باپ کا نام بچوں کے نام کے ساتھ لاحقہ لگانا آج کل بہت مروج ہے۔از خود اپنے نام کے ساتھ لاحقہ لگا کر، اپنے پرانے نام کو تجنے کے مترادف ہے اور ایک نیا جنم لینا ہے۔تخلص اس کی عمدہ مثال ہے۔شاعر تخلص کے ایک نئے عہد اور ایک نئے جنم کا آغاز کرتا ہے۔ بچوں کے نام کے ساتھ باپ کا نام لگانا اب عام ہے لیکن والدین کی طرف برصغیر پاک و ہند میں اس کی ابتدا اپنے اقبالؒ نے آغازکیا۔انہوں نے جاوید کے ساتھ اقبال لگایا تو یہ نام پنجاب میں بہت مقبول ہوا۔اور ہر دسویں بچے کا نام ہی جاوید اقبال ہو گیا۔ایک ربع صدی قبل فراز نام بھی بہت اِن ہوا۔خوش ہو کر احمد فراز بول اٹھے اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے ماؤں نے تیرے نام پر بچوںکا نام رکھ دیا اب فراز والا شوق تھم سا گیا ہے،اقبال ساجد نے کہا تھا نئے زمانے میں ان کا جواز کچھ بھی نہیں فرا ق و فیض ندیم و فراز کچھ بھی نہیں نام پر نام رکھنے کا ایک اظہار ان دنوں ایک فلم کی صورت میں دیکھا۔مولاجٹ نامی فلمی سن اناسی میں ریلیز ہوئی تھی۔یہ فلم ہم نے بہاول پور کے ایک سینما گھر میں ایک تہذیب یافتہ اور قابل ِاحترام خاتون کے ساتھ دیکھی تھی۔فلم کیا تھی بس گنڈاسے کا ظہور تھا۔فلم کے دوران چکوری اور کیفی کے گانے کو دیکھ کر انہوں نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب کا گاؤں میں ایسے ہی محبت کا اظہار کیا جاتا ہے؟۔ ان کے آباؤ اجداد سہسرام سے تعلق رکھتے تھے۔اب سہسرام کے جین والی سے ایسا سوال بنتا تھا۔سہسرام بہار کا ایک ضلع ہے اسے مدینتہ الاولیا کہتے ہیں۔اس شہر کا اعزاز ہے کہ اسے اولیا اللہ کا مسکن کہا جاتا ہے۔اب بھی وہاں بھی خانقاہ غوثیہ الصدقیہ اپنے فرض میں مگن ہے۔اسی خانقاہ کے ایک بزرگ مفتی شہاب الصدقی نے سہسرام کی تاریخ قلمبند کی ہے۔ایک طرف اگر مدرسہ خانقاہ کبیریہ ہے تو دوسری طرف مدرسہ حسنیہ روضہ حسن خان سور ہے۔جس کے والدین وہاں سے ہجرت کر کے پنجاب میں کہیں آباد ہو گئے ہوں ان کا ایسا سوال کم از کم ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھا۔سہسرام شیر شاہ سوری کے زمانے میں ضلع روہتاس میں شامل تھا۔ اسی روہتاس کے نام پر اس نے جرنیلی سڑک کے کنارے قلعہ روہتاس تعمیر کیا تھا۔ہم اس کے سوال کے جواب میں اتنا ضرور عرض کیا کہ گانا کیا سارا فلمی ماحول غیر حقیقی ہے۔اس کا ہماری تہذیب اور ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فلم پنجابی فلم کا آغاز بھی تھی اور انجام بھی۔انجام اس لحاظ سے کہ ہماری پنجابی اس کے اثر سے آج تک نہیں نکل سکی۔جو گنڈاسہ آج سے چوالیس سال پہلے فلمی سکرین پر چمکا تھا اب ہمارے معاشرے کا قومی نشان بن چکا ہے۔معاشرے میں پھیلے جبر کا توڑ سلطان راہی کی غیر حقیقی بڑھکوں سے کیا گیا۔لوٹ مار تشدد ظلم کا جواب اس سے بڑی لوٹ مار تشدد اور ظلم سے دیا گیا۔ایک ہنستے کھیلتے اور آباد ہوتے معاشرے کو جب دانستہ طور پر جبر کی چکی میں پیسنے کا منطقی انجام یہی ہونا تھا، جو ہوا۔اب دوبارہ بلکہ سہ بارہ اسی فلم کو نئے انداز میں فلم بینوں کے ذوق کی نذر کر دیا۔اناسی والی مولا جٹ نے ایک خاص قسم کی تعداد کو پسند کیا۔اب والی مولا جٹ کو سارے معاشرے نے پذیرائی بخشی ہے۔اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ اب پورا معاشرہ اس رنگ ڈھنگ میں ڈوب چکا ہے جو کبھی اقلیت میں ہوتا تھا۔گنڈاسہ جو چوالیس سال پہلے قبر سے سلطان راہی نے نکالا تھا دوبارہ دفن کیا ہی نہیں جا سکا۔سلطان راہی، ناصر ادیب اور یونس ملک نے اپنا ورثہ اگلی نسل کو نہ صرف منتقل کیا ہے بلکہ اس کو نئی نسل نے اون بھی کیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی عہد ہے جو مسلسل پھیلتا جا رہا ہے۔ہم جیسی نسلیں آتی ہیں فنا کے گھاٹ اترتی ہیں مگر ایک عہد ختم نہیں ہوتا۔گنڈاسے کا عہد لاوڈ ایکسپریشن کا عہد خاک و خون کا عہد۔ اب دوبارہ اسی فلم کو شرطیہ نئے پرنٹوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔یہی وہ فلم ہے جس کی وجہ سے ہماری فلمی دنیا عروج سے ہمکنار ہوئی اور یہی فلم فلم انڈسٹری کے غرقاب کرنے کا سو وجہوں سے ایک وجہ بنی۔کہاں سنتوش، وحید مراد، علاؤالدین اور طالش اور کہاں ایک مصنوعی غیر حقیقی انداز اور کہاں اپنے دیس کا غیر حقیقی چہرے کو سچ ثابت کرنا۔ ہمارے ہمسائے میں کیسی کیسی فلمیں بن رہی ہیں اور پاکستانی نسل کو پراگندہ کر رہی ہیں۔کشمیر اور کارگل کے علاوہ بھی وہاں ایسی فلمیں بن رہی ہیں جن میں ایک خاص پیغام دیا جا رہا ہے۔ بھارت میں مسلم کمیونٹی کو جس صورت حال کا سامنا ہے اس میں ان کی فلم انڈسٹری کا رول بے جی پی سے کم نہیں ہے۔ ابھی ایک فلمThe story of Keralaریلیز ہونے والی ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کیرالہ میں بتیس ہزار نو مسلم لڑکیاں کس طرح اسلامی شدت پسند تنظیموں میں شامل ہو کر اپنی زندگی برباد کرتی ہیں۔یہ کہانی ایک فاطمہ نامی لڑکی کی ہے جو ان بتیس ہزار لڑکیوں کی نمائندہ ہے جو شام اور دیگر مسلم ممالک میں جنسی جبر کا بھی نشانہ بنتی ہیں۔ان فلموں پر مغرب میں ریویو لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ نئی مولا جٹ نے بہر حال یہ ثابت کر دیا ہے کہ نئی اصل کے اداکار حد درجہ صلاحیتوں سے متصف ہیں۔وہ کسی لالی ووڈ کے اثر الگ ہو کر کام کر سکتے ہیں اپنا دیرپا نقش جمانے کی پوری طاقت سے لیس ہیں۔مائرہ اور فواد کے دو تین اشعار جس طرح فلمائے ہیں وہ اس کی عمدہ مثال ہیں۔خاقان حیدر غازی کے گیت کے بول چن پچھے لْکّی ہوئی رات لہہ جانی اے دنیا تے اپنی کہانی رہ جانی اے گاتے وقت ماہرہ بہت جچ رہی ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ چاند کے پیچھے چھپی رات سامنے آئے اور نئے عہد کا آغاز ہو شاعر کی دعا قبول ہو۔