وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک بھر میں ڈیزل و پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 35روپے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ان کے اعلان نے فاقوں پر مجبور عوام کو مایوسی کے گہرے اندھیروں میں دھکیل دیا ہے ۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکم فروری سے تبدیل ہونے کا امکان تھا لیکن یہ فیصلہ 29جنوری کو نافذ کر دیا گیا۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ چند روز سے ملک کے مختلف علاقوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قلت پیدا ہو چکی تھی۔ اس قلت کے خاتمہ کے لئے اوگرا کی جانب سے تجویز دی گئی کہ قیمتوں میں اضافے کا اعلان فوری طور پر کر دیا جائے۔حکومت کا کہنا ہے کہ ملک میں تیل کی قلت نہیں۔سوال ہے کہ اگر قلت نہیں تو پھر حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ پٹرول پمپ مالکان کی بے جا ضد اور ناجائز منافع خوری کو لگام کیوں نہیں دے سکی۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا استدلال ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران ایک بار بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائی گئیں جبکہ اس دوران عالمی منڈی میں 11فیصد نرخ بڑھے ہیں۔پی ڈی ایم حکومت نے یکم ستمبر کو پٹرول کی قیمت میں 2روپے 99پیسے کا اضافہ کیا تھا۔مٹی کے تیل کی قیمت میں 11روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت تقریباً 10روپے بڑھائی گئی تھی۔اس سے پہلے 15اگست کو وفاقی حکومت نے پٹرول کی فی لٹر قیمت میں 6روپے 72پیسے اضافہ کیا تھا۔ 20ستمبر 2022ء کو حکومت نے ایک بار پھر پٹرول کے نرخ بڑھا دیے اس اضافے کے بعد فی لٹر نرخ 237.43روپے ہو گئے۔ اوگرا کی جاری کردہ تفصیلات بتاتی ہیں کہ ہر 15روز بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بیشی کا اختیار آئل ریفائنریوں اور تیل کی مارکیٹنگ کمپنیوں کے پاس ہے۔آئل ریفائنریاں عرب گلف انٹرنیشنل مارکیٹ سے گزشتہ 15روز کا ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں۔روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اوسط قیمت نکال کر درآمدی قیمت کو فی بیرل کے حساب سے روپوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔اس کے بعد صفائی کے عمل میں خام تیل سے جو مصنوعات نکلتی ہیں ان کے تناسب سے فی لٹر قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اپریل 2022ء کے بعد پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے اقتدار سنبھالا۔پی ڈی ایم نے مالیاتی و معاشی پالیسیوں کے لئے مفتاح اسماعیل کو ذمہ داری سونپی۔غیر ضروری سیاسی مہم جوئی کے نتیجے میں معیشت کو جو نقصان اٹھانا پڑا اس کی وجوہات کو چھپا کر حکومت نے بتانا شروع کیا کہ پی ٹی آئی حکومت معیشت کا بیڑا غرق کر گئی۔بیڑہ غرق کیسے ہوا اس کے جواب میں بتایا جاتا کہ عمران حکومت نے پٹرولیم کے نرخ مصنوعی طور پر بڑھنے نہیں دیے۔ سابق حکومت کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جا رہی تھی تو معیشت کو لاحق خطرات کی نشاندہی کی گئی۔اسی طرح کے خدشات کا اظہار تجزیہ کار کر رہے تھے۔پی ڈی ایم کی قیادت اور اس کے حامیوں کے لئے شائد ریاست سے زیادہ اپنے مفادات عزیز تھے اس لئے ان خدشات پر کان نہ دھرا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آتے ہی پی ڈی ایم نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ ریکارڈ بلند سطح پر پہنچا دیے۔ صرف اکتوبر اور نومبر میں قیمتوں میں کمی بیشی نہ کی گئی۔ اس کی وجہ بھی ملک میں ہونے والی بے تحاشا مہنگائی پر عوامی ردعمل کا خوف تھا۔ جانے حکومتوں نے عوام سے حقائق چھپانے کو وطیرہ کیوں بنا لیا ہے۔وزیر خزانہ جو بات تسلیم نہیں کرنا چاہتے وہ یہ ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تازہ اضافہ کسی بین الاقوامی نرخ میں اضافے کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کی اگلی قسط وصول کرنے کی شرائط پوری کرنا ہے۔تین روز قبل آئی ایم ایف نے حکومت کی مالیاتی اور معاشی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس محاصل بڑھانے کا کہا۔آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا کہ حکومت جب تک پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو پچاس روپے فی لٹر نہیں کرتی ٹیکس اہداف کا حصول مشکل ہو گا۔ یوں تو جاری معاشی بحران کے دوران مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی سیاسی و انتظامی صلاحیت کئی بار بے نقاب ہوتی رہی ہے لیکن تیل مارکیٹنگ کمپنیوں اور پٹرول پمپ مالکان کے سامنے جھک جانا حکومت کی انتظامی گرفت کمزور ہونے کی علامت ہے۔پٹرول فر وخت کرنے والوں کو بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچا دیا گیا۔ کارٹل لائزیشن قانونی طور پر ممنوع ہے۔ اس معاملے میں واضح طور پر پٹرول پمپ مالکان اور تیل کمپنیوں نے کارٹل کے طور پر کام کیا اس لئے ان کے خلاف کارروائی لازم ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی نے تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی مذمت کی ہے لیکن وہ لوگ جو پہلے ہی حکومتوں کی جانب سے نظرانداز تصور ہوتے ہیںان کی زندگی مزید مشکل کا شکار ہو گئی ہے۔مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کو ہے۔ہر فیصلہ اور ہر چیز معیشت اور سماجی امن کے ساتھ منسلک ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکومتی استعداد میں کمی کی علامت ہے ۔عام آدمی پہلے ہی حکومت کو استحصالی قوت سمجھنے لگا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھا کر حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اس کی ترجیحات میں نچلے طبقات کہیں اہمیت نہیں رکھتے۔