حال ہی میں گلگت بلتستان کے عوام نے بجلی کی طویل بندش، گندم کی قلت، ٹیکسوں کے نفاذ اور حکام کی جانب سے زمینوں پر مبینہ قبضے کے خلاف تقریباً 11 دن تک منفی 11 درجہ حرارت میں احتجاج کیا۔ غیر معمولی عوامی مظاہروں کو قومی میڈیا نے خاطر خواہ کوریج نہیں کی۔ تاہم سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز اور تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے پر اتر آئے ہیں۔ درحقیقت یہ مظاہرے خطے میں دہائیوں سے جاری اقتصادی بدحالی، سیاسی محرومی اور بری حکمرانی کا ردعمل ہیں۔ گلگت بلتستان طویل عرصے سے کئی مسائل کا سامنا کر رہا ہے ۔متعدد مقامی حکومتوں اوروفاقی وزارت امور کشمیر اور گلگت بلتستان نے ان مسائل کے حل میں مجرمانہ غفلت برتی۔ اسٹرٹیجک لحاظ سے اس اہم خطے میں حالیہ ہنگامہ آرائی اور عوام میں پائے جانے والے عدم اطمینان کی ذمہ دار مقامی اور وفاقی حکومت دونوں ہیں۔ گلگت بلتستان میں شدید سردی کے دوران بھی 20 گھنٹے تک بجلی کی بندش معمول ہے۔ حالانکہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا واٹر بینک کہا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کو صرف 280 میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خطے میں 40,000 میگاواٹ پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ تاہم مقامی سطح پر صرف 186 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ سردیوں میں پانی کی آمد میں 50 فیصد کمی ہوجاتی ہے۔جس سے بجلی کی پیدوار میں بھی نمایاں طور پر کم ہوجاتی ہے۔ اوپر سے ظلم یہ ہے کہ گلگت بلتستان نیشنل گرڈ سے منسلک ہے اور نہ ہی اس کا مقامی گرڈ ہے۔ بجلی پیدا کرنے والے زیادہ تر منصوبے صرف ملحقہ علاقوں کو بجلی فراہم کرتے ہیں ۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مارکیٹ سے گندم اچانک غائب ہو نا شروع ہوئی۔ 15 کلو آٹے کی قیمت 2300 روپے تک جاپہنچی ہے۔فطری طور پر عوام کی چیخیں نکلنا تھیں۔ گلگت بلتستان کی حکومت عوامی عدم اطمینان کی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے آٹے کی دستیابی میں تیزی سے کمی کو قرار دیتی ہے جس پر پہلے سبسڈی دی جاتی تھی۔وفاقی حکومت کو درپیش مالی مشکلات کا نزلہ ہرکسی پر یکساں گر رہاہے۔پی ٹی آئی کی حکومت نے وفاقی حکومت کی جانب سے بجٹ کٹوتی پر بہت احتجاج کیا لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ مقامی سطح پر مالیاتی خودانحصار ی کی خاطر گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نے اگست 2022 میں ریونیو اتھارٹی بل منظور کیا۔اس پر سخت احتجاج ہوا۔ ہوٹل ایسوسی ایشن اور تجارتی انجمنوں نے اس طرح کے محصولات کے نفاذ کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ یاد رہے کہ گلگت بلتستان کو اب تک ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ آمدنی کا واحد ذریعہ وفاقی حکومت سے ملنے والی سالانہ گرانٹ ہے ۔ جس کے بل بوتے پر گلگت بلتستان کی انتظامیہ کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔ اور ترقیاتی منصوبوںپر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ گلگت بلتستان کے سیاسی اور سماجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس خطے میں روزگار کے محددو ذرائع ہیں۔ یہاں تک کہ چین کی سرحد گزشتہ تین سالوں سے کوویڈ 19 کی وجہ سے بند ہے۔عالم یہ ہے کہ ایک تحقیق کے مطابق گلگت بلتستان میں سالانہ 5000 کے قریب طلباء فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے صرف 500 کو ہی روزگار مل سکتا ہے۔گلگت بلتستان کے شہری اکثر رنجیدہ ہوکر بتاتے ہیں کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا گیٹ وے ہونے کے باوجود اس خطے میں کوئی قابل ذکر صنعت قائم نہیں ہوئی۔اس پس منظر میں ٹیکسوں کے نفاذ سے غربت کی شرح میں مزید اضافے اور عوام میں احساس محرومی بڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جاتاہے۔ ایک اور مسئلہ جس نے ہر مکتب فکر کے لوگوں کو ہلا کررکھ دیا،وہ مبینہ طور پر زمینوں پر قبضے کاہے۔ مہاراجہ جموں و کشمیر نے 1927 میں جائیداد کی ملکیت اور سرکاری ملازمت کے لیے مقامی لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک قانون نافذ کیا تھا، جسے سٹیٹ سبجیکٹ رول کہاجاتاہے۔ ذوالفقار علی بھٹوکی حکومت نے 1970 کی دہائی کے اوائل میں اس قانون کا خاتمہ کردیا۔ اس طرح گلگت بلتستان میںہزاروں لوگ باہر سے آکر آباد ہوئے۔ انہوں نے جائیدادیں خریدیں اور کاروبار بھی جمائے۔ کچھ عرصے سے لوگ اس خدشے کا اظہار کرتے ہیں کہ اگر اس قانون کو بحال نہ کیاگیا تو کسی مرحلے پر مقامی لوگ اقلیت میں بدل سکتے ہیں۔ پہاڑی مشترکہ چراگاہوں اور بنجر زمینوں کو صدیوں سے خالصہ سرکار کی سرزمین سمجھا جاتا رہا ہے۔ بنجر خالصہ زمینوں پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے اور سرکاری منظوری کے بغیر انہیں فروخت کیا جا تاہے۔ مقامی عدالتوں کو زمین کی غیر قانونی منتقلی کے بارے میں متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلم لیگ نون کی سابقہ اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت نے ایک کمیٹی بنائی تھی۔ مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ حکومت بتدریج مجوزہ زمینی اصلاحات کے ذریعے تمام خالصہ سرکار کی زمین پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ دیہات میں واقع خالصہ اراضی گائوں کے مکینوں کی مشترکہ ملکیت ہے۔ حکومت کا اس اراضی پر کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ عوامی مطالبہ ہے کہ حکومتی ادارے کسی بھی قانونی بہانے سے چراگاہوں اور زرعی زمینوں پر قبضہ نہ کریں۔ حکمران اتحادپاکستان تحریک انصاف، مجلس وحدت مسلمین اور اسلامی تحریک کا معاملہ دلچسپ ہے۔ حکومت کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں اور عوامی مظاہروں میں شریک ہوکر جوشیلی تقرریں بھی کرتے ہیں۔ مشتعل شہریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور وفاقی حکومت کو اپنی ناقص طرز حکمرانی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ آزادکشمیر کے وزیراعظم سردار تنویرالیاس کی طرح گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید بھی زیادہ تراسلام آباد میں قیام کرتے ہیں۔ ان کی غیر موجودگی میں لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کی عدم موجودگی کے باعث زیادہ تر وزرا ء اور افسران بھی دفتروں میں دستیاب نہیں ہوتے۔ سردار تنویر الیاس ہی کی طرح گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ موجودہ وفاقی حکومت کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ استوار نہیں کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔ گلگت اور اسلام آباد کے درمیان کشیدہ تعلقات کے تنائج اس خطے کے شہریوں کے لیے تباہ کن نکلے ہیں۔ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے سالانہ بجٹ میں نمایاں کمی کی جس سے کئی ایک ترقیاتی منصوبوں پر کام کی رفتار سست پڑھ گئی۔ اور بجلی کا بحران شدت اختیار کرگیا۔ وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کے تئیں ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس خطے کے تمام مسائل کو ترجیح بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد بھی ہونا چاہیے تاکہ نئی لیڈرشپ کو ابھرنے کا موقع ملے اور موضوع گفتگو گورننس بنے۔ نجی سرمایہ کاروں کو خطے میں معاشی تبدیلی لانے کے لیے بجلی کی پیداوار اور سیاحت کی ترقی جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا جانا چاہیے۔یہ کام وفاقی حکومت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور اسے روزمرہ کے کاموں سے ہی فرصت نہیں۔