پاکستان کی معیشت ڈوب رہی ہے اور پاکستان کی قیادت اس کے بارے میں غوروفکر کرنے پر بھی تیار نہیں ہے۔ وزیر خزانہ ہر بدخبری اس طرح سناتے ہیں جیسے اپنا کوئی کارنامہ بیان کر رہے ہوں۔پچھلے ایک ہفتے سے وہ منظر سے مکمل طور پر غائب ہیں۔ڈالر کی اڑان روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے اور اچھے خاصے چلتے ہوئے کاروبار بند ہو رہے ہیں۔ بجلی کی قیمت بھی باقاعدگی سے بڑھ رہی ہے اور برآمد کرنے والی صنعت ان اخراجات کے ساتھ بین الاقوامی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کھو رہی ہے۔اس کا نتیجہ صاف ظاہر ہے۔برآمدات متاثر ہوں گی اور ادائیگی کا توازن بگڑے گا۔محترمہ مریم نواز کے بقول لولی لنگڑی حکومت صرف اپنی مدت پوری کرنے کے بارے میں فکرمند ہے۔مریم نواز نے صاف کہا ہے کہ اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ کبھی حکومت میں نہ رہتی۔ نواز شریف بھی بار بار کہہ چکے ہیں وہ حکومت لینے کے لئے آغاز سے ہی متفق نہیں تھے۔پنجاب کے ضمنی الیکشن میں عبرت ناک شکست کھانے کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت اپنے حواس کھو چکی ہے۔اس شکست کے بعد جو فیصلے بھی حکومت کر رہی ہے وہ اسے عوام کی نظروں میں مزید گرانے کا سبب بن رہے ہیں، جس طرح پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت کو بچانے کے لئے دھونس اور دھاندلی کا استعمال کیا گیا۔عوام کی نظر میں واضح ہو گیا کہ ان کا جمہوریت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ اپنے اقتدار کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے جو موقف اختیار کیا اور ایک مغرور پارٹی لیڈر کے خط کی بنیاد پر جس طرح ق لیگ کے سو فیصد ووٹ گنتی میں شامل کرنے سے انکار کر دیا وہ پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی اخلاقی کمزوری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ دینے کے بعد منظر نامے سے غائب ہیں، یعنی عملی طور پر کسی کو شکل دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔ عدالت کے بار بار بلانے کے باوجود ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور اپنے وکیل کو ہی عدالت میں پیش کیا۔اصل بات یہی ہے کہ ان کے پاس عدالت کے سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔عدالت نے کوئی تیس بار ایک ہی سوال پوچھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں وہ پیراگراف دکھا دیں جس کا حوالہ دے کر ڈپٹی سپیکر نے فیصلہ صادر کیا تھا۔کوئی وکیل اس سوال کا جواب نہیں دے سکا اور سارا زور اس بات پر لگایا گیا کہ کسی طرح یہ مقدمہ اس عدالت کی بجائے فل کورٹ کے سامنے چلا جائے۔جو ستمبر سے پہلے نہیں لگ سکتی۔ان کا مقصد صرف اور صرف ایک منطقی فیصلے کو ٹالنا اور وقت حاصل کرنا تھا۔عدالت کو پریشر میں لانے کے لئے پی ڈی ایم کے سارے لیڈر وزیر اعظم ہائوس میں کانفرنس کر کے عدالت کو dielation دینے کی کوشش کرتے رہے اور عدالت کے لئے توہین آمیز جملے استعمال کرتے رہے۔دوسری طرف ن لیگ کے سوشل میڈیا نے عدالت اور جج صاحبان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔الحمد للہ کہ عدالت اس پریشر سے متاثر نہیں ہوئی اور ہر متعلقہ وکیل اور پارٹی کو تسلی سے سننے کے بعد ایک صائب فیصلہ صادر کیا۔اس مقدمے کے فیصلے کے لئے تو بہت زیادہ قانونی علم کی ضرورت بھی نہیں تھی۔درحقیقت یہ ایک Common Senceکا مقدمہ تھا اور دنیا کا کوئی بھی شخص اس مقدمے کا یہی فیصلہ کرتا بشرطیکہ وہ حواس اقتدار میں اندھا نہ ہو گیا ہو۔پی ڈی ایم کے رہنمائوں نے اس فیصلے کے بعد جس طرح عدالت اور ججوں پر رقیق حملے کئے ہیں اور اسے انصاف کا قتل قرار دیا ہے۔ درحقیقت توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے عدالت شاید مصلحتاً اس کا نوٹس نہیں لے رہی۔پی ڈی ایم کی قیادت جو کہ زیادہ تر غیر منتخب لوگوں پر مشتمل ہے، خود اپنے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔مریم نواز تو شاید یہ بھی بھول گئی ہیں کہ وہ ایک سزا یافتہ شخص ہیں اور ضمانت پر ہیں وہ عدالتوں کو تضحیک کا نشانہ بناتے وقت بھول جاتی ہیں کہ انہی عدالتوں کی بدولت ان کے والد صاحب جیل سے نکل کر لندن میں آزادی کی ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔وہ شاید یہ بھی بھول گئی ہیں کہ ان کے چچا محترم اور موجودہ وزیر اعظم کی آیڈیو آج بھی موجود ہے جس میں وہ جسٹس قیوم کو محترمہ بے نظیر بھٹو کو سخت سزا دینے کی فرمائش کر رہے ہیں۔ن لیگ کے رہنمائوں کو یقینا یاد ہو گا کہ ان کے غنڈے کس طرح پنجاب ہائوس میں ناشتہ کرنے کے بعد سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوئے تھے۔ن لیگ کے رہنمائوں کو تو عدالتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے شرمندہ ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح عدالتوں کے ساتھ برتائو کرتے رہے ہیں وہ بدقسمتی سے آج بھی جسٹس قیوم جیسے ججوں کی تلاش میں ہیں لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے اور پاکستان اسی اور نوے کی دہائی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔کسی قانون کو پڑھے بغیر وہ سپریم کورٹ کے پر کاٹنے کی باتیں کر رہے ہیں۔بہرحال خوابوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔وہ جو چاہے خواب دیکھتے رہیں لیکن اس کی تعبیر بہت بھیانک ہو سکتی ہے۔وہ پنجاب میں گورنر راج کے خواب بھی دیکھ رہے ہیں اور شاید اب تک انہیں اندازہ نہیں ہوا اب ان کی سلطنت سمٹ کر 25 کلو میٹر کے دائرے میں محدود ہو چکی ہے۔ پورا ملک غیر معمولی بربادی کی زد میں ہے۔پورے پاکستان میں چار سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہے۔سندھ اور بلوچستان کا مواصلات کا سارا ڈھانچہ زمیں بوس ہو چکا ہے۔کراچی کی سڑکیں ندی نالوں کا روپ دھار چکی ہیں۔سڑکوں اور پلوں میں کی گئی کرپشن بارش میں دھل کر عوام کی نظروں کے سامنے آ چکی ہے۔سندھ کے حکمرانوں نے معذرت پر ہی اکتفا کیا ہے۔کوئی سیاسی جماعت سیلاب زدگان کے مدد کے لئے سامنے نہیں آئی۔واحد استثنیٰ جماعت اسلامی ہے جو کراچی میں عوام کی مدد کر رہی ہے۔سیاسی رہنمائوں کی اکثریت کو تو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی کہ وہ اپنے بیانات میں ہی عوام سے اظہار ہمدردی کر دیتے۔عوام سے اس لاتعلقی کے باوجود سیاسی رہنما یہ امید رکھتے ہیں کہ عوام ان کے لئے سڑکوں پرنکلیں اور انہیں ووٹ دیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے یہ بھی فرمایا تھا کہ عوام اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے ۔ مجال ہے کہ پورے پنجاب سے چار عدد ’’افراد‘‘ بھی اس فیصلے کے خلاف باہر نکلے ہوں۔البتہ عوام نے جس طرح پی ٹی آئی کی کال پر سارے بڑے شہروں میں یوم تشکر منایا وہ دیدنی تھا۔ن لیگ کے لئے یہ حقیقت ہضم کرنی مشکل ہو رہی ہے کہ اب پنجاب ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔مستقبل کا حال تو خدائے بزرگ و برتر ہی جانتا ہے لیکن اگر آج انتخابات کا اعلان ہو جائے تو پی ٹی آئی کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا۔البتہ عمران خاں کو اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا اور انا کے پہاڑ سے نیچے اترنا ہو گا۔ان کا یہ بیان کہ وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کر سکتے ہیں لیکن ان چوروں سے نہیں نہایت نامناسب ہے۔ان کو اپنے ملک کی خاطر ہر شخص سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔یہ ان کا ذاتی معاملہ نہیں‘ ملک کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔اقتدار ملنے کی صورت میں عوام عمران خاں کو گفتار کے غازی کی بجائے کردار کا غازی دیکھنا چاہتے ہیں۔عوام ایک بہتر عمران خاں دیکھنا چاہتے ہیں جو واقعی میرٹ پر فیصلے کرے۔