عمران خان مزاحمتی سیاست کے گرو ہیں۔مخالف سامنے ہوتو ان کا لہو جوش میں آتا ہے ،وہ مخالف کو ہر قیمت پر زیر کرنے کے جذبے سے ہمہ وقت سر شار رہتے ہیں۔بنیادی طور پر عمران خان کا مزاج اس شعر کے عین مطابق ہے پلٹنا جھپٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا میری ناقص رائے میں عمران خان اپنی بے پناہ توانائیوں اور قابل رشک عوامی حمایت کو جارحانہ طرز سیاست کی نذر کرکے اپنے لیے امکانات کے بہت سے دروازے بند کر رہے ہیں۔ عمران خان کو سیاست میں کم وبیش چھبیس برس ہونے کو ہیں۔ان کی سیاست کے عرصے کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا حصہ اکتوبر سن دو ہزار گیارہ سے پہلے کا ہے ، اس میں ان کی جماعت تحریک انصاف ابھی مقبولیت کے اس عروج پر نہیں تھی۔اگرچہ خود عمران خان ایک بہت ہی مقبول قومی ہیرو تھے۔ یوں انہوں نے آغاز ہی سے مقبولیت کا مزہ چکھا ہوا تھا مگر ایک پاپولر سیاسی رہمناہونے کا مزا کیا ہے اس سے عمران خان نا آشنا تھے۔اس دور میں وہ مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتیں کرتے اور مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں۔ سیاست کا دوسرا دور اکتوبر 2011 کے مینار پاکستان کے جلسے کے بعد کا ہے۔ جو ایک غیر معمولی کامیاب جلسہ تھا اس کے بعد سے عمران خان کی سیاست کا انداز بالکل بدل گیا ۔وہ جارحانہ طرز سیاست کے موڈ میں آ گئے۔2013 کے الیکشن کے لیے عمران خان نے بھرپور انداز میں انتخابی مہم چلائی۔ ملک کے طول وعرض میں کامیاب جلسے کیے۔ پرانے سیاست دانوں سے اکتائے ہوئے عوام کو تبدیلی کے نعروں نے لبھایا اور صاف چلی شفاف چلی ،تحریک انصاف چلی کے خوش کن نغموں نے بھی ماحول گرمائے رکھا مگر 2013 کے انتخابی نتائج آئے تو مسلم لیگ نون کو برتری حاصل ہوئی۔ اب یہاں سے عمران خان کی احتجاجی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہوئی۔عمران خان نے الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کیا اور سنگین دھاندلی کے الزامات لگائے۔اس الیکشن کے نتیجے میں انہوں نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی ۔ یوں پہلی دفعہ تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لیے خیبر پختونخوا کا صوبہ ملا جہاں وہ اپنے منشور اور اپنی جماعت کے نظریے کے مطابق نظام میں بہتری لا کر کار حکومت کا بہترین ماڈل بنانے کا کامیاب تجربہ کرسکتے تھے مگر اس کے لیے جس یکسوئی اور مثبت انداز فکر کی ضرورت تھی اس کی گنجائش عمران خان کے طرز سیاست میں کہیں نہیں تھی۔ بہرحال یہ ایک سنہری موقع تھا لیکن عمران خان نے اپنی ساری توجہ مزاحمت کی سیاست کی طرف مبذول کیے رکھی۔اس کے بعد کی سیاست 126دن کے طویل ترین دھرنے ،جلسے جلوس، الزامات پر مبنی جارحانہ تقریروں ،کنٹینراور لانگ مارچ کی کہانی ہے۔ عمران خان کی مزاحمتی سیاست کا نقطہ عروج اسلام آباد میں ان کا 126 دن کا دھرنا تھا۔مزاحمتی سیاست کے اس نقطہ عروج کا اختتام اے پی ایس کے سانحے پر ہوا جسے سوچ کر آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، دل ایک ناقابل بیان درد سے بھر جایا ہے۔ عمران خان ایک سو چھبیس دن کے دھرنے میں جو کچھ حاصل کرنا چاہتے تھے ، نہیں کر پائے ۔اس کے بعد بھی عمران خان جلسے جلوس احتجاج کرتے رہے ۔انہوں نے اپنے فالورز کا لہو گرمائے رکھا۔ یہاں تک کی 2018 کے عام انتخابات کے بعد ملک کے وزیراعظم بنے۔اس وقت ضرورت تھی کہ وہ اپنے سیاسی مزاج کو بدلتے اور تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلتے۔ امید یہی تھی کہ وہ نئے پاکستان کے نعرے کو عملی صورت میں نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ پاکستان میں نظام کی بہتری کے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔ مگر تمام امیدیں اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کی تمثیل دکھائی دینے لگیں۔ عمران خان ساڑھے تین سال وزیراعظم رہے مگر اس وقت بھی ان کی تقریریں سیاسی مخالفین پر الزامات سے بھری ہوتیں۔اب بھی تقریریں اور جلسے ان کا پسندیدہ کام تھا۔ ایک سربراہ حکومت کو جیسا مثبت توانائی سے لبریز ہونا چاہیے اس رویے کی رمق بھی ان کے برتاؤ میں نہیں تھی۔ اپوزیشن کے ساتھ ان کا رویہ یہاں تک معاندانہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ میں ان سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ رویہ بھی ان کے مزاحمتی سیاسی مزاج ہی کا اظہار تھا۔ اپریل میں عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کی صورت ایک دھچکا لگا اور وہ اقتدار سے باہر ہوگئے۔اب ان کی مزاحمتی سیاست عروج پر پہنچ گئی اور اب تو بقول شخصے رسم دنیا بھی تھی موقع بھی تھا دستور بھی تھا۔ دوراقتدار میں گرتی ہوئی مقبولیت حیرت انگیز طور پر اقتدار سے بے دخل ہونے کے بعد تیزی سے بڑھنے لگی اور اس کے پیچھے امریکی سائفر کا بیانیہ تھاجو انھوں نے اقتدار سے نکلتے ہی اپنے جلسوں میں بیچنا شروع کیا۔ مگرجنرل باجوہ نے اپنی الوداعی تقریر میں امریکی مداخلت کے بیانیے کو صاف الفاظ میں جھوٹ قرار دیا۔ ون فائن مورننگ کپتان نے خود ہی یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ امریکی سائفر ہم پیچھے چھوڑ چکے۔ یہ عمران خان ہی کا کمال تھا کہ انہوں نے اس یوٹرن کے باوجود اپنے فالورز کو چارجڈ رکھا اور نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی پر دباؤ اور جلد از جلد الیکشن کا اعلان کروانے کے لیے وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کا اعلان کیا اور لانگ مارچ شروع کیا۔اب جب کہ لانگ مارچ کا ڈراپ سین بھی ہو چکا ، جنرل باجوہ ریٹائر ہوچکے ، آج نئے آرمی چیف عاصم منیر فوج کی کمان سنبھال چکے ہیں ۔جنرل فیض قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کر چکے ہیں۔لانگ مارچ میں بے گناہ پاکستانیوں کی جان گئی ،اس ایجی ٹیشن کے اس سنسنی خیز ڈرامے کا اختتام سنسنی سے عاری رہا کیونکہ جو کچھ ہونے والا تھا وہ سامنے نظر آرہا تھا۔ اسمبلیوں سے استعفے دینے کا ایپی سوڈ صرف اپنے مایوس فالورز کو انگیج رکھنے کی ایک کوشش ہے۔سوال یہ ہے کہ عمران خان جب تنہا بیٹھتے ہیں تو مزاحمتی سیاست کے اس لاحاصل سفر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟