یہ داغ داغ اْجالا یہ شب گزیدہ سحر وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بیان دیا ہے کہ عوام غم نہ کریں ہم دہشت گردی کا ناسور کچل دیں گے۔ مزید کہا کہ گھڑی چور نے ملک کو بد نام کیا۔ معیشت کا بیڑہ غرق کیا۔ دوست ممالک سے تعلقات خراب کیے۔ سوچنے کی بات ہے ملک میں دوبارہ سے دہشت گردی ہو رہی ہے۔ بنوں اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی پر اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ بس ہم یونہی دہشت گردی کے خون میں بھیگے ہوئے پرچم لے کر چلتے رہیں گے اور اجلاس طلب کرتے رہیں گے۔ صبح کے روشن نور کے لیے کب تک۔۔ آخر کب تک شب کی سنگین سیاہی سے وفا مانگتے رہیں گے؟ کیا ہم پھر سے وہیں کھڑے ہو گئے ہیں جہاں سے ڈومور کی صدائیں سنائی دیا کرتی تھیں؟ 27دسمبر تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی تھی۔ وہ عظیم عورت جسے اپنے ثقافتی اور مذہبی ورثے پر فخر تھا۔ وہ عورت جو طالبان اور القاعدہ کے لیے خوف کا نشان تھی۔ وہ نسوانیت کا ایسا سیاسی استعارہ تھی جو پاکستان میں جدت پسندی، تعلیم اور ٹیکنالوجی کو متعارف کروانا چاہتی تھی۔ بے نظیر دلیری کی علامت تھی۔ جب 1988میں وہ اپنے پہلے بچے کی دفعہ حاملہ ہوئیں تو اس قت کے ملٹری آمر نے پارلیمنٹ کو یہ کہتے ہو برخاست کیا کہ ایک حاملہ خاتون میدانِ کار زار میں نہیں چل سکتی۔ لیکن بے نظیر صاحبہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ غلط تھا۔ بلاول کی پیدائش کے بعد وہ پہلی مسلم ورلڈ کی وزیرِ اعظم اور پاکستان کا فخر بنیں۔ بلاول زرداری جو بے نظیر کے اکلوتے بیٹے ہیں انہیں اپنی والدہ کی برسی پر بات تو ان کی سیاسی جدوجہد اور افکار پر کرنی چاہیئے تھی مگر وہ عمران خان کا راگ الاپتے رہے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ سیلیکٹڈ کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا ہے۔ جبکہ رجیم چینج میں متبادل لوگ ہی اصل میں چنیدہ ہوتے ہیں۔ مزید کہا کہ کٹھ پتلی کے خلاف سازش وائٹ ہاؤس نہیں بلکہ بلاول ہاؤس میں ہوئی۔ چلیے یہ تو مان لیا گیا کہ سازش ہوئی۔ کون کتنا گناہ گار ہے؟ بلاول زرداری کے والدِ محترم نے ان کے نام کے ساتھ بھٹو کا لاحقہ لگایا کیونکہ شاید ابھی تک بھٹو بِکتا ہے۔ دوسری طرف موجودہ متبادل وزیرِ اعظم نے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں اور ادارے مل کر بھتہ خوری اور دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ صاحب! دہشت گردی کو تو شاید شکست دی جا چکی تھی اب یہ ناگ پھر سے کیوں سر اْٹھانے لگا ہے۔ کون کتنا گناہ گار ہے؟ IMF نے بھی موجودہ حکومت کے ساتھ سخت رویہ روا رکھا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی وجہ سے IMF کے پروگرام میں تاخیر ہوئے جا رہی ہے۔ کون کتنا گناہ گار ہے؟ بلاول جب سے وزیر خارجہ بنے ہیںتب سے دوروں کے جہازوںپر ہی سوار ہیں جبکہ ملک کی معیشت خطرے میں پڑی ہے۔ بلاول کہتے ہیں کہ میں اپنے ذاتی خرچے سے جاتا ہوں تو وہ دورے بند کر کے پیسہ ملکی خزانے میں کیوں نہیں ڈال دیتے۔ شہباز شریف خادمِ اعلیٰ نے کہا تھا کہ میں اپنے کپڑے بیچ کر قوم کو آٹا لے کر دوں گا۔ جناب! کپڑے بیچنے کے بجائے ایک آدھی مل بیچ کر خزانے میں ڈال دیں۔ وہ تجربہ کار ٹیم جسے کندھوں پر بیٹھا کر لایا گیا اس نے عوام کے ہاتھوں کے طوطے اْڑا دیے۔ ہر پارٹی ہر مرتبہ ایک دوسرے پر الزام لگاتی ہے۔ نجانے کون جھوٹاہے؟ کون کتنا گناہ گار ہے؟ آنے والا ہر دن سیاسی عمل میں حصہ تو ڈالتا ہے اور سیاست باز اپنی اپنی بازیاں تو کھیلتے ہیں مگر عوام کے حقوق غصب ہو جانے کے خوف سے ان کے دل ہر گز نہیں لرزتے۔ مین مارکیٹ گلبرگ میں تندور پر ایک روٹی 20روپے کی بکنے لگی ہے۔ بھلا سوچیے ایک مزدور تین روٹیاں ایک وقت میں کھائے گا تو 60روپے کی فقط روٹی ہو گی۔ 150روپے کی سبزی یا دال کا سالن ملتا ہے یعنی 210روپے میں ایک وقت کا ایک بندے کا کھانا ہوگا۔ اب وہ کھائے گا کیا اور اپنے اہلِ خانہ کو کیا بھیجے گا۔ کون کتنا گناہ گار ہے؟ ثابت ہوا کہ قوانین کے ایوانوں سے وہی ظلم کی زنجیریں کھنکتی ہیں۔ کہتے ہیں انصاف اندھا ہوتا ہے۔ اب تو سچ ہی لگتا ہے۔ پاکستان کے کروڑوں عوام خاک پر رینگتے ہوئے افسردہ ڈھانچے سے بنتے جا رہے ہیں۔ آخر کون کتنا گناہ گا ہے؟ جس قدر یہاں جمہوریت آئی زندگی کی تڑپ اس نے بڑھائی۔ ہم جیسے ناچیز اور ناتواں کالم نگار اپنے لفظوں کی جھولی پسارے روٹی، امن اور سلامتی کی بھیک مانگتے ہیں۔ دوائیں اس قدر مہنگی ہو چکی ہیں کہ بیمار بھی اپنے طبیب سے اب الجھنے لگے ہیں۔ ہمارے سیاست دان جو ہم پر حکم ران بن کر مسلط ہیں ان کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ نومشق نظاموں پر ایستادہ ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں۔ کون کتنا گناہ گار ہے؟ بلند و بانگ جمہوریت کے دعوے دار دراصل اقتدار کے بھوکے ہیں۔ لوگوں کی آواز کو دبانا تو خیر ممکن ہے لیکن اس زندگی کی للکار کو کون روکے گا جو بدلتے وقت کی آواز ہے۔ وہ نظریے جو دماغوں کو جلا دے رہے ہیں جبر اور تشدد سے اب مٹ نہیں سکتے۔ میرے محبوب وطن کے جو نام نہاد پیشوا ہیں ان کی نگاہوں میں چھپا تذبذب دیکھ کر لگتا ہے کہ غلامی کی زنجیروں کی گرہ ابھی تک کٹ نہیں سکی۔ان پیشواؤں نے اپنی مفاد پرست سیاست کے تقاضوں کے طفیل عوام کو نوحہ کناں ہی چھوڑ دیا۔ ماضی کو اٹھا کر دیکھ لیں سیاسی بحران ہمیشہ ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہی رہا۔ مہنگائی کی شرح پچھلے برس سے 30فی صد زیادہ بڑھ چکی ہے۔ عوام کو سب سے پہلے پیٹ کا دوزخ بجھانا ہے۔ گیس اور بجلی کا بحران بھی شروع ہو چکا ہے۔ کیا تکنیکی طور پر ہم ڈیفالٹ کر چکے ہیں؟ ٭٭٭٭