سرعنوان، اردومیں مستعمل ایک فارسی ضرب المثل"جائے استاد خالیست" ہے ، جسکامعنی----کہ استاد کی جگہ ہمیشہ خالی اور مقدم رہتی ہے۔مطلب اورمفہوم یہ کہ آپ زندگی میں، جس اوج،کمال اوربلندی پر بھی پہنچ جائیں اور کامیابی کے جتنے بھی زینے سرکرلیں، استاد اورشیخ سے سیکھنے اورسمجھنے کے امکان ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ تفصیل اس اجمال کی یوں ہے کہ استادِ گرامی ڈاکٹر سید مظہر معین نے " عربی زبان کے عالمی دن " کے حوالے سے، شائع شدہ گزشتہ کالم کی تحسین فرماتے ہوئے تھپکی دی---کہ کالم عمدہ اور علم افزا تھا، جس سے لاکھوں لوگ مستفید ہوئے، تواضع اور منکسر المزاجی کے سبب فرمایا کہ نامور اساتذہ کے ساتھ بندہء گمنام کاتذکرہ --- کچھ زیادہ ہی ہوگیا، جو کہ آپ کی شرافت اور وضعداری ہے۔ مزید یہ کہ 18 دسمبر1973ء کو عربی--- انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، روسی اور چینی کے ساتھ اقوامِ متحدہ کی سرکاری زبان قرار پائی، یوں یہ چھ زبانیں، اس مقام پر فائزالمرام ہیں، جس کے سبب، ہر سال دنیا بھر میں، ان کے دن منائے جانے قرار پاچکے ہیں۔اس سلسلے میں 15 دسمبر کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد میں ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں سعودی اور اماراتی سفیر سمیت دیگر کئی عرب ممالک کے سفارت کار شریک ہوئے، جہاں عربی و قرآن پاک کی ہر سطح پر مربوط تعلیم کی قرار داد بھی منظور ہوئی۔ اسی طرح 18 دسمبرکو پنجاب یونیورسٹی کے الرازی ہال میں شعبہ عربی کے زیر اہتمام تقریب میں ڈاکٹر خورشید رضوی مہمان ِخصوصی، جبکہ ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری صدر نشین اور چیئرمین شعبہ عربی ڈاکٹر حامد اشرف ہمدانی منتظم و مہتمم تھے۔ اسی مناسبت سے دیگر کئی مقامات پر بھی خصوصی نشستوں کا اہتمام ہوا۔ یہ سب کچھ اس لیے سپرد تحریر کردیا تاکہ سَند رہے اور اس ضمن میں دیگر شخصیات و تقریبات بھی ریکارڈ کا حصہ بن جائیں۔ ہمارے محکمے میں عربی کے انسٹرکٹر اور" اوقاف و جامعہ الازہر "کے درمیان کورس کوارڈینیٹرابو الخیر علامہ زوار حسین الازہری بھی اس سلسلے میں گرم جوش رہے۔ علامہ صاحب بہت مشنری اور اپنے امور میں بہت مستعد ہیں۔ بالخصوص گزشتہ دو سالوں سے الازہر کے اشتراک سے "دورہ منھجیۃ الرد علی الشبھات"سمیت دیگر آن لائن کورسز کا اہتمام وانصرام ان کے کریڈٹ میں ہے۔ بہر حال مذکورہ جملہ اہتمامات اپنی جگہ معتبر ---لیکن امرواقعہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں عربی زبان کی ترویج اور تحصیل کا ویسا اہتمام اور شوق فراواں نہ ہوسکا، جیسا ہونا چاہیے تھا، حالانکہ اس کی تشویق و تدریس اور اہمیت کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہی کافی ہوسکتا ہے کہ اہل عرب سے تین وجوہات کی بناء پر محبت کرو، میں عربی ہوں، قرآن پاک عربی میں ہے اور جنت کی زبان بھی عربی ہے۔ اگرچہ اس جزیرہء عرب کا اکثر علاقہ لق و دق صحراؤں، ناقابلِ کاشت بنجر میدانوں اور کبھی نہ عبورہونے والے ریگستانوں پر مشتمل تھا اور اس کے بسنے والے علم سے بالکل بے بہرہ، لیکن قدرت کے اس خطے اور اس میں سکونت پذیر قوم کو اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت اوردین حنیف کی اولین تجربہ گاہ کے لیے منتخب فرمایا اور ان ناخواندہ اور ان پڑھ لوگوں کو اس دولت سرمدی کا امین بنایا۔ اہل عرب میں بہت سی خامیوں اور خرابیوں کے باوجود ایسے اوصاف وکمالات موجود تھے، جس کے باعث وہ اس نعمت عظمیٰ کے امانتدار ہوئے، اور آنے والے ادوار اور حالات نے یہ بات اور انتخاب بالکل درست ثابت کیا، اور ان صحرانشینوں نے اپنی منصبی ذمہ داریاں، اس عمدگی و تندہی سے انجام دیں کہ سارا عالم انگشت بدنداں ہوکر ورطہء حیرت میں ڈوب گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان فہم و فراست، قوتِ حافظہ، فصاحت و بلاغت، غیر ت و شجاعت، سخاوت و دریا دلی، سخت کوشی و جفا کشی فنونِ جنگ میں مہارت اور دیگر کمالات سے اس فیاضی سے بہرہ ور فرمایا کہ ہمعصر اقوام میں کوئی قوم، کسی بھی میدان میں ان کی ہمسری کا دعویٰ نہ کرسکی۔ ان کی فراست و ذہانت عدیم النظیر اور قوت حافظہ بلا کی تھی۔ اگرچہ وہ لکھنے اور پڑھنے سے عاری تھے لیکن اپنی یادداشت کے بل بوتے پر انہوں نے اپنی جنگوں اور دیگر اہم واقعات کی تفصیلات کو محفوظ رکھا۔ وہ صرف اپنے سلسلہ نسب سے ہی پوری طرح باخبر نہ تھے بلکہ اپنے گھوڑوں کے نام اور ان کے نسب ناموں کو بھی پوری طرح جانتے تھے ،جو گھوڑامیدان جنگ میں غیر معمولی شجاعت اور کارکردگی کا مظاہر ہ کرتا اس کی نسب سے پوری طرح واقف رہتے تھے، ان کے تہواروں میں جو ادبی محفلیں منعقد ہوتیں، جن میں دور و نزدیک سے آئے ہوئے فصحاء وبلغاء اپنے قصیدے سناتے یا اپنے خطبات سے لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے، سننے والے ایک بار سننے سے وہ پورا قصیدہ اور پورا خطبہ از بر کرلیتے، پھر وہ اس سے آگے روایت کرتے رہتے، اگر کسی کی زبان سے فی البدیہہ کوئی جملہ نکل جاتا تو وہ ضرب المثل بن جاتا اور جزیرہ عرب کے گوشہ گوشہ میں رواج پا جاتا۔ ضر ب المثل کے ساتھ وہ واقعہ بھی اذہان میں نقش ہوجاتا جس کے پس منظر میں کسی کی زبان سے یہ جملہ نکلتا۔ ہر شاعر کا ایک "راو یہ" ہوا کرتا جس کا کام یہ تھا کہ شاعر کی زبان سے نکلنے والا ہر شعرکو وہ یاد کرلیتا۔ ہر راویہ کو شعر کے مختلف اقسام، رجز، قصیدہ،نظم وغیرہ اس قدر یاد ہوتے کہ ان کا شمار مشکل ہوتا ،اصمعی جو متاخرین میں ادب کا امام شمار کیا جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ بالغ ہونے سے قبل مجھے اعراب بادیہ کے بارہ ہزار ار جوزے یاد تھے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی قوم قوت حافظہ میں اہل عرب کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکی۔ عربی زبان میں جو وسعت ہے اور ہر چیز کے مختلف حالات اور مختلف صفات کے اعتبار سے الگ الگ نام ہیں ان کے ہاں مترادفات کی بھر مار ہے اس لیے ان کے شعر وسخن کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ان کے ہاں شہد کے اسی نام ہیں، سانپ کے دو سو، شیر کے پانچ سو، اونٹ کے ایک ہزار، تلوار کے بھی ایک ہزار اور آلام و مصائب کی تعبیر کے لیے چار ہزار الفاظ ہیں،محبت کے مختلف مدارج کیلئے دس نام اوربغض وعداوت کیلئے ہرکیفیت کاالگ نام۔ پیاس پہلے درجے کی ہو تو 'عطش' اوربڑھ جائے تو'ظما' اس سے آگے 'صدی ' پھر'غلہ ' مزید آگے ' لہیہ ' اور آگے 'ہیمام' پھر 'اوام' اور پھر'جواد' کہ جوقاتل ہوتی ہے، ان تمام اسماء کو یاد کرلینا قوی حافظہ کے بغیر ممکن نہیں، اہل عرب کو قدرت نے جوذہانت اور قوت حافظہ عطا فرمائی تھی اس کا انکار ممکن نہیں۔ ان کے مشاہیر سے حماد نامی ایک راویہ تھا، اس نے خلیفہ ولید کوکہا کہ وہ یہاں کھڑے کھڑے ایک سو قصیدہ زبانی سنا سکتا ہے اور ہر قصیدہ بیس سے سواشعار پر مشتمل ہو گا۔ کلام کی اس وسعت اور ایک مادہ سے مختلف صیغوں کے اشتقاق کے قواعد نے اس لغت کو مزید و سعتیں بخش د یں تھیں، جس کی وجہ سے اہل عرب میں مافی الضمیر کے اظہار اور بیان کی وہ قوت پید اہوگئی ، جس کے باعث دنیا کی کوئی قوم ان کے ساتھ برابری کا دعویٰ نہ کر سکی۔