوں کا انہیں اچھی طرح علم ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف ان ہی دنوں چین کے دورے پر جانے والے ہیں ۔سی پیک کا منصوبہ تعطل کا شکار ہے عالمی سیاست میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ملکوں کی ترجیحات ان کی معاشی ضروریات اور سلامتی کے تقاضوں سے جڑی ہوئی ہیں ۔ نظریات سے زیادہ اب معاشی مفادات تعلقات کی بنیاد بن چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی میں ملکوں کے درمیان دوستی کے پیمانے بدل رہے ہیں اب وہی ملک اپنی آزادی اور سلامتی کو محفوظ رکھ پائے گا جو معاشی طور پر استحکام کی راہ پر ہو ۔کیا ہمارے سیاست دان جو اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں یا کرنے کی دوڑ میں ہیں اتنی سادہ اور سیدھی بات سمجھنے سے قاصر ہیں یا ان کے نزدیک ریاست کے تقاضوں سے زیادہ ا ن کی سیاست اہم ہے۔تحمل سے سوچئے کہ یہ سوچنے کا مقام ہے ۔ ایک غلط اور عصبیت پر مبنی فیصلہ قوم کے لئے جو پہلے ہی بہت سی مشکلات کا شکار ہے مذید مصائب میں مبتلا نہ ہو جائے۔۔ ریاست کے لئے ہر اعتبار سے یہ نازک موقع ہے۔کوئی ایسا قدم یا فیصلہ جو انتشار ،بدامنی ،فساد اور افراتفری کا سبب بن جائے اس سے گریز کرنا ہی اس وقت بہترین حکمت عملی ہو گی۔کیا سیاست دان اس بات کو سمجھنے کے لئے تیار ہیں؟۔لاہور سے راول پنڈی تک پنجاب میںان کی حکومت ہے قوی امید ہے کہ عمران خان کای مارچ راول پنڈی تک تو پر امن رہے گا ۔اسلام آباد میں وفاقی حکومت ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے ۔ دو نوںجانب سے طاقت کا اصل مظاہرہ وہاں پر ہی ہونا ہے۔ملک کی بہتری اسی میں ہے کہ لانگ مارچ کے شرکاء کے اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی ہر دو طرف کے سیاستدان مفاہمت کا کوئی راستہ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ہمیں قوی امید ہے کہ دونوں جانب ایسے سیاستدان موجود ہیں جو اس صورتحال پر یقینا دل گرفتہ ہونگے۔اس کے علاوہ قومی سطح پر دیگر بااثر سیاستدان اور شخصیات موجود ہیں جومفاہمت کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں ملک کی سلامتی اور عوامی مشکلات کے پیش نظر آگے آنا چاہیئے۔ اس ضمن میں ہم سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق،لیاقت بلوچ ،مسلم لیگ نواز سے شاہد خاقان عباسی، ایاز صادق،سعد رفیق ،پیپلزپارٹی سے قمرالزماں کائرہ،اعتزاز حسن،رضا ربانی،راجہ پرویز اشرف ، تحریک انصاف سے پرویز خٹک،اسد قیصر، شاہ محمود قریشی، چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اس ضمن میں اپنا مصالحتی کردار ادا کرسکتے ہیں ۔سپریم کورٹ کے کچھ سابق ججز،علمائے کرام مولانا طارق جمیل ،مفتی تقی عثمانی،مفتی منیب الرحمان بھی اپنا اثر رسوخ بروئے کا ر لاتے ہوئے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مصالحت کے لئے کوششیں کر سکتے ہیں۔کوششیں ہونی چاہیئیں اور مسلسل ہوں یہ وقت کا تقاضہ ہے جو بھی اس میں اپنا کردار ادا کر ے گا وہ سورۃ الحجرات کی آیت میں دی گئی اس ہدایت کے مطابق اپنا دینی فریضہ پورا کرے گا جس میں مومنو ںکے باہمی اختلاف کے موقع پر صلح کی تعلیم دی گئی ہے۔ دانشمندی اسی میں ہے کہ فساد کے خطرے کے پیش نظر اس کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا تدارک کر لیا جائے۔عمران خان اور ان کے سیاسی رفقا بلا شبہ اس ملک کے وفا دار شہری ہیں انہیں اس ملک کی سلامتی کی خاطر مذاکرات اور مفاہمت کی طرف آنا ہوگا ۔اس سے ان کی مقبولیت اور سیاسی قامت میں اضافہ ہی ہوگا ۔کمی ہر گز نہیں۔یہ بات یقینی ہے۔