اسلام کی اصطلاح اور عرف عام میں کعبۃاللہ کے چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں ۔ یعنی دُور رہو تو کعبتہ اللہ کی طرف منہ کرکے اللہ کو سجدہ کرو اور قریب ہو تو اللہ کے گھر کے چاروں طرف چکر لگائو یعنی طواف کرو ۔ایسا کیوں ہے؟ اور چکر بھی احرام پہن کر ۔ عورت کو رعایت بھی لباس میںہے طواف میںنہیں ۔ طواف ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔ سجدے اور کعبے کے ارد کرد چکر لگانے یا طواف کرنے کے باہمی رشتے کا ادراک ضروری ہے۔ ظاہر ہوا کہ چکر اُسی کے لگائو جسے سجدہ کرتے ہو۔ مسلمان چکر اُوروں کے لگاتے ہیں اور سجدہ خدا کو کرتے ہیں اور یہ بات نہایت مہربان اور رحم کرنے والے کو پسندنہیں ۔بیچارہ مسلمان یہ بھو ل جاتاہے کہ یہ ایک سجدہ جسے وہ گراں سمجھتاہے اُسے ہزار سجدوں سے نجات دلا سکتاہے ۔ اِس لئے کہ اِس ایک سجدے کو اندر انسا ن کی مکمل آزادی اور خودمختاری پوشیدہ ہے جو زمانہ جاہلیت کے لوگ سمجھ سکے تھے اور نہ ہی آج کا مسلمان ۔ لیکن یہ چکر ہے کیا؟ سجدہ تو کسی نا کسی طرح سمجھ میں آگیا تھا کہ اِس سے انکار شرک مقصود ہے پر اِن چکروں کا مقصدکیا ہے؟ چکر لگوانے والے کا حکم ہے کہ غور کروکیونکہ چاروں طرف اُس نے کھلی نشانیاں بکھیررکھی ہیں۔سب سے پہلے جس چیز کا انکشاف ہوا وہ یہ کہ ساری زندگی ایک چکر ہے۔ کبھی روٹی کپڑے مکان کے چکر ، کبھی خود پسندی،انا اور مکروفریب کے چکر۔ انسان نے جو سب سے عظیم چیز اب تک ایجاد کی ہے وہ پہیہ ہے جو انسانی عقل کی پہلی مادی تخلیق تھی۔ یعنی جب عقل نے مادے کا لباس پہنا جس کے بعد سے آدمی نے مسلسل آگے بڑھنا شروع کیا۔ گویا رفتار اُس کے ہاتھ آگئی اور وہ اُس پر چڑھ دوڑا ۔ پہیہ کی ایجاد سے عقل کو چکر آنے لگے اور بعد کی ساری انسانی ترقی نے ثابت کیا کہ کائنات کی ہر چیز چکر میںہے ۔ جو مسلسل حرکت میں ہے۔ سورج چاند ستارے خود زمین بلکہ مادے کی اصل حقیقت بھی ایک چکر ہی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ کائنا ت کے سارے راز کسی نہ کسی چکر کے تابع ہیںیا اُس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ اکیسیو یں صدی تک ہم نے کائنات کی حقیقت کا پتہ چلا لیاہے ۔ بیج سے پودا نکلتاہے۔ پودے سے درخت اور درخت سے پھل ۔ پھر پھل کے اندر بیج اور چکر مکمل ۔ سمند ر، جھیلوں اور دریائوں سے بخارات اُٹھتے ہیں جو بادل بناتے ہیں۔ پھر بادل برستے ہیں اور پہاڑوں پر برف جماتے ہیں۔ یہی برف پگل پگل کر دریائوں کو بھر دیتی ہے جو سمندروں میںدوبارہ بخارات بننے کے لئے گر جاتے ہیں اور چکر مکمل ہوجاتاہے۔ کارل مارکس کی ساری جدلیات حقیقت میں نظریہ چکر ہی ہے ۔ انسانی عقل کی عظیم ترین ایجاد اگر پہیہ ہے تو جو عظیم ترین چیز اُس نے ثابت کی ہے وہ چکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسان چکر کا انکاری ہے ۔پتہ نہیں انسان کو اور کتنی مدت چاہے کہ وہ خدا کی بات سمجھ لے اور کعبے کے ان چکروں کے اندر سے اپنی آزادی اور خود مختاری پالے۔ یعنی زندگی کو فتح کرلے موت پر قابو پالے۔ اس میں شک نہیں کہ آدمی چور دروازوں سے زمین کے اندر گھُس چکا ہے، اُس کے خزانوں کو استعمال میں لارہاہے ۔ سمندر وں کی تہہ سے اپنی ہمت منوارہا ہے۔فضا ئوں کے اندر تانک جھانک کر رہاہے۔ لیکن بدبخت نہیں جانتاکہ اُس کے باوجود زندگی سے نا آشنا ہے۔ اسی ناآشنائی کے باعث زندگی کا سب سے بڑا دشمن بنکر کشت وخون اور دنگا فساد میںہمہ وقت مصروف ہے۔ نہ صرف زندگی سے ناواقف ہے بلکہ موت سے ڈرتاہے اور موت کا ڈر زندگی سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ ظاہر ہے جب تک جاہل انسان کائنات کو اپنی جاگیر سمجھ کر کریدے گا اُس وقت تک زندگی سے نا آشنا اور موت سے خوف زدہ رہے گا کیونکہ زندگی اورموت کا خالق کہتاہے کہ کائنات کو اُس کے اذن سے پرکھو نہ کہ اپنے گھمنڈ سے، اُس کے اذن اورآدمی کے گھمنڈ میں یہی فرق ہے جو چیونٹی کے ہاتھوں ہاتھی کی موت سے واضح ہوتاہے ۔ آدمی کا گھمنڈ اُسے لاکھوں کروڑوں سالوں میںصرف مریخ سے کچھ آگے تک لے جاسکا ہے جبکہ اُس کااذن نے ایک رات کے اندر اندر ساری کی ساری کائنات کو فتح کرکے اُس کے خالق کے بالمقابل جا بٹھایا تھا۔ اُس کے اذن اور آدمی کے گھمنڈ میں فرق کعبے کے چکر مسلسل واضح کررہے ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر کعبے کی طرف چلیں، جہاںصدیوں سے طواف ہو رہا ہے اس کے گرد چکر لگانے والوں میں کالے بھی ہیں ا ور گورے بھی، امیرکبیر بھی ہیں اور لاچار، نحیف اور غر بت کے مارے ہوئے بھی ہیں۔ وہ عورتیں بھی ہیں جو ناک کی سیدھ میں رواں دواں ہیں ۔بڑے بڑے رعب دار اور دبدبے والے چہرے بھی ہیں ، اور ایسے بھی ہیں جن کی عاجزی اُن کے پیروں پر گھمبیر بوجھ ہے ۔وہ بھی ہیں جو اِ س چل چلائو میںصرف بہہ رہے ہیںاور و ہ بھی ہیں جو چکر کے دوران بھی محافظوں کے گھیرے میں ہیں تو بہ استغفار کرنے والے بھی ہیں اور جیب کاٹنے والے بھی۔عابد وزاہد بھی ہیں اور گناہگار بھی۔ مشرق والے بھی ہیںاور مغرب والے بھی۔ یعنی نوع انسانی کی ہر صورت یہا ں موجود ہے اور محوگردش ہے۔ اس لئے کہ وہ رب المغربین اور مشرقین ہے کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے ۔ ذرہ ذرہ اُس محور کے کے گرد گھوم رہاہے جو غائب ہے۔ اِس طرح غائب ہے کہ ہر چیز میںعیاں ہے ہربات میں موجود ہے ، ہر ارتعاش کے اندر ہے ۔ ہر رفتار کے پیچھے ہے اور ہر لمحے کو سموئے ہوئے ہوئے ہے۔ اِس کے باوجود انسان اسے دیکھ نہیں سکتااور اِسی اندھے پن کی وجہ سے انکاری ہے۔ شاید انسان نہیں جانتاکہ ہر چکر کا ایک محور ہوتاہے پانی میںپھیکا جانے والا پتھر یک لخت پیدا ہونے والی لہروں کا محور بن جاتاہے۔ عجیب بات ہے کہ چکر نظر آتا ہے اور محور غائب رہتاہے ۔کان حاضر ہے لیکن آواز غائب ہے۔ ناک ہے لیکن سونگھ غائب ہے۔ ہاتھ ہے لیکن لمس غائب ہے۔ طرح طرح کا سامان آسائش موجود ہے لیکن اطمینان غائب ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کتابیں ہیں لیکن علم غائب ہے؟ ۔ الیکٹرونز اور نیوٹرو نز کا محور غائب ہے ہر وقت اور فاصلے کا محور غائب حتیٰ کہ آدمی کا اپنا محور بھی غائب ہے اس کے باوجود کوئی انکارنہیں کرتا۔ پھر اگر کعبے کا محور غائب ہے تو اُس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے؟ جب انسان اس قدر غائب اشیاء پر مکمل یقین رکھتا ہے تو ایک غائب خداپر ایمان کیوں نہیںلاتا؟ اتنی لاتعداد میں غائب قوتیں اگر ہر طرف افرا تفری برپا کرسکتی ہے تو اُن کی خالق قوت غائب کیوں نہیںہوسکتی ؟ آخر انسان اتنا جاہل کیوں ہے کہ وہ غائب سے آتاہے اور غائب ہی میں گم ہوجاتاہے لیکن غائب کا انکار ی ہے؟ شاید انسان نہیں جانتا کہ وہ غائب کو جھٹلا کر اپنے آپ کو جھٹلا رہاہے کیونکہ وہ خود بھی غائب ہی کی پیداوار ہے اور غائب ہی کی طرف رواں دواں ہے ۔۔ اللہ صاف صاف بتاتا ہے کہ سارے چکر لگانے والے اُس کے لئے بر ابر ہیں۔ وہ خلعت فاخرہ پہنے والے ہیں یا بوریا نشین۔اللہ مسلمان پر یہ بات واضح کرنا چاہتاہے کہ وہ بوزنے کی اولاد نہیں ہیں قابل توقیر بلکہ ایک ہی منز ل کے مسافر ہیں۔