گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ عزت ماب محمد بن راشد المختوم کے کچھ بین الاقوامی نیوز چنیلز کو دیئے گئے پرانے انٹرویوز دیکھنے کو ملے۔ دورانِ انٹرویو شیخ محمد سے اینکرز نے یہ سوال کیا کہ ’آپ کو کیا جلدی ہے؟ آپ سات سال میں تعمیر ہونے والی عمارت کو ایک سال میں بنانا چاہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اِ س پر شیخ محمد بن راشد المختوم نے اینکرز کو ایسا جواب دیا جس پر اینکرز سمیت دیکھنے والے لاجواب ہوگئے۔ شیخ محمد نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امارات کی موجودہ نسل کو فوائد حاصل ہوں، متحدہ عرب امارات کے مستقبل نہیں بلکہ حال میں رہنے والے شہری ریاست کی ترقی، جدیدیت اور جدید سہولیات سے مستفید ہوں۔ متحدہ عرب امارات ایک ایسی فلاحی ریاست کا نقشہ پیش کررہی ہے جس سے عوام مستفید ہورہے ہیں۔ ایک خاتون اینکر نے متحدہ عرب امارات میں طرزِ جمہوریت پر سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ یہاں حکومت کیسے کام کرتی ہے؟ یہاں تو پارلیمانی طرز کا جمہوری نظام نہیں ہے۔ جس پر شیخ محمد بن راشد المختوم نے جواب دیا کہ ’یہاں اپنی طرز کی جمہوریت ہے۔ ہم نے حکومت کا نقشہ قرآن مجید سے لیا ہے‘۔ شیخ محمد نے کہا امارات جسے محض تین سے چار دہائیاں قبل بنجر و ویران لق و دق صحرا کی صورت میں دیکھا جاسکتا تھا۔ آج اْسی دبئی اور دیگر ریاستوں میں پرشکوہ عمارات دیکھی جاسکتی ہیں۔ آج یورپ، امریکہ، فرانس، جرمنی اور دیگر ممالک میں کمپنیاں یہ طے کرتی ہیں کہ اْن کے منصوبہ جات کی تکمیل، مشاورت اور اْن پر عمل درآمد کے لئے ملاقاتیں دبئی کے دفاتر میں ہونگی۔اب دبئی دنیا کا مرکز و محور بن چکا ہے۔ روزگارکے مواقع، تعمیر و ترقی، ریل اسٹیٹ کا کاروبار اور دیگر ترقیاتی منصوبہ جات کو دیکھ کر جہاں دل کو تسکین ہوتی ہے وہیں یہ بھی خوشی ہوتی ہے کہ ایک مسلمان ملک دورِ جدید میں پوری جِدت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اماراتی حکمران نے جہاں سیر و سیاحت، تعمیر و ترقی پر خاص توجہ دی ہے وہیں انہوں نے کئی ایسے سماجی اقدامات اْٹھائے ہیں جن کی بدولت نہ صرف حکمران بلکہ عوام خوشی سے نہال ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اجتماعی شادیوں کا تصور اماراتی حکمرانوں نے دیا ہے۔ وہاں پرانے محلات کو قابل ِ استعمال بنا یا گیا ہے۔ اْن محلات میں اجتماعی شادیاں ہوتی ہیں جن کی ایک وقت میں تعداد بارہ سے چوبیس کے درمیان ہوتی ہے۔متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں نے جب دیکھا کہ لوگ انفرادی شادیوں پر ہوش ربا اخراجات میں اپنا پیسہ ضائع کررہے ہیں تو انہوں کافی سوچ و بچار کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اجتماعی شادیاں ہونگی اور فیصلہ ہوا کہ اْن اجتماعی شادیوں میں شاہی خاندان کے اے کیٹیگری کے دو شہزادے شرکت کریں گے اور وہ عام عوام کی شادیوں میں مدعوع مہمانوں کو خوش آمدید کہیں گے۔ ایک عام آدمی پہلے تو اِس قدر عالی شان محل میں شادی کرنے کا تصور ہی نہیں کرسکتا تھا اور اگر ایسا ممکن بھی ہوتا تو شاید اْس شادی میں حکمران کی شرکت ناممکنات میں سے تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ خود شاہی خاندان کے شہزادے مہمانوں کو مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ عام شہریوں سے معمول کے مطابق گفت گو کرتے ہیں۔ اْن کا حال چال پوچھتے ہیں۔ شہزادوں کے اِس عمل سے جہاں حکمرانوں کا عوام کے ساتھ میل جول بہت حد تک بڑھ گیا ہے وہیں عام عوام کو شاہی خاندان کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ جہاں عوام کاشادیوں پر خرچہ بچ رہا ہے وہیں پرْانے محلات کو دوبارہ آباد کیا گیا ہے۔ وہ سیرو سیاحت کے مرکز بن گئے ہیں۔ اب متحدہ عرب امارات میں اجتماعی شادیوں کی صورت حال اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ کئی اْمراء دولت کی فراوانی کے باوجود اپنا نام اجتماعی شادی کی فہرست میں لکھواتے ہیں اور حیران کن طور پر اب اجتماعی شادیوں کے لئے محل کی انتظامیہ تاریخ کا تعین کرتی ہے اور کبھی کبھار یہ تاریخ کئی مہینوں اور کبھی تو سالوں کے بعد آتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں خاص طور پر شیخ محمد بن راشد المختوم کی ذاتی سرکاری مصروفیات کو دیکھ کر قوم بھی ویسی محنت کش اور جانفشاں بن گئی ہے۔ آج دبئی میں ایک ٹیکسی ڈرائیور تک اپنے پرس میں شیخ محمد کی تصویر رکھتا ہے۔ اْسے نکال کرمحبت و احترام سے چومتا ہے۔ لوگ اپنے حکمران کے طرزِ زندگی کے دیوانے ہیں۔ آج اگر امارات کا کوئی شہری کام میں غفلت برتے یا کاہلی کا شکار ہونے لگے تو اْسے اپنے حکمران کی عادت سامنے نظر آتی ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات کا حکمران اِس قدر محنت کرسکتا ہے تو وہ بطور شہری کیوں پیچھے رہ گیا ہے یا غفلت کا مرتکب ہورہا ہے؟ آج امارات کے شہریوں سے پوچھیں تو اْن کی گفتگو قابل ِ تعریف ہوتی ہے۔ اْن کے بقول شیخ محمد اور اْن کے والد ہی وہ شخصیات ہیں جنہوں نے متحدہ عرب امارات جیسے صحرا کو گل و گلزار میں بدل دیا۔ جو طرزِ زندگی شیخ محمد نے دبئی کے شہریوں کو فراہم کیا ہے اِس کا تو انہوں نے خواب میں بھی تصور نہیں کیا تھاکہ ترقی یافتہ ممالک کے لوگ امارات میں زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں۔ شیخ محمد کے ایسے اقدامات کی بدولت آج حکمران کو اپنی سکیورٹی کے لئے پریشان نہیں ہونا پڑتا، اْسے سوائے خدا کے اورکسی کا خوف نہیں ہے کیونکہ اْس حکمران نے صحیح معنوں میں ملک و قوم کی حالت بدل کررکھ دی ہے۔ اجتماعی شادیوں کا ایسا خوبصورت تصور تو پاکستان میں بھی اْٹھایا جاسکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کچھ افراد نے سندھ میں یہ فلاحی اقدام اٹھایا تھا جہاں متعلقہ علاقہ کی موثرسیاسی شخصیت شامل ہوتی تھی مگر بعد ازاں یہ عمل ماند پڑتا گیا۔ملک میں اِسی ایک عمل کو ہی زندہ کرلیا جائے اور بڑے پیمانے پر اپنا لیا جائے تو جہاں ہمارے قلعہ ڈیراآور، نورمحل، صادق گڑھ، گلزار محل، دربار محل، شاہی قلعہ ملتان، شاہی قلعہ لاہور، مقبرہ ِ جہانگیر، جہلم، راولپنڈی، قصور، فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں قلعوں اور محلات کو دوبارہ آباد کیا جاسکتا ہے۔ وہیں حکمرانوں اور عوام کو سچے معنوں میں پورے خلوص کے ساتھ باہمی میل جول بڑھانے کا موقع بھی مل سکتا ہے۔ دوسری جانب جہیز جیسی لعنت اور شادی بیاہ پر پید ا کردہ فضول رسومات سے آسانی سے جان بھی چھڑائی جاسکتی ہے۔ دیکھئے کوئی تو ہوگا جسے ملک و قوم کا درد ستائے گا۔