راجہ پرویز اشرف نے تہیہ کر لیا ہے کہ استعفے منظور نہیں کرنے تو بس نہیں کرنے ۔ گذشتہ روز اسپیکر کے چیمبر میں ایک طویل بیٹھک ہوئی۔ ایک گھنٹے سے زائدجاری رہنے والی ملاقات میں نہ جانے کیا کیا باتیں ہوئیں ،ہمیں تو بس مختصر حال سنا دیا گیا۔اسلام آباد کے رپورٹرز اسپیکر روم کے باہر کھڑے تھے اور طرح طرح کی چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔سب سے اہم سوال یہ تھا کہ شاہ محمود قریشی ، اسد عمر اور پرویز خٹک کیوں نہ آئے؟کیا پی ٹی آئی بھی اب اندر سے یہی چاہتی ہے کہ استعفے قبول نہ کیے جائیں ؟ یہ سوال اسد قیصر سے ہوا، ہونا ہی تھا۔پوچھا گیا پارٹی کے تین سینئر ترین لیڈرز کو آج آنا تھا کہاں رہ گئے ؟ان کا جواب کمزور تھا، کہنے لگے عمران خان نے تین بجے میٹنگ کے لیے بلا لیا اس لیے جانا پڑا ۔ عمران خان پانچ بجے میٹنگ رکھ لیتے تو کیا حرج تھا ۔ اگر استعفے دینے ہیں تو استعفے دینے سے اہم معاملہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ دوسری دلیل یہ دی گئی کہ ا سپیکر سے بات ہی تو کرنی تھی،اسد قیصر اور قاسم سوری نے کر لی ، ایک ہی بات ہے۔ نہیں جناب شاہ محمود قریشی اور اسد عمر آئے ہوتے تو یہ خبر زیادہ بڑی ہوتی۔ یہی وجہ ہے کچھ لوگوں کو لگتا ہے تحریک انصاف دکھانا تو یہی چاہتی ہے کہ وہ استعفے دینے کو تیار ہے مگر ان کے استعفے قبول نہیں کیے جا رہے ۔ لیکن شاید پی ٹی آئی بھی اب یہی چاہتی ہے کہ جب تک الیکشن کی واضح یقین دہانی نہ ہوجائے قومی اسمبلی سے ان کے استعفے قبول نہ کیے جائیں ۔ تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف کے سامنے موقف اختیار کیا کہ قاسم سوری قانون کے مطابق پہلے ہی استعفے منظور کر چکے ہیں انہیں دوبارہ منظور کرنے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ کہ ان کے استعفے ضابطے کے مطابق الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے جائیں ۔ اسپیکر قومی اسمبلی سمجھتے ہیں کہ قاسم سوری نے استعفے منظور کرتے ہوئے ضابطے کی پاسداری نہیں کی۔ انہیں ایک ایک رکن اسمبلی سے الگ الگ تصدیق کرنی چاہیے تھی،ایسا نہیں کیا گیا۔ شکور شاد کی مثال دی جاتی ہے کہ استعفیٰ تو قاسم سوری نے ان کا بھی منظور کر لیا تھا، بعد میں انہوں نے کہہ دیا کہ وہ استعفیٰ نہیں دینا چاہتے۔ یہ معاملہ ایک بار اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے بھی آ چکا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کے سامنے علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا تھاراجہ پرویز اشرف کے طرف سے محض گیارہ استعفے منظور کرنا غیر آئینی ہے۔ سبھی نے ایک ساتھ استعفے دیے ہیں تو سبھی کے ایک ساتھ منظور کیے جائیں ۔ جن ارکان کے استعفے قبول نہیں کیے گئے، انہوں نے بھی تو ویسے ہی استعفے دیے جیسے باقی گیارہ نے دیے ۔ تو پھر ان گیارہ لوگوں کے کیسے منظور ہو گئے۔تمام دلائل سننے کے بعد جسٹس اطہر من اللہ نے جواب دیا تھا کہ وہ اسپیکر کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے اور یہ کہ یہ اسپیکر کا استحقاق ہے۔ استحقاق ہے یا کیا،معلوم نہیں۔ لیکن راجہ پرویز اشرف اڑے ہوئے ہیں ، استعفے قبول نہیں کرنے تو بس نہیں کرنے۔ اگرچہ پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک سینئر صحافی نے ایک تقریب کے دوران ن لیگ کو یہ تجویز دی تھی کہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان کے استعفے قبول کر کے ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں ، جب وہ دوبارہ الیکٹ ہو کر آئیں تو دوبارہ ان کے استعفے قبول کیے جائیں اور پھر دوبارہ ضمنی انتخابات کرا دیے جائیں ۔ یہ تجویز خواجہ آصف کو بہت پسند آئی تھی کہ ہاں ایسا کرنے سے عمران خان ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے رہیں گے۔ یہ تجویز سننے میں اچھی ہے مگر قابل عمل نہیں ہے۔الیکشن سے چھ ماہ قبل ایک سو پچیس حلقوں میںدو بار ضمنی الیکشن اتنا آسان ہے کیا؟معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے اور یار لوگوں کو مزاق سوجھ رہا ہے۔ جہاں الیکشن کرانے ہیں وہاں تو کرا نہیں رہے۔کراچی کے بعد پی ڈی ایم اسلام آباد کے ضمنی انتخابات سے بھی بھاگ گئی۔ قانون میں صاف صاف لکھا ہے کہ جب انتخابات کا شیڈول آ جائے تو نئے نوٹیفیکشن کے ذریعے حلقہ بندیاں نہیں ہوں گی اورپرانی حلقہ بندیوں پر ہی انتخابات ہوں گے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی ایک ججمنٹ بھی موجود ہے، جس کے مطابق انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے بعد اگر قانون سازی بھی ہو جائے تو وہ طے شدہ انتخابات پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ یہاں بیلیٹ پیپر چھپ جانے کے بعد الیکشن کمیشن عدالت میں کہہ رہا ہے کہ آپ حکم بھی دیں تو اکتیس دسمبر کو الیکشن نہیں کرا سکتے ۔ عدالت نے پوچھا جب سب انتخابات مکمل ہیں ،بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں تو کیوں نہیں کرا سکتے ۔جواب دیا جی پرنٹنگ میٹریل کو الگ الگ کرنا اور پھر پولنگ اسٹیشنز تک پہنچانا ہے۔ بچگانہ جواب سن کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج ارباب طاہر مسکرائے اور تحریری جواب مانگ لیا۔ گذشتہ روز پارلیمنٹ ہائوس میں تحریک انصاف کے کچھ منحرف ایم این ایز بھی چلتے پھرتے نظر آئے۔ ان سے پوچھا گیا تحریک انصاف اسمبلی میں واپس آ گئی تو آپ کس کے ساتھ بیٹھیں گے۔ کہنے لگے ہم تو تحریک انصاف کے ہیں ،انہی کے ساتھ بیٹھیں گے۔ مگر کیسا دلچسپ لگے گا جب راجہ ریاض، نور عالم خان ، باسط بخاری ، ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ اور دیگر تحریک انصاف کے ساتھ بیٹھیں گے اور عامر ڈوگر سے ہدایات لیں گے۔ تحریک انصاف میں واضح طور پر ایک رائے پائی جاتی ہے کہ انہیں راجہ ریاض اینڈ کمپنی کو فارغ کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا کنٹرول خود سنبھالنا چاہیے اور آئندہ دنوں میں عبوری حکومت کے قیام میں اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہیے ۔جگہ خالی رہی تو راجہ ریاض قابض رہ کر اہم مشاورت کا حصہ بنے رہیں گے۔ تجویز دینے والوں کا جواز معقول ہے مگر عمران خاں اس آپشن کو ماننے کے لیے تاحال تیار نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں اگر پارلیمنٹ سے باہر نہ آتے تو انہیں ایسی مقبولیت حاصل ہی نہ ہوتی۔ اب تحریک انصاف پارلیمنٹ میں جا نہیں رہی اور راجہ پرویز اشرف انہیں پارلیمنٹ سے نکال نہیں رہے، دیکھئے کہ یہ کھیل کب تک چلتا ہے۔