برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ اور جدوجہد کا نتیجہ تخلیق پاکستان تھا جس کے پیچھے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کی قربانیاں, محبتیں اور دعائیں شامل تھیں۔ بالٓاخر اتنی قربانیوں اور دعائوں کے نتیجے میں اسلام کی حقیقی تعلیم کے پس منظر میں ایک نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام ممکن ہوا ۔جس کا مطلب و مقصد توحید و رسالت کی عظمت بحال کرنا تھا۔ بدقسمتی سے چونکہ قیام پاکستان کے وقت جو فعال اور مقتدر قوتیں تھیں وہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے ناواقف تھیں۔ نتیجتاً عامتہ المسلمین کے جذبات اور ایثار کے نتیجے میں پاکستان تو قائم ہوگیا لیکن ایک فلاحی اسلامی ریاست نہیں بن سکا۔ جس کی ذمہ داری زیادہ تر ان لوگوں اور مخصوص ٹولے کے سر جاتی ہے جو اپنے خاندانی مقامات, مفادات اور اعزازات کو بچانے میں مصروف رہا۔ یہ عمل آج تک روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جن لوگوں نے اسلام اور جمہوریت کے نام پر اقتدار حاصل کیا انہوں نے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ کرنے کے بجائے اپنے مفادات اور خاندانی مقامات کو قائم رکھنے کے لئے داخلی اور خارجی پالیسوں کو داوْ پر لگائے رکھا۔ اس گھناونے کھیل میں دانستہ و نادانستہ طور پر سارے مالدار اور مراعات یافتہ طبقات نے پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے بجائے مچھلی منڈی بناکر رکھ دیا۔ قدرت نے اس ملک کو بے پناہ مادی اور انسانی وسائل عطا کررکھے ہیں لیکن ان وسائل کا بے دریغ ظالمانہ استعمال کرتے ہوئے ذمہ داروں, حکومتوں اور حکمرانوں نے جو سیاسی گندا کھیل جاری رکھا۔ جس طرح لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھا اس کے نتیجے میں معیشت برباد, سیاست بدنام اور شرافت ناپید ہو گئی۔ ایسے ایسے شریف آئے کہ شرافت منہ چھپاتی پھر رہی ہے۔ آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ ملک کا موجودہ حادثاتی وزیراعظم شہبازشریف یہ کہتا ہے کہ مانگنے والوں کے پاس پسند ناپسند کا حق نہیں ہوتا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف یہ کہتا ہے کہ ہم پاکستانی آکسیجن کٹ پر ہیں اور امریکہ اگر یہ آکسیجن کٹ ہٹا دے تو ہماری موت واقع ہوسکتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان یہ کہتا ہے ہم بھوکے رہ لیں گے غلامی قبول نہیں کریں گے۔ پاکستان کو اقوام عالم میں ایک زندہ پائندہ با وقار قوم بنا کر دم لیں گے۔ یہ مشن تو ٹیپو سلطان کا مشن ہے۔ جس نے کہا تھا کہ شیر کی ایک سال کی زندگی گیڈر کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر ہے۔ بلا شک و شبہ وہ وقت قریب آنپہچا ہے جب ہم پاکستان کو ایک آزاد و خود مختار اور غیرت مند قومی حمیت کا حامل ملک بنائیں گئے جس کے لئے بڑی جوانمردی, دلیری اور جذبہ ایمانی سے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر ان ضمیر فروشوں کفن فروشوں اور وطن فروشوں کے آگئے ایک آہنی دیوار کھڑی کردی گئی ہے۔ ہم وطنوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اس سرزمین پاک کے تحفظ اور استحکام کے لئے کھڑے ہوجائیں، جدوجہد کریں۔ یقیناً یہ قوم اس دعوت کو قبول کررہی ہے۔ چونکہ یہ ملک کی بہتری کا جذبہ ہے یہ پاکستان کی آئندہ نسلوں کی بقاء کی جدوجہد ہے یہ نظریئے اور قومی اساس کا مسئلہ ہے جس کے لئے یہ ملک بنایا گیا تھا اور اب اس کی یہ حالت ہے کہ: بقول استاد محترم پروفیسر محمد رفیق بھٹی; " شوق سے جو سپنوں میں سجایا یہ وہ پاکستان نہیں پیار سے جس کا دیپ جلایا یہ وہ پاکستان نہیں جس کی خاطر لاکھوں انساں ہجرت سے سرشار ہوئے خونٍ جگر سے جس کو بنایا یہ وہ پاکستان نہیں اپنے گھر آبا کی قبریں چھوڑ کے آنے والوں نے ذہن میں تھا جو نقش سمایا یہ وہ پاکستان نہیں جس کو فلاحی مرکز جانا اسلامی اور جمہوری جس کا ترانہ مل کر گایا یہ وہ پاکستان نہیں چائے کے باغات کدہر ہیں پٹ سن کے وہ کھیت کہاں ڈھاکہ تھا جس کا سرمایا یہ وہ پاکستان نہیں صدیوں کی قربانی دے کر ہم نے جو تحصیل کیا دل کہتا ہے میرے خدایا یہ وہ پاکستان نہیں شاعر مشرق نے جو سوچا قائد نے جو لے کے دیا غور کیا تو دل گھبرایا یہ وہ پاکستان نہیں سچی بات یہی ہے مانو تو اظہار کروں جس کے لئے اشکوں کو بہایا یہ وہ پاکستان نہیں" حالیہ دنوں میں یہ تجزبے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ پاکستان کی قوم کراچی تا خیبر اور بیرونی ممالک میں یہ تہیہ کر چکی ہے کہ پاکستان کو اس کے بیرونی دشمنوں سے آزاد کروانے کے لئے اندرونی دشمنوں سے آزاد کروانا ہوگا اور پْرامن جدوجہد کرنی ہو گی وگرنہ یہ مافیاز خود تو امیر تر ہوتے جائیں گے اور ہمیں نسل درنسل قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر رکھیں گے۔ بیرونی ممالک میں مسلسل پْرامن مظاہروں جلسوں اور ریلیوں اورسیزز پاکستانیوں کی حب الوطنی قابل تحسین ہے۔ یاد رہے کہ عمران خان پر الزامات عائد کئے جانے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ کیس بنائے جائیں گے۔ توشہ خانہ, ہیلی کاپٹر سیکنڈل نجانے کیا کیا الزامات آئیں گے لیکن عمران خان ان الزامات کے نفسیاتی دبائو سے بہت آگئے جاچکا ہے۔ یہ صرف اوچھے ہتھکنڈے ہیں جو اس کی عوامی مقبولیت کو کم کرنے کے لئے ہیں ایسے الزامات ہر جانے والی حکومت کے اوپر لگائے جاتے ہیں۔