ماحول بدل رہا ہے، ہوائیں اپنا رخ تبدیل کر رہی ہیں ۔ شریف خاندان کے لیے اچھی خبریں آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ نیب کو اپنی پالیسی بدلنا پڑ رہی ہے۔ نیب پراسیکیوٹرز پریشان ہیں ،موقف بدلتے ہوئے وہ الجھنوں کا شکار لگتے ہیں۔ بعض اوقات کھل کے ملزموں کی حمایت کرنے لگتے ہیں اور کبھی کبھار فکس میچ کی طرح سلو بائولنگ کرنے لگتے ہیں ۔ سوچیے اس بچے کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہو گی، جسے سب سوالوں کے جواب آتے ہوں مگر کسی وجہ سے وہ جواب نہ دینے پر مجبور ہو۔ لاہور میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی پر سماعت کر رہا تھا۔ نیب سے جواب مانگا گیا تو انہوں نے چار سال سے اختیار کیا ہوا موقف بالائے طاق رکھ دیا اور اپنے تحریری جواب میں عدالت سے کہا کہ انہیں مریم نواز کا پاسپورٹ درکار نہیں ہے، یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کسی کے خلاف کیس کے اندراج سے اس کے آئینی اور قانونی حقوق معطل نہیں ہوتے۔لہذا انہیں مریم نواز کے پاسپورٹ کی واپسی پر کوئی اعتراض نہیں۔جب مدعی کو ہی اعتراض نہ ہو تو عدالت کیا کرے گی۔ اُدھر مریم نواز کو پاسپورٹ واپس ملنے جا رہا ہے اِدھر اُن کی سزائیں ختم ہو گئی ہیں۔ اب ان پر نواز شریف یا ان کے صاحبزادوں کی جائیدادوں کی بینیفشل اونر ہونے کا کوئی الزام باقی نہیں رہا ۔عدالت میں چلنے والی سماعت سن کر تو لگتا تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے شریف خاندان کا دور دور تک کوئی تعلق ہے ہی نہیں ۔ سالہا سال کی سماعت کے بعد گزشتہ روز انتہائی قابل احترام اسلام آباد ہائیکورٹ کے نہایت معزز ججز جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں بنچ کی طرف سے نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر کے لیے دیے جانے والے ریمارکس اور سوال کچھ یوں تھے: ابھی تک آپ کوئی ایسی چیز سامنے نہیں لا سکے جس سے پتہ چلتا ہو کہ آمدن سے زائد اثاثوں میں مریم نواز اور نواز شریف کا کوئی تعلق ہے۔ جسٹس عامر فاروق کی طرف سے سوال ہوا ایون فیلڈ میں پراپرٹیز کتنے روپوں کے عوض خریدی گئیں ۔ اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے کتنی کتنی رقم ادا کی گئی؟ جج صاحب نے فرمایا کہ چلیے مان لیتے ہیں مریم نواز اپنے والد نواز شریف کے لیے پراپرٹیز ہولڈ کر رہی تھیں ، مگر اس کے ثبوت دکھائیے کیا ہیں۔ سوال ہو اکہ مریم نواز ان کمپنیز میں بینفشل اونر کے طور پر کب اینٹر ہوئیں ۔کیا کوئی ایسی دستاویز موجود ہے جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ اب مریم نواز ان کمپنیز کی بینیفشل اونر بن گئی ہیں؟ جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دیے،آپ نے سارا کیس مریم نواز کے خلاف کھڑا کر دیا وہ تو پبلک آفس ہولڈر ہی نہیں ہیں ۔ فیصلہ محفوظ ہونے سے پہلے جسٹس عامر فاروق نے پراسیکیوٹر سے کہا آپ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ مندرجہ بالا متعدد سوال یا ریمارکس نیب پراسیکیوٹر کے لیے کہے گئے ، اکثر کے جواب میں وہ خاموش رہے جہاں جہاں وہ کچھ بولے بھی ان کے دلائل کو فورا رد کر دیا گیا۔ کیسا زبردست کیس ہے جس میں مریم نواز بھی جیت گئیں اور ہاری نیب بھی نہیں کہ شاید مریم کی جیت میں ہی نیب کی جیت ہے ۔ فرض کیجئے آپ ایک ایسے شخص کو عدالت میں لا کر کھڑا کر دیتے جو حقائق، شخصیات،کیس اور سیاسی ماحول سے نا واقف ہوتا تو وہ کچھ مندرجہ زیل ایسے نتائج بھی اخذ کر سکتا تھا: ’’لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس موجود ہی نہیں ہیں ۔نواز شریف اور ایون فیلڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ۔مریم نواز نواز شریف کی بیٹی نہیں۔ نواز شریف کے خاندان میں کسی کی آف شور کمپنیز نہیں ۔مریم نواز کی لندن تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں ہو سکتی۔چونکہ نیب کو ایون فیلڈ اپارٹمنس کی قیمت خرید کا پتہ نہیں لہذا یہ کوئی کیس نہیں بنتا۔ چونکہ مریم نواز پبلک آفس ہولڈر نہیں اس لیے ان کا اپنے والد پر ڈیپنڈنٹ ہونے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مریم نواز نے اپنی جائیدادیں خود اپنی محنت کی کمائی سے بنائی ہیں اپنے والد یا خاندان سے کبھی بینیفٹ نہیں لیا‘‘۔ اس طرح کا دھوکا کیس میں دلائل سننے والا کوئی بھی انجان شخص کھا سکتا تھا۔لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ جنہیں کیس سمجھ آ رہا ہے انہوں نے کسی کا کیا بگاڑ لیا۔ وہ نیب جو نواز شریف کو مجرم ثابت کرنے میں دن رات ایک کیے رہتی تھی اس کے پاس اب کاغذات ہی پورے نہیں ۔ عدالت ثبوت مانگے تو جواب ملتا ہے جناب جو کچھ تھا وہ پیش کر دیا ہے ،اس کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں ۔ اب تو ویسے بھی نیب کا نیا قانون آ چکاہے۔ اس کے مطابق بار ثبوت ملزم پر نہیں رہا ، آئندہ کے کیسز میں بار ثبوت نیب کے اوپر آ گیا ہے۔نیب الزام لگائے گی تو ثبوت فراہم کرنا پڑیں گے،بتانا پڑے گاایون فیلڈ اپارٹمنٹ کس نے کس سے خریدے ، کتنے میں خریدے، گواہان کون کون تھے۔ پیسے کہاں سے آئے ، کمائے کیسے گئے اور باہر کیسے لے جائے گئے۔ یہ سب ملزم کو نہیں نیب کو بتانا ہو گا۔نیب بھلا کیوں بتائے ، آسان نہیں ہے کہ ملزم بھی جیت جائے اور نیب بھی نہ ہارے جیسا مریم نواز کے کیس میں ہواکہ مریم بھی جیت گئیں اور نیب بھی سرخرو ہوئی۔