انٹیل (Intel) کے نام سے ہر وہ شخص واقف ہے جس نے کبھی کسی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ پر چسپاں سٹکرز پر ایک نظر ڈالی ہو۔ یہ ایک امریکی ملٹی نیشنل ٹیکنالوجی کمپنی ہے جس کی بنیاد 1968 میں رکھی گئی تھی۔ یہ کمپنی اپنے مائیکرو پروسیسرز بنانے کی وجہ سے دنیا بھر مشہور ہے۔ یہ مائیکرو پروسیسر کسی بھی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کا سب سے اہم حصہ ہے جسے سینٹرل پروسیسنگ یونٹ (CPU) کہا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں میں دنیا نے کمپیوٹر کو جس انداز سے طاقتور ہوتے دیکھا اس میں اس کمپنی کے بنائے گئے پروسیسرز کا نمایاں کردار رہا۔ انیس سو ستر اور اسی کی دہائیوں میں ہی انٹیل نے کمپیوٹرز بنانے کی دنیا میں اپنے آپ کو ایک غالب نام کے طور پر منوایا۔ اس وقت انٹیل کے 8086 اور 80286 نامی پروسیسر IBM میں استعمال ہوتے تھے اور یہی پروسیسر اور کمپیوٹر معیار کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ انٹیل نے 1990 کی دہائی میں نہ صرف یہ غلبہ قائم رکھا بلکہ پرویسرز کی پینٹیم لائن متعارف کرکے پروسیسر انڈسٹری میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کیا۔ 2000 کی دہائی کے اوائل میں، انٹیل کو AMD اور ARM جیسی کمپنیوں سے مسابقت کا سامنا ضرور کرنا پڑا، مگر وہ اس مقابلے میں بھی اپنی سبقت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوا۔ انٹیل نے ان کمپنیوں کے مقابلے کیلیے کور آئی سیریز نامی ایسے پروسیسرز تیار کیے جو ہائپر تھریڈنگ جیسی نئی ٹیکنالوجیز سے لیس تھے اور ایک پروسیسرایک ہی وقت میں متعدد کام کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ 32 بٹ کی بجائے یہ پروسیسر 64 بٹ کی پراسسنگ کر سکتے تھے جس سے میموری کو بہتر انداز میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ مگر اب یہ برتری ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور انٹیل کو دہائیوں بعد انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جہاں ایک طرف یہ خبریں آ رہی ہوں کہ دنیا بھر کی کمپنیوں کو کمپیوٹر چپس کی کمی کا سامنا ہے وہاں یہ بات انتہائی عجیب محسوس ہوتی ہے کہ کمپیوٹر چپس بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی کے ایسے حالات ہیں کہ اسے ایک ہی دن میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے ملازمین برطرف کرنے پڑ رہے ہیں۔ یہ بات جس قدر بھی عجیب ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ حالیہ برسوں میں، انٹیل کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال انٹیل کی کمائی میں %21 کی تشویشناک کمی ہوئی اور آئندہ سال بھی حالات میں بہتری کی کوئی واضح شکل دکھائی نہیں دیتی۔ انٹیل کی ان مشکلات کی مختلف وجوہ ہیں مگر ان میں سے ایک نمایاں وجہ لوگوں کا کمپیوٹرز سے زیادہ موبائل ڈیوائسز جیسے سمارٹ فونز اور ٹیبلیٹس کی طرف راغب ہونا ہے۔جب سمارٹ فونز کا استعمال شروع ہوا تب یہ فونز بس کہنے کی حد تک سمارٹ تھے ان میں اس درجے کی صلاحیتیں نہیں تھی جو اْس وقت کے کمپیوٹر میں تھیں۔ تب موبائل فونز پروسیسرز کیلیے سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ پروسیسر بیٹری کم استعمال کریں اور نتیجے کے طور پر ان کی کمپیوٹنگ پاور بے شک کم ہو۔ چونکہ انٹیل نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی کہ اس کے پروسیسر زیادہ طاقت ور کمپیوٹر ہوں اور بیٹری کو کبھی انٹیل نے اہمیت نہیں دی اس لیے بیٹری کم خرچ کرنے والے پروسیسر بنانا انٹیل کیلیے کوئی جانی پہچانی چیز نہ تھی۔ انٹیل نے ان عوامل کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ موبائل پروسیسر بنانے کی مارکیٹ میں داخل نہیں ہوگا اور اسی طرح اپنی توجہ طاقت ور کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ بنانے پر مرکوز رکھے گا اور یوں انٹیل بیٹری کی شرائط سے آزاد زیادہ طاقت ور کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پروسیسر بناتا رہا۔ موبائل پروسیسر بنانے کیلیے Apple اور Qualcomm جیسی کمپنیاں سامنے آ گئی۔ اگرچہ یہ کمپنیاں خود پروسیسر کو آخری شکل میں بنانے کے قابل نہیں تھیں مگر انہوں نے تائیوان اور کوریا کی چپ انڈسٹری کے ساتھ ملکر پروسیسر بنانے شروع کیے۔ رفتہ رفتہ ان پروسیسرز کی طاقت میں بھی اضافہ ہوتا گیا اور یہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں موجود پروسیسر کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے۔ دو ہزار بیس میں ایپل نے یہ اعلان کیا کہ اس کے اپنے بنائے ہوئے پروسیسر انٹیل کے پروسیسرز سے کئی گنا بہتر ہیں لہٰذا اس کے بعد وہ اپنے کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ میں بھی انٹیل کی بجائے اپنے پروسیسر استعمال کرے گا۔ یوں انٹیل کمپیوٹر پروسیسرز بنانے میں بھی اپنا کردار کھوتا رہا اور موبائل پروسیسرز کی طرف تو اس نے کبھی توجہ ہی نہیں دی اس کا نتیجہ انٹیل کے موجودہ حالات کی شکل میں نکلا۔ جس طرح لوگوں کا رجحان کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپ سے موبائل کی طرف زیادہ ہونے لگا اسی طرح وہ لوگ جن کیلیے کمپیوٹر کی طاقت اہم تھی انہوں نے کلاؤڈ کمپیوٹنگ کا رخ کیا (کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں کوئی ایک کمپنی جیسے گوگل یا مائیکروسافٹ ایک جگہ پر سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں انتہائی طاقتور کمپیوٹر نصب کرتی ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے کوئی بھی ان کو استعمال کر سکتا ہے)۔ انٹیل نے اگرچہ اس کی طرف توجہ دینے کی کوشش ضرور کی مگر اس کے مقابلے میں Nvidia اور اے ایم ڈی ابھر کر آئے۔ انویڈیا کو انتہائی طاقتور مگر مہنگے گرافکس پروسیسر بنانے کا تجربہ تھا جو مصنوعی ذہانت کے پرگراموں کیلیے انتہائی کارآمد تھے۔ اگرچہ عام صارف ان کو خرید نہ سکتا تھا مگر کلاؤڈ کمپیوٹنگ کیلیے بڑی کمپنیوں کیلیے ان کا خریدنا ممکن تھا۔ اسی طرح اے ایم ڈی کے پاس ایسے پروسیسر تھے جن کی قیمت انٹیل کے پرویسسر سے کم اور کمپیوٹنگ میں انٹیل پروسیسر کے قریب تر تھے یوں یہ بھی کلاؤڈ کمپیوٹنگ کیلیے ایک اچھی ترجیح ثابت ہوئے اور انٹیل اس مارکیٹ میں بھی پیچھے رہ گیا۔ اب بظاہر پروسیسر کی دنیا میں انٹیل کی بادشاہی کا خاتمہ ہونے کو ہے اور یہ مقابلہ اب انویڈیا اور اے ایم ڈی کے درمیان رہے گا۔ انٹیل اب شاید تائیوان اور کوریا کی چپ انڈسٹری کے ماڈل کو فالو کرکے نئے انداز میں مقابلہ کی کوشش کرے۔