پچھلے ماہ سندھ کے علاقے ٹنڈو الہ یار میں بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھ کر بے بس ماں نے پھندا ڈال کر خودکشی کر لی۔ تین روز بعد باپ نے بھی اس پھندے سے اپنی جان لے لی۔بچے اب ماں اور باپ دونوں کی شفقت سے محروم ہیں۔تیس دسمبر کو قمبر شہداد کوٹ میں سیلاب متاثرین کے امدادی کیمپ میں شاہ بیگ نامی باپ نے بچوں کے لئے روٹی کا انتظام نہ کر پانے پر خود کشی کر لی ۔جنوری کے پہلے ہفتے رائے ونڈ میں بھی ایک باپ نے چار بچوں سمیت خود کشی کی کوشش کی ، بر وقت طبی امداد سے انہیں بچا لیا گیا ۔گزشتہ ہفتے کے دوران آٹے کی قطاروں میں لگے تین افراد مر گئے ۔ جانے اگلے چند ہفتوں میں اور کتنے مرنے والے ہیں۔ گھروں میں جب تک آٹے کی آخری مٹھیاں‘ گھی کے چند چمچ اور دال کے کچھ دانے اور موٹر سائیکل کی ٹینکی میں تیل ہے سمجھیں اتنی ہی مہلت ہے۔اس کے بعد کا منظر سوچتے ہی دل کانپ جانتا ہے۔آگ‘ ملبہ اور خون اگلی کہانی لکھیں گے۔ٹریلر اتوار کے روز نظر آیا جب پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کا ہجوم تھا اور ہر ایک حکومت کے بارے میں نا گفتہ رائے کا اظہار کر رہا تھا ۔ حکومت تو خیر ایک مہذب اور متوازن اداروں پر کھڑی انتظامیہ کو کہا جاتا ہے۔وطن عزیز میں ہم نے کبھی وہ حکومت نہیں دیکھی جس کے نمونے ہمیں یونیورسٹی میں پڑھائے گئے۔سچ پوچھیں تو یہ بالائی طبقے شکنجہ ہے جسے حکومت کا نام دے کر ہمیں بہلایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں کوئی آسیب ہے جسے بار بار تخت پر بٹھا دیا جاتا ہے۔عوام انقلاب کے لئے تیار ہوتے ہیں تو انہیں کسی مقبول شخصیت کے پیچھے بھیڑ بکری بنا کر لگا دیا جاتا ہے۔25مئی کو یہ آسیب تابوت سے باہر آیا اور پرامن سیاسی کارکنوں پر قہر بن کر ٹوٹا‘ 2014ء میں بھی اسے 14معصوم افراد کا خون ماڈل ٹائون میں پلایا گیا تھا۔ان دنوں پھر یہ آزاد ہے۔حیرت یہ کہ پولیس‘ عدالتیں اور حکومت خون آشام عفریت کے اتحادی ہیں۔مسلم لیگ ن نے یہ منصوبہ عرصے سے سوچ رکھا تھا کہ جائز ناجائز طریقے سے اقتدار میں آ کر مخالفین سے انتقام لینا ہے۔ حمزہ شہباز چند روز وزیر اعلیٰ رہے اور پولیس کو تشدد کی چھٹی مل گئی۔نگران حکومت بنے ابھی چند روز ہوئے ہیں‘ مریم نواز سرکاری پروٹوکول کے ساتھ واپس آئیں‘ پنجاب میں حکومت بنانے کا دعویٰ کر دیا اور ساری ن لیگ ایک نئی توانائی کے ساتھ ناچتی پھر رہی ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ کہیں پورا نظام نہ لپیٹ دیا جائے۔فواد چودھری کو جیل میں بند رکھنے پر اصرار ظاہر کر رہا ہے کہ آگ کو ٹھنڈا کرنے والا عملہ ابھی تک لاتعلق ہے، یا پھر چاہتا ہے کہ آگ کچھ اور نقصان کرے۔ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ عمران خان بہت ضدی اور بے لچک ہیں۔ ان کا رویہ کئی بار غیر مناسب ہو جاتا ہے‘ وہ اپنے ماضی کا ایک بوجھ بھی اٹھا کر چل رہے ہیں لیکن ان کی کوشش سے پاکستانی سماج میں یہ سوچ پختہ ہو چکی ہے کہ ملک کی معاشی حالت خراب ہونے کی وجہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی بدعنوانی ہے۔جن لوگوں کی وفاداری صرف ریاست کے ساتھ جڑی ہے ان کے لئے ان دونوں جماعتوں کے قائدین کی بیرون ملک جائیدادیں مال مقدمہ کا درجہ اختیار کر گئی ہیں۔ معاشی افراتفری والے سماج کی سوچ کا حتمی تعین Have notsاور Havesکرتے ہیں۔شائد عام پاکستانی کے ووٹ کو اسی لئے تبدیلی کا ذریعہ بننے سے روکا جاتا ہے کہ Havesانہیں اپنے مفادات کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ افلاس زدہ طبقات کو پوری جمہوری آزادی دیدی گئی تو وہ تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے ایوان میں نمائندہ بن کر داخل ہو جائیں گے اور پھر اختیار طلب کریں گے۔اشرافیہ اکثریتی آبادی کو اختیار نہیں دینا چاہتی اس لئے اس وقت اپنے ہی بچوں کو کھانے لگتی ہے جب عام آدمی ان سے کوئی امید باندھ لیتا ہے۔ مریم نواز اپنی سرجری اور والد کی مزاج پرسی کے لئے برطانیہ گئیں۔وہ جب پاکستان سے گئیں تو مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں نے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں تازہ تازہ زخم کھائے تھے۔اس شکست کی وجہ مریم نواز کی انتخابی منصوبہ بندی کو قرار دیا گیا۔وہی مریم نواز لندن میں تھیں تو انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر بنا دیا گیا۔ان دونوں فیصلوں کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پارٹی کے کچھ سینئر ارکان نے خود کو شریف خاندان کی سیاست سے دور کر لیا۔دبے لفظوں میں ایک نئی جماعت کی تشکیل کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں لیکن تاحال یہ مشاورت اور مکالمہ تک محدود سرگرمی ہے جس سے عوامی سطح پر کچھ حمایت کشید کرنے کی حکمت عملی روبہ عمل ہے۔مریم نواز کی ہدایت پر مسلم لیگ ن لاہور کی صدارت سیف الملوک کھوکھر کو مل گئی ہے۔اگرچہ سعد رفیق اور سلمان رفیق اس پر ناراض معلوم ہوتے ہیں لیکن وہ ابھی پارٹی کے ساتھ دکھائی دیتے ہیں تاہم بطور چیف آرگنائزر مریم نواز جب تمام تنظیمی عہدوں پر اپنی ٹیم کے لوگ نامزد کریں گی تو یہ جماعت نون اور شین کے ٹیگ سے نکل کر مسلم لیگ میم بن جائے گی۔بطور جماعت اس پارٹی کا وجود ابھی نابود نہیں ہو گا لیکن نابودی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ مریم نواز ایئر پورٹ سے باہر آئیں اور پھر کارکنوں سے خطاب کیا۔مجھے توقع تھی کہ ان کے خطاب میں کوئی ایسا ایجنڈا پیش کیا جائے گا جو حکومت کی بدانتظامی ‘ غیر مقبولیت اور نااہلی کے تاثر کو دور کر سکتا۔ میرا خیال تھا کہ مریم نواز وزارت اعلیٰ کا جو خواب پرس میں ڈال کر لائی ہیں اس کی جھلک ان کی گفتگو میں نظر آئے گی‘ لیکن انہوں نے باہر جاتے وقت جن کوششوں کا سلسلہ چھوڑا تھا واپس آ کر وہیں سے پھر شروع کر دیا ہے۔کوئی انہیں بتانے والا نہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور اپنی موت کی ایف آئی آر مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف تاریخ میں درج کرا رہے ہیں۔