13 سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مبنی موجودہ وفاقی حکومت جس کی سربراہی پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کر رہے ہیں مشکل ترین سیاسی ومعاشی حالات سے نبرد آزما ہے۔اہم تر بات یہ ہے کہ عمران مخالف یہ سیاسی اتحاد محض وفاق میں ہی حکومت قائم کر پایا۔خیبر پختون خوا ، پنجاب ، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومتیں ہی قائم رہیں ۔ جب کہ سندھ میں پاکستا ن پیپلزپارٹی کی حکومت اور بلوچستان میں قبائلی سرداروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے کمزور حکومتوں کے بننے اور بگڑنے کی روایت برقرار ہے۔ اس اتحادی وفاقی حکومت میں سب سے بڑی شراکت دار پاکستان مسلم لیگ نواز ہے اور اس حیثیت میں سیاسی خسارہ بھی سب سے زیادہ اسے ہی در پیش ہے۔جس کا اظہار گزشتہ ہونے والے تمام ضمنی انتخابات کے نتائج سے ہو چکا ہے۔ پنجاب جو مسلم لیگ نواز کا سیاسی قوت کا مرکز رہا ہے ۔ وہاں اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے اور اس کی مقبولیت تیزی سے کم ہورہی ہے۔گزشتہ اپریل میں وفاق میں اتحادی حکومت کے قیام کے بعد ہونے والے تمام ہی ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نوا ز کو سب سے زیادہ شکست ہوئی۔اس شکست میں جہاں عمران خان کی مقبو لیت کا دخل ہے وہاں مسلم لیگ نواز کی سیاسی حکمت عملی ،قیادت کی ناعاقبت اندیشی اور جماعت کے داخلی نظم میں موجود انتشار کی کیفیت کا بھی بڑا دخل رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں ہار یا جیت کی صورت نتائج کا سامنا رہتا ہے ہر دو صورتوں میں یہ نتیجہ سیاسی جماعتوں کے لئے آزمائش،اصلاح اور طرز عمل میں جائزے کا موقع فراہم کرتا ہے۔کامیابی کی صورت میں کارکردگی دکھانا ہوتی ہے اور ہارنے کی صورت میں غلطیوں ،حکمت عملی میں تبدیلیوں اور قیادت کے فیصلوں پر سیاسی جماعت کے اند ر جائزے اور تجزیے کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے بد قسمتی سے پاکستان کے سیاسی کلچر میں اس کی مثالیں کم کم ہی ہیں اور پاکستان مسلم لیگ نواز میں تو اس کی مثال کا ملنا مشکل ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے ماشل لاء دور میں 1 198 میں پنجاب کے گورنر جنرل غلام جیلانی کی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے ہوا ۔ اس کے بعد پہلے دو بار ( (1985-1988 اور پھر(1988-1990) میںپنجاب کی وزارت اعلی اور پھرتین بار (1990 -1993 ) (2013-2017) (1997-1999) وزارت عظمی کے منصب کوحاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے۔ ان کے سیاسی سفر کے عروج و زوال کا ایک دلچسپ پہلو جو سامنے آیا وہ یہ کہ کسی بھی منصب پر وہ اپنی آئینی مدت کی تکمیل نہیں کر پائے۔دو بار وزارت اعلی اور تین بار وزارت عظمی کے حصول کے باوجود وہ پاکستان کے سیاسی سسٹم کو سمجھنے میں غلطی کرتے رہے۔جس سسٹم میں ان کی سیاسی نمو ہوئی اور جس اسٹیبلشمنٹ کے کارپردازوں نے انہیں سیاسی طور پر آگے بڑھنے میں مدد دی وہ ہر بار کسی سیاسی تیاری کے بغیر ا ن سے ٹکر لیتے رہے۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جسے نواز شریف نے بار بار کیا اور ہر بار اقتدار سے علیحدگی ان کا مقدر بنی۔ پارلیمانی جمہوری سیاسی نظام میں پارلیمنٹ،سیاسی جماعت، سیاسی کارکن اورانتخابی منشور کو اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔نواز شریف نے ہر بار اقتدار میں آکر انہیں نظر انداز کیا ۔انہوں نے نہ تو اپنی سیاسی جماعت کی ٹھوس منصوبہ بندی کے ساتھ تنظیم سازی کی اورنہ قیادت کی تشکیل کو جماعت کی مختلف سطحوں پر ممکن بنایا اور نہ ہی پارلیمنٹ کو اس کی قرار واقعی اہمیت اور وقار کو سمجھا۔ حکومتی اور جماعتی ہر دو سطح پر اختیارات کو اپنی ذات یا اپنے خاندان میں مرتکز رکھا ۔جس سے ان کی سیاسی جماعت کی جڑیں پنجاب اور وفاق میں کئی بار حکومت میں رہنے کے باوجود عوام کی سطح پر مضبوط نہ ہو سکیں ۔ انتخابات میں کامیابی کے لئے ان کی ساری توجہ با اثر خاندانوں کو اپنا ہمنوا بنانے پر ہی رہی اور جس میں وہ اب تک کامیاب بھی رہے۔ ا سی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں سیاست دان اپنی کامیابیوں کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے تعاون اور مدد کے خواہاں رہتے ہیں اور جو انہیں حاصل بھی رہتی ہے مگر وہ اس کا اعتراف نہیں کرتے البتہ جب وہ حکومت سے الگ ہو جاتے ہیں یا کر دیئے جاتے ہیں تو وہ اس کے لئے اسی اسٹیبلشمنٹ کو الزام دینے میں ذرا بھی تردد نہیں کرتے۔ نواز شریف کا سیاسی عروج ہو یا ز وال اسٹیبلشمنٹ کا کردار نمایاں رہا ہے ۔حکومتوں کے بنانے اور انہیں گرانے میں اسٹیبلشمنٹ کس طرح اثر انداز ہوتی ہے یہ میاں محمد نواز شریف بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو محدودکیا جائے مگر تدبر ،حوصلے اور استقامت کی کمی کے باعث وہ اس میں کامیاب نہ ہو پائے۔اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کے بعد جس استقامت اورعوامی تائید کی ضرورت ہوتی ہے وہ اس سے محروم رہے۔عوامی تائید تو اس صورت میں ہی انہیں حاصل ہوتی جب ان کی سیاسی جماعت کی جڑیں عوام میں مضبوط ہوتیں ۔انتخابات میں کامیاب ہونے والے با اثر گروہوں یا خاندانوں سے مزاحمتی سیاست کی امید نہیں ہوتی ۔پھر یہ کہ مزاحمتی سیاست کے لئے قیادت کو جس حوصلہ اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے نواز شریف نے ہر بار اس سے گریز ختیار کیا۔ 1999جب جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت کو ختم کیا،ان پر مقدمات قائم کئے اور وہ قید زنداں ہوئے تب وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ایک پر اسرار معاہدے کے تحت از خود جلاوطنی اختیا ر کرتے ہوئے پورے خاندان سمیت سعودی عرب اور پھر لندن منتقل ہو گئے۔یہاں وہ اپنی سیاسی جماعت اور قیادت کو ابتلا اور آزمائش کے لئے تنہا کر گئے۔ ایک سیاسی رہنما کے طور پر ابتلا اور آزمائش کے وقت انہیں اپنی پارٹی اور باقی قیادت کے ساتھ موجود رہنا چاہئیے تھا مگر وہ ایسا نہ کر سکے ۔انہوں نے وقتی مصلحت کے پیش نظر کسی مناسب وقت تک کے لئے خود کو سیا ست سے الگ کرنا مناسب سمجھا ۔بنیادی طور پر وہ ایک صنعت کار اور تجارت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اوراتفاقیہ ہی سیا ست کی طرف آگئے تھے اور و ہ اس میں کامیاب بھی رہے مگر ان کے اند ر کا تاجر سیاست میں بھی ہمیشہ ان پر حاوی رہا اور رہنمائی کرتا رہا لہذا قید و بند کی آزمائش کے اس موقع پر انہوں نے سیاسی رہنما سے تاجر بننے میں ذرا بھی تاخیر نہیں کی اور اپنے اور اپنے خاندان کے لئے فائدے کا سودا کرنے میں کامیاب رہے۔ 2007 میں وہ پاکستان کی سیاست میں ایک بار پھر فعال ہوئے 2013 کے انتخابات میں کامیاب ہو کر ایک بار پھر ( تیسری بار) وزارت عظمی کے منصب کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم ایک بار پھر وہ اپنی عاقبت نااندیشی اور کسی تیاری کے بغیر اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات خراب کر بیٹھے اور ایک عدالتی فیصلے کے تحت انہیں وزارت عظمی کے منصب سے الگ ہونا پڑا۔(جاری ہے)