وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پریس کانفرنس میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 35، 35 روپے فی لیٹر اضافے کا اعلان کر دیا ، یہ بھی دیکھئے کہ اپنی پریس کانفرنس سے دو منٹ بعد قیمتوں میں اضافے کا اطلاق بھی کرا دیا۔ اس اعلان سے ایک دن پہلے پٹرول پمپوں پر پٹرول نایاب ہو گیا، آئل مافیا نے بھاری منافع کے لالچ میں ذخیرہ اندوزی کی اور شہریوں کو ذلیل و خوار کیا۔ پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سے پورے ملک میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فیصلہ واپس لیا جائے کہ غریب پہلے ہی مر رہا ہے ، ستم دیکھئے کہ پٹرول کے قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی فوری طور پر روزمرہ استعمال کی چیزوں میں اضافہ ہو گیا ہے ، ٹرانسپورٹروں نے بھی کرایوں میں اضافہ کر دیا ۔ہر حکومت غربت کے خاتمے کے منصوبے انائونس کرتی ہے مگر عملی طور پر ہر حکومت غربت کی بجائے ’’غریب مکائو پروگرام ‘‘پر عمل پیرا نظر آتی ہے۔ جس وزیر خزانہ نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان کیا ہے اسی وزیر خزانہ نے ڈالر کو دو سو سے کم سطح پر لانے کا اعلان کیا تھا مگر ڈالر آج کہاں سے کہاں چلا گیا، اگر ایسا ہی کرنا تھا تو اسحاق ڈار کو لانے کا کیا فائدہ؟ کیا مفتاح اسماعیل اس سے بہتر نہیں تھے؟ ۔ اسحاق ڈار کو جب لایا گیا تو بڑے دعوے کئے گئے مگر آج مخالفین کا یہ الزام درست لگتا ہے کہ اسحاق ڈار اپنے منجمد بینک اکائونٹس کھلوانے اور اپنی قرق کی گئی جائیداد واپس لینے کیلئے آئے تھے۔ ڈالر کی شرح میں خوفناک اضافے سے نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے بلکہ غریب کو گھر بنانے کیلئے بھی سخت مشکلات پیش آرہی ہیں کہ ہماری کرنسی کا نام روپیہ ہے مگر ہر چیز ڈالر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ جب مشرف کا دور ختم ہوا پیپلز پارٹی آئی مگر اس وقت بھی غریب کو ریلیف نہ ملا، زرداری کے بعد نواز شریف آئے تو مہنگائی اور ڈالر مزید اوپر چلے گئے عمران خان نے اس کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومتوں کی غلط کاریوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ جو بھی برسراقتدار آئے وہ بتائے کہ اس نے کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ اور لوگوں کو کیا ریلیف دیا؟ ۔ غریب عوام کو سزا دینے اور اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لائی جائے۔ مریم نواز نے لندن سے آتے ہی اعلان کیا ہے کہ نوازشریف ملک کو بھنور سے نکالیں گے، کس طرح نکالیں گے؟ اس بارے کچھ نہیں بتایا گیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مریم نواز اپنے والد اور اپنے بھائیوں کی بیرون ملکوں میں رکھی گئی دولت واپس لے آتیں، آج ڈالر کا جو بحران ہے اُس کا ذمہ دار کون ہے؟ آج بھی افغانستان کے راستے اربوں کے ڈالر باہر کون بھیج رہا ہے اور کیوں بھیجے جا رہے ہیں؟ ۔ غربت کے خاتمے کی صرف باتیں کی جاتی ہیں عملی طور پر سب کچھ اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ زرداری، نوازشریف اور عمران خان کو کیا معلوم کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ چند دن پہلے پیپلز پارٹی کے رہنما مخدوم احمد محمود نے عوام کو کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت 500 روپے لیٹر اور بجلی 100 روپے فی یونٹ کر دی جائے ۔ سوال یہی ہے کہ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ غربت کیا ہوتی ہے؟ ۔ کتنی بے شرمی کی بات ہے کہ غربت اور بیروزگاری کے خاتمے کی صرف باتیں ہوتی ہیں، عام آدمی کی تنخواہ میں اضافے کی بات نہیں کی جاتی۔ آٹے کے بحران نے غریبوں سے دو وقت کی روٹی چھین لی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سے غریب عوام زندہ درگور ہو چکے ہیںمگر سیاستدانوں کو اقتدار کی جنگ سے فرصت نہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے ، مگر حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایک عرصے سے ملک بھر میں سبزیوں کی پیداوار وافر ہونے کے باوجود ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں کوئی ان قیمتوں کو کنٹرول کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔ یہ حقیقت ہے مفاد پرست سیاستدانوں کی اقتدار کی جنگ میں فریبی سیاست آگے اور ریاست پیچھے رہ گئی ہے، ملک و قوم کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا، کہنے کو سب کہتے ہیں کہ اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے مگر سب سیاستدان اتحاد کو پارہ پارہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ معاشی خود مختاری کے بغیر آزادی نہ مکمل ہے۔اب سوال یہ ہے کہ معاشی خود مختاری کہاں سے آئے گی؟ جب ملک بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور آئی ایم ایف کی مرضی کے بغیر پاکستانی معیشت کو سانس لینے کی بھی اجازت نہیںتو معاشی آزادی کیسے ملے گی؟ ۔ 75 سال میں ترقی کی بجائے تنزلی ہوئی ہے، 1960ء کے عشرے میں پاکستان جن ملکوں کو قرض دیتا تھا آج اُن کا دست نگر بنا ہوا ہے۔ مقتدر قوتوں اور سیاستدانوں نے ملک و قوم کے ساتھ جو حشر کیا ہے وہ آج سب کے سامنے ہے ۔ بار بار کے مارشل لاء نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا، رہی سہی کسر نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں نے پوری کی۔ کسی نے بھی ملک و قوم کیلئے نہیں سوچا، سب نے اپنے اپنے مفادات کو دیکھا۔ ہمارے ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ سیاستدانوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے، حکمرانوں کو کیا علم بیروزگاری اور مہنگائی کا غریب طبقات پر کیا اثر پڑتا ہے؟ ۔ محروم اور پسماندہ علاقوں پر مہنگائی اور بیروزگاری کا اثر سب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ وسیب جو زرخیز ترین خطہ ہے مگر اسے آج تک پسماندہ رکھا گیا ہے ، معروف سکالر ڈاکٹر مہر عبدالحق مرحوم پسماندگی کی بجائے پس افتادگی کا لفظ استعمال کرتے تھے، پس افتادگی کا مطلب یہ بتاتے تھے کہ کسی چیز کو دور پھینک دینا۔ ان کا ایک اپنا تھاٹ تھا وہ کہتے تھے کہ وسیب صومالیہ نہیں ہے، یہاں اناج اتنا زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی ملکوں کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔وسیب کی محرومی ختم کرنے کے دعوے اور وعدے سب کرتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔