آتشِ انتقام ، الزام تراشی ، دشنام طرازی ، گریباں گیری، ہاتھا پائی، ضابطہ پامالی، بے سمتی، بے جہتی ، مافیا گردی، کشکول برداری، کفش بوسی اور اللے تللّے جب کسی قوم کی فطرتِ ثانیہ کا روپ دھارنے لگیں تو گویا کسی بڑے حادثے کا عفریت ایک سانس کے فاصلے پر مُٹھّیاں بھینچے اور منہ میں کف بھرے، دبوچ لینے کو تیار کھڑا ہوتا ہے۔ کیا ہم کسی ایسے ہی بڑے حادثے اور المیّے کے منتظر ہیں۔ میرے منہ میں خاک ، مگر لگتا ایسے ہی ہے۔ اِس وقت یہ قوم کسی سایۂ بوم پایہ کی منحوس گرفت میں ہے اور وقت ریت طرح ہمارے ہاتھوں سے تیزی سے نکلا جاتا ہے ۔ کاش ہم سوچتے کہ ہم اس ملتِ اسلامیہ کا حصہ ہیں جس کے بارے میں سورۂ آل عمران میں کبھی ارشاد ہوا تھا کہ تم وہ بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کی رہنمائی کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، معروف کے حکم اور منکرات سے روکنے کے لیے۔ مجھے اپنی ایک مختصر نظم ’’اُمتِ مظلمہ‘‘ یاد آتی ہے: ماتھوں پہ چٹیں لگی ہوئی ہیں/ ہاتھوں میں کاسۂ گدا ہے /حُلقُوم برادراں پہ خنجر/ اور لشکرِ دشمناں میں جا ہے/ عبرت کیشو!نگاہ کرنا/ یہ اُمتِ شاہِ دوسراؐ ہے۔ آپ کسی بڑے شہر کے کسی چوک پر نگاہ ڈالیے، ایک قیامت کا سا منظرآپ کا منتظر ہو گا۔ افراتفری، بے ہنگم پن ، ہاہاکار، تالیاں پیٹتے بھیک مانگتے خواجہ سرا، بہروپ بھرے گدا، پگڑی پوش صدقہ بٹور، گاڑیوں کے ہارنوں کا سماعت سوز شور، ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جنون، ٹریفک قوانین کی شرمناک خلاف ورزی، چنگ چی کے اعصاب شکن بگٹٹ جتھوں کی حشر سامانی، پیدل چلنے والوں کے حقوق کی پامالی، یہ سب کچھ روزانہ کی رو داد ہے جو روز افزوں ہے ۔ یہی قیامت خیزی اور حشر سامانی ذرا چھوٹے پیمانے پر چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی نظر آئے گی۔ ستم بالائے ستم یہی صورتِ حال حاکم حلقوں میں بھی مشہود ہے۔ چوک کے گدڑی لگے گدا سے لے کر اقتدار کے ایوانوں میں گرداں خوش پوش اولی الامر تک ایک ہی کہانی ہے جوسالہا سال سے دہرائی جا رہی ہے اور جسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ قوم کو سمت دکھانے والے دانشور بکاؤ مال بن گئے ہیں۔ میرٹ میرٹ کی دہائی دینے والے بیچ چوراہے میرٹ بیچ رہے ہیں۔ انصاف کا کال، شفادان کرنے والوں کی مال اندوزی ، طلبِ علم سے بیزار ،نت نئے موبائل فونوں پر فدا ، آداب و اخلاق سے تہی بے مہار نژادِ نو۔ یہ ہے ہمارے مستقبل کا اثاثہ ۔ ہمیں یہ احساس تک نہیں کہ صرف لمحۂ موجودمیں زندہ رہنے والوں سے مستقبل ہمیشہ کے لیے روٹھ جاتا ہے، کلیۃً روگردانی اختیار کر لیتا ہے۔ من حیث القوم ہم نے ہر مثبت قدر اور شے کو منڈی کا مال بنا دیا ہے۔ فوری نفع اندوزی اور جلبِ قوت و اقتدار کی ہوس اور للک نے ہر چیز داؤ پر لگا دی ہے۔ میرے بعض دوست کہتے ہیں کہ وطنِ عزیز کو کچھ نہیں ہونے والا۔ یہ رمضان المبارک کی شبِ قدر کو وجود میں آیا ، اسے ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ یہ استدلال سر آنکھوں پر مگر قوموں کے عروج و زوال کے صدیوں پر پھیلے منظرنامے کو نگاہ میں رکھنے والے اس طرز فکر کو خوش فہمی اور خود فریبی قرار دینے میں حق بہ جانب ہیں۔ بلاشبہ وطنِ عزیز نے ایک مبارک رات میں ظہور کیا اور اس کی بنیاد اللہ کی توحید پر رکھی گئی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے تخلیق پاکستان کے اس مقصدِ وحید کو پیش نظر رکھا؟ کیا اس ملک میں اللہ کی حاکمیت کہیں نظر آتی ہے؟ سوائے زبانی جمع خرچ اور روایتی لب چاکری کے ہمارے پلّے میں کیا ہے؟ کاش ہم ہوش کے ناخن لیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ ایک مبارک رات کو وجود میں آنے والے اس ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ ہماری نا انصافیوں اور کھوکھلے کبر و غرور کے ہاتھوں آج سے باون برس پہلے ہم سے الگ ہو گیا تھا؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔ آج ہمارا حال حضرت عیسیٰ ؑ کی گم شدہ بھیڑوں سے کہیں زیادہ دگرگوں ہے۔ کاش ہم یہ سوچتے کہ ہمارا حال و مستقبل اور ہمارامرنا جینا اسی وطنِ عزیز [اور ملتِ اسلامیہ]سے مشروط ہے، وہی وطن جو کلمہ لاالٰہ سے ہمارے تعہد کے نتیجے میں وجود میں آتا تھا اور جسے ہم نے تخلیق پاکستان کے چند ہی برسوں کے اندر اندر طاقِ نسیاں کی نذر کر دیا تھا! فلسفۂ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں اور تاریخ کے تہہ در تہہ اوراق کا تجزیہ کرنے والوں نے قوموں کے عروج و زوال کے چند درچند اسباب بتائے ہیں مگر میں نے ان سے قطع نظر اپنے اور خود معاصر عہد کے نامور حکیم الامت ، اقبال کے افکار میں اس دردناک صورتِ حال کا کھوج لگانے کا ارادہ کیا تو بڑے بڑے نایاب موتی ہاتھ لگے اور اندازہ ہوا کہ قوموں کے اور خود ملتِ اسلامیہ کے زوال کے اسباب پر ان کی نظر کتنی عمیق اور تہ رس تھی ۔ اس ضمن میں فارسی کلام تو ایک طرف ان کا اردو کلام بھی اسبابِ زوال اقوام اور زوالِ امتِ مسلمہ پر بڑے گہرے بصیرت افروز نکتے مہیا کرتا ہے اور اس ضمن میں بال جبریل اور ضربِ کلیم کا مطالعہ خصوصاً ناگزیر ہے۔ اسبابِ زوال کے زاویۂ نگاہ سے مذکورہ کتب اور اقبال کے عمومی مطالعے سے جو چند اہم نکات سامنے آتے ہیں، انھیں کچھ اس صورت میں مرتب کیا جا سکتا ہے: (۱) ذوقِ یقین سے محرومی (۲) حق و باطل کی تمیز کا خاتمہ (۳)فکرِ غلامانہ (۴) نانِ حلال سے بے اعتنائی (۵)نشۂ قوت و اقتدار (۶)مردہ دلی (۷) حقیقی مسائل و مشکلاتِ دنیا سے بے اعتنائی (۸)تقلید اور زوال تحقیق (۹) طاؤس و رباب اور عیش کوشی(۱۰) ملوکیت اور سلطان پرستی (۱۱) خود انحصاری کی طرف بے توجہی (۱۲) خودی سے بیگانگی (۱۳) ملّائی و پیری (۱۴) مرکز سے جدائی (۱۵) تعلیم کی بے جہتی (۱۶) احتساب اور خود احتسابی کا شدید فقدان۔ اقبال کا یہ موقف کس قدر درست تھا کہ فطرت افراد سے تو اغماض کر لیتی ہے مگر ملت کے گناہوں کو معاف نہیں کرتی۔ حق یہ ہے کہ ہم اس وقت اجتماعی گناہوں کا مسلسل ارتکاب کر رہے ہیں اور نتیجۃً اللہ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہم سے یکے بعد دیگرے چھنتی جا رہی ہیں۔ بھوک، بیماری، افلاس، ذہنی نا آسودگی، ڈیپریشن، نزول بلاہائے آسمانی اور قومی و بین الاقوامی بے توقیری کون سی آفت اور اذیت ہے جس سے یہ امتِ بے جہت دوچار نہیں۔ یہ پرخلوص اجتماعی دعا اور استغفار کا وقت ہے۔ اقبال کے نزدیک یقین سے نہ صرف خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے بلکہ یہ الوہی برکات کے لیے بھی ناگزیر ہے ۔ نیمے دروں، نیمے بروں اور کن مکن کی حالت افراد اور اقوام دونو کے لیے سامانِ ہلاکت ہے۔ اقبال نے کس قدر سچ کہا تھا: غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں/جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں۔ یقین کی یہی طاقت ہے جو ابراہیم ؑ کو نار نمرود سے بے خطر کر دیتی ہے اور موسیٰ ؑ کو دریائے بے پایاں میں بے تامل اتر جانے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اسی لیے اقبال نے یقین کو ’’اللہ مستی‘‘ اور خودی و خود انتخابی سے تعبیر کیا ہے: یقینِ مثلِ خلیل آتش نشینی/یقیں اللہ مستی ، خود گزینی/ سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار/غلامی سے بترہے بے یقینی ۔ (جاری ہے)