توخدا کا نور ہے عقل ہے شعور ہے قوم تیرے ساتھ ہے تیرے ہی وجود سے ملک کی نجات ہے تو ہے مہر ِصبح نو تیرے بعد رات ہے میں نے اُس سے یہ کہا یہ ترا وزیر خاں (ایوب خان کے وزیر ،یوں سمجھ لیں جیسے ہمارے آج کے وزیر فواد چوہدری) دے رہا ہے جو بیاں پڑھ کے ان کوہر کوئی کہہ رہا ہے مرحبا فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں شاعرِ عوام حبیب جالب ؔ کی مشہور زمانہ نظم ’’مشیر‘‘ یوں یاد آرہی ہے کہ ان دنوں ہمارے تحریک انصاف کے قائد اور وزیر اعظم عمران خان کے مشیروں ،معاونوںکے بڑے چرچے ہیں۔جہاں تک میری ذاتی معلومات اورمشاہدے کا تعلق ہے اور میں یہ اس بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ دہائی اوپر سے گاہے بگاہے خان صاحب کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ پہ آنا جانا لگا رہا ۔۔۔اس دوران کم از کم محترم نعیم الحق کے بارے میں تو بلا جھجک کہہ سکتا ہوں کہ وہ کوئی دو دہائی سے ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھے اور چلتے ہوئے نظر آتے رہے۔ 1996ء میں تحریک انصاف کی کراچی میں پہلی بڑی بیٹھک ہمارے محترم نعیم الحق کی سسرالی کوٹھی میں لگی تھی۔نعیم الحق جب بھی ملتے اور اسکرین پر دکھائی دیتے ہیں تو ان کی بیگم نازلی ضرور یاد آتی ہیں۔انتہائی مہذب ، پڑھی لکھی اُس زمانے میں نازلی جمیل نے نیوز لائن میگزین کے لئے انٹرویو بھی کیا تھا۔یوں نعیم الحق کے بارے میں بلا جھجک کہا جاسکتا ہے کہ اِن کا مشیر معاون برائے سیاسی امور سو فیصد میرٹ پر ہے۔مشیر معاون برائے میڈیا افتخار درانی ،خان صاحب کے مشہور زمانہ دھرنے کے دوران نمایاں نظر نہیں آئے۔2016ء میں جب بنی گالہ میں محترم عمران خان کا انٹرویو لینے گیا تو اِن سے بطور میڈیا ایڈوائزر تعارف ہوا۔جولائی 2018ء کے الیکشن کی انتخابی مہم میں میڈیا کا محاذ افتخار درانی نے ہی سنبھالا ہوا تھا۔سو اِ ن کی مشیر برائے میڈیا کی تقرری کو بھی سوالیہ نشان نہیں بنایا جاسکتا۔عون چوہدری کے بارے میں دوستی اور یاری کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ بھی نہ ملے گا۔۔۔ جی ہاں ،برسہا برس سے محترم عمران خان کے ساتھ سائے کی طرح لگے ہوتے۔18اگست کو ایوان ِ صدر کی تقریب میں کس کس کو مدعو کیا جائے اور کس کو نہیں ۔۔۔ سنا ہے رات کے آخری پہر تک موصوف عون چوہدری ہی فہرست بنا رہے تھے۔خیال ہی نہیں یقین تھا کہ جب خان صاحب وزارت عظمیٰ کا حلف لینے ایوان ِ صدر میں خراما خراما چلتے آئیں گے تو عون چوہدری شہ بالا بنے اِن کے پہلو لگے چل رہے ہوں گے۔ تقریب کے دن آنکھیں پھاڑے خاص طور پر میڈیا حیرانی و پریشانی سے دیکھ رہا تھا کہ عون چوہدری پہلی تو چھوڑ آخری صف میں بھی نظر نہیں آئے۔اسلام آباد کے باخبر صحافی نے سرگوشی میں بتایا کہ 17اگست کی درمیانی شب انہیں پیغام دیا گیا کہ آپ 18اگست کی تقریب میں مدعو نہیں۔اور اگلے اسائنمنٹ کیلئے جلد آپ کو مطلع کردیا جائے گا۔کوشش ہوتی ہے کہ سنی سنائی کو کالم سے دورر کھا جائے۔۔۔ عون چوہدری کے بارے میں یہ فرمان کس نے جاری کیا؟ اور کیوں کیا؟ اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔۔ ۔ ہفتہ بھر بعد اطلاع آئی کہ انہیں ان کے آبائی شہر لاہور بھیج دیا گیا ہے۔جہاں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مشیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔اب وزیر اعلیٰ پنجاب محترم عثمان بزدار کا ذکر آہی گیا ہے تو کم از کم عقل و منطق تو تسلیم نہیں کرتی کہ پنجاب جیسے چیختے چنگھاڑتے صوبے کی عنان جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے خود تحریک انصاف کی قیادت کیلئے اجنبی نوجوان بزدار کے حوالے کرنے کا صائب مشورہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان کو کس نے دیا؟مگر پاکپتن سکینڈل نے ان شبہات کو تقویت دی کہ خاتون ِ اول کے سابق شوہر خاور مانیکا کا فیملی تنازعہ محض خاندانی جھگڑے کے زمرے میں نہ آتا۔۔۔ ورنہ یہ معاملہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں نہیں آتا۔جہاں ایک کو چھوڑ کر سارے فریقین کی محترم چیف جسٹس کے سامنے طلبی ہوئی بلکہ باقاعدہ اس کی سماعت بھی جاری ہے۔اس سارے قضیے میںہمارے محترم وزیر اعظم کتنے بے قصور اور بے خبر ہیںبقول شاعر عوام حبیب جالبؔ : آپ جانیں یا خدا جانے ذاتی طور پر جتنا میں محترم خان صاحب کو جانتا ہوں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس طرح کے ’’سطحی‘‘ معاملات میں ملوث ہو ہی نہیں سکتے۔لیکن اگر ۔۔۔اوریہ ’’اگر‘‘ کا لفظ بھی اضافی ہے کیونکہ محترم وزیر اعظم عمران خان نے خود بغیر لگی لپٹی ایک سے زائد بار کہا کہ عثمان بزدار اُن کی چوائس ہے۔تو پھر بصد احترام محترم وزیر اعظم کو یہ یاد دلانا پڑے گا کہ تخت ِ لاہور پر پارٹی کی پنجاب قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر عثمان بزدار کی نامزدگی ایک فاش غلطی ہے۔محترم خان صاحب۔ ۔ ۔ آپ ماضی کے سیاستدانوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد صرف بھٹو صاحب کے قائل ہیں۔اور اکثراس کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں۔یہی فاش غلطی بھٹو صاحب بھی اقتدار میں آنے کے بعد کرتے رہے ۔حوالے کیلئے صرف ملتان سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ نواب صادق قریشی کا نام کافی ہے۔ جنہوں نے ملتان کور کے کمانڈر جنرل ضیاء الحق کو انہیں تحفے میں دیا تھا۔خود بھٹو صاحب کے آخری دور میں محض قریشی جیسے بزداران ہی نہیں ۔۔۔ گیلانی ،دولتانے ، ٹوانے ،وٹو، ٹمن سب چھوڑ بیٹھے تھے۔صحافت اور سیاست کے طالب علم کی حیثیت سے علم ہے کہ حکمرانوں کو اس طرح کی نصیحت آموز باتیں پسند نہیں آتیں۔اس لئے مزید مشیران کرام کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ سندھ جیسے صوبے کے نوجوان عمران اسماعیل کو گورنر لگانا،کے پی کے ،کے ارب پتی محمود خان کو وزیر اعلیٰ نامزد کرنا، دن رات اپنے آپ کو اسکرین پہ دیکھنے کے خواہشمند فواد چوہدری کو وزیر اطلاعات جیسی حسّاس وزارت دینا۔اور ہاں۔۔۔ زلفی بخاری ۔۔۔وہ کہتے ہیں نا کہ قصہ تما م ہوا اور مدعا ابھی باقی ہے۔سو باقی آئندہ۔