پاکستانی معاشرے کا اخلاقی زوال اور جنسی ہیجان زدگی کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے۔ انگریز حکومت کے ڈیڑھ سو برسوں نے ایک ایسی اشرافیہ کو جنم ضرور دے دیا تھا،جس کی اخلاقیات اور سماجی زندگی مغرب زدہ بھی تھی اور روشن خیال بھی۔ کلبوں کی رنگین زندگی میں شراب کے کائونٹر بھی تھے اور ڈانسنگ فلور بھی۔ بڑے شہروں میں سکرٹ پہنی اینگلو انڈین و دیگر خوشحال گھرانوں کی خواتین بھی نظر آ جاتی تھیں۔ ہر وہ تجربہ جو امریکہ اور یورپ کی سماجی زندگی میں ہو رہا تھا،برصغیر کے اعلیٰ گھرانوں میں بھی اُسے ضرور آزمایا جاتا،لیکن یہ سب کچھ تین اہم طبقوں کے اعلیٰ گھرانوں تک محدود تھا یعنی سیاسی و کاروباری اشرافیہ، بیوروکریسی اور اعلیٰ فوجی قیادت۔ عام معاشرہ ان ’’شرفائ‘‘ کو بھی ’’گورے‘‘ کے ساتھ میں نتھی کر کے دیکھتا اور ان کے طرزِ زندگی کو بیرونی، مغربی، استعماری اور نوآبادیاتی قرار دے کر مسترد کر دیتا۔ عام شخص نہ ایسی اخلاقیات کو اپناتا تھا اور نہ ہی ایسے رہن سہن کو اوڑھتا۔ تحریکِ پاکستان کے اسلامی تشخص نے پوری قوم میں ایک جذباتیت ’’اسلامی لائف سٹائل‘‘ سے وابستہ کر دی۔ پورا ملک پہلے ہی گروہوں میں تقسیم تھا، لیکن تحریک پاکستان سے یہ خلیج مزید گہری ہو گئی۔ مغرب زدہ حکمران اشرافیہ،پورے ملک میں ایک جزیرہ کی صورت تھی جبکہ باقی کروڑوں عام انسان ایسے تھے جن تک فلموں کے سین بھی سخت سنسر کے بعد پہنچتے تھے اور برسرعام بوس و کنار کرنے پر جوڑوں کو گرفتار کر لیا جاتا تھا۔ اسلام سے جذباتی وابستگی نے 1949ء میں حکمران اشرافیہ سے آئین میں قراردادِ مقاصد منظور کروائی جو اسلامی تشخص کی علمبردار تھی، 1953ء کی ختم نبوت تحریک نے اس جذباتیت کو ایک مرکزیت فراہم کی اور ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی ’’نظامِ مصطفٰے‘‘ تحریک کی کوکھ نے ضیاء الحق کو جنم دیا، جس نے روشن خیال مغرب زدہ اشرافیہ سے بھی زبردستی ان کا ’’آزاد خیال‘‘ لائف سٹائل چھین لیا۔ سول اور فوجی کلبوں اور میسوں سے شراب کے کائونٹر ختم کر دیئے گئے۔ ڈنر کے آخر میں جو شراب کے چند گھونٹ پی کر حکمران سے وفاداری کا اظہار کیا جاتا، جسے "Loyal Toast" کہتے تھے، اب ان گلاسوں میں شراب کی جگہ روح افزاء آ گیا اور کھانے کے آغاز اور آخر میں جینٹلمین ’’بسم اللہ‘‘ اور جینلٹمین ’’الحمدللہ‘‘ کے الفاظ گونجنے لگے۔ سرکاری دفاتر میں زبردستی نمازوں کا اہتمام ہوا، ناظمین صلوٰۃ مقرر ہوئے، زکوۃ عشر کے الفاظ انگریز کے بنائے ہوئے تحصیل داروں کے دفاتر میں وارد ہو گئے اور حدود قوانین نے عام شہری کو ایک جذباتی تسکین فراہم کر دی۔ مگر اس کے برعکس گزشتہ دو سو سال سے انگریز کے سایہ عاطفت میں پل کر جوان ہونے والی اشرافیہ کے دل و دماغ میں ضیاء الحق نام ’’گالی‘‘ بن گیا۔ ضیاء الحق کی موت نے ماحول کو تھوڑا نرم تو کیا لیکن سیاسی اشرافیہ عوامی ردِعمل کے خوف سے ایسا کوئی قدم نہ اُٹھا سکی، جس سے اس کی مقبولیت میں کمی آتی، یوں معاشرے پر مذہبیت غالب رہی۔ پرویز مشرف کا اقتدار پاکستان کیلئے بالکل ایسا ماحول لے کر آیا تھا،جیسا برطانیہ کی ایلزتھ اوّل کے آزاد جنسی تلذذ پسندی کے دَور کا چونکا دینے والا معاشرہ تھا۔’’روشن خیالی‘‘ کے نام پر ہر اس بنیادی اخلاقی قدر کی تذلیل کی گئی جو خاص طور پر شرم وحیاء اور اخلاقی رویوں سے وابستہ تھی۔ نائن الیون کے واقعہ نے مشرف کو طاقت ور ’’مغربی آشیرباد‘‘ فراہم کر دی جس میں مخالفین کو کچلنے کا اختیار بھی حاصل تھا۔ دہشت گردی کے نام پر افغانستان میں فوجیں اُتاری گئیں تو پاکستان میں شدت پسندی کے خاتمے کیلئے معاشرے کو مکمل طور پر روشن خیال، آزاد روش اور مادر پِدر آزاد بنانے کیلئے تمام توانائیاں اور ریاستی طاقتیں جھونک دی گئیں۔ نصابِ تعلیم سے لے کر معاشرتی ماحول تک سب کچھ بزورِ قوت و طاقت بدلا جانے لگا۔ قانون بدلنا اتنا آسان نہ تھا لیکن انتظامی طور پر ایسے قوانین پر عمل درآمد روک دیا گیا جو ’’روشن خیالی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ مرحوم ناصر درانی آئی جی اسلام آباد تھے، انھوں نے ایف سیون کے بدنام زمانہ شراب سپلائی کے اڈے پر چھاپہ مارا تو اس وقت کے وزیر داخلہ نے انھیں گھر بُلا کر ڈانٹتے ہوئے کہا تم ’’پاکستان کو ہزار سال پیچھے لے جانا چاہتے ہو‘‘۔ مخلوط میراتھان ریس کو مغربی طرز پر منعقد کروا کر قوت کا مظاہرہ کیا گیا۔ تمام ٹیلی ویژن چینل اپنے کارپوریٹ سپانسرز کی وجہ سے ویسی ہی زبان بولنے لگے جیسی مغربی دُنیا چاہتی تھی۔ اشتہارات کی دُنیا مغرب زدہ ہو گئی۔ ٹاک شوز میں ایک کمزور قسم کے مولوی کو بُلا کر باقی تین این جی او زدہ افراد سے اس کی ایسی دُرگت بنوائی جاتی کہ رہے نام اللہ کا۔ دہشت گردی کے الزام کا کوڑا ایک عام مذہبی خیالات رکھنے والے انسان کو خوفزدہ کرنے کیلئے کافی تھا۔ لوگ دبک کر بیٹھ گئے، کیونکہ دہشت گردی کے الزام کا خوف ہی بہت تھا، مگر دلوں میں کُڑھتے رہے۔ مساج پارلروں کی بہتات، مارکیٹوں میں فحش فلموں کی سرِعام فراہمی، تعلیمی اداروں میں مغربی اخلاقیات کی سرپرستی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پورے ملک میں پچاس کے قریب سفارت خانوں نے ایسی این جی اوز کیلئے سرمائے کے منہ کھول دیئے جو ملک میں حقوقِ نسواں، انسانی حقوق، نصابی تبدیلی، یہاں تک کہ ہم جنسی پرستی کے تحفظ کیلئے کام کرتی تھیں۔اس ’’کثیر‘‘ سرمائے کی کوکھ سے پاکستان کے بڑے شہروں خصوصاً اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں ایک ’’عجیب و غریب مخلوق‘‘ نے جنم لیا جسے آج ’’سول سوسائٹی‘‘ کہتے ہیں۔ یوں تو یہ سول سوسائٹی خواتین کو پدری سری نظام سے نجات دلا کر اسے ہر شعبۂ زندگی میں مرد کے شانہ بشانہ آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل ہوئی، مگر ان میں اکثر این جی اوز کا مرکز و محور جنسی آزادی اور صنفی اختلاط سے آگے نہ بڑھ سکا۔ دفتروں میں کام کرنے والی عورتوں کی تعداد بڑھی تو مرد ’’باس‘‘ کی طرف سے جنسی ہراسمنٹ میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ایسے شعبے جہاں اس سے پہلے عورت کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی تھی وہاں بھی عورت کو اپنی خاندانی زندگی پر لعنت بھیج کر، بچوں کو ڈے کیئر سنٹر کی آیائوں کے سپرد کر کے، نوکری کرنے پر راغب کیا گیا، جیسے فوج، ایئر فورس، ٹریفک اور لاتعداد ایسے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے۔ بسوں سے لے کر دکانوں، استقبالیہ کائونٹروں سے لے کر پبلک ریلیشنز کے شعبوں تک ہر جگہ خاتون نظر آنے لگی۔ عالمی ایجنڈے کے تحت ایک قانون زبردستی نافذ کیا گیا جس کے تحت مرد اور عورت کی ہر شعبے میں تعداد میں برابری یعنی جینڈر بیلنس (Gender Balance) ضروری تھا۔ دُنیا کے ہرملک کے جمہوری اصولوں پر ’’لعنت‘‘ بھیجتے ہوئے پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کا 33 فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا تاکہ وقت سے پہلے ہی پاکستانی معاشرہ اور اس کے سیاسی ادارے ’’سیکنڈے نیویا‘‘ جیسے آزاد نظر آئیں۔ مشرف کے پہلے پانچ چھ سالوں میں ایک ایسی دھما چوکڑی مچی کہ ہر کسی کو اس ’’روشن خیالی‘‘ میں چھپی آزاد خیالی اور جنسی بے راہ روی سے خوف آنے لگا۔ (جاری ہے)