پشاور میں پولیس لائن کی مسجد میں خود کش دھماکے سے 35 کے لگ بھگ افراد جاں بحق جبکہ150 زخمی ہو ئے ہیں ۔پولیس کے مطابق دھماکہ اگلی صف میں بیٹھے خود کش حملہ آور نے کیا ۔دھماکے کی شدت اس قدر تھی کہ مسجد کی چھت گر گئی اور ملحقہ عمارتوں کو نقصان پہنچا ۔دھماکے کے بعد سکیورٹی اداروں نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے ۔پشاور دھماکے کے بعد اسلام آباد سمیت ملک کے کئی علاقوں کی سکیورٹی الرٹ کر دی گئی ہے ۔ پولیس لائن کا علاقہ انتہائی حساس ہے اور یہاں پولیس افسران و سکیورٹی انتظامیہ کے دفاتر اور اہلکاروں کی رہائش گاہیں ہیں۔ پولیس لائن سے ملحقہ شاہراہ سے ایک راستہ وزیر اعلیٰ ہاؤس اور گورنر ہاؤس کی جانب جاتا ہے جبکہ اس کے دائیں جانب سول سیکریٹریٹ کی عمارت موجود ہے۔ پولیس لائن کے عقبی جانب پشاور کی سینٹرل جیل واقع ہے۔ پولیس لائن کا علاقہ ایک ہائی سیکورٹی زون قرار دیا جاتا ہے اور یہاں ہر آنے اور جانے والے کی تلاشی لی جاتی ہے۔ مختلف جگہوں پر پولیس نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ خیبر روڈ پر کچھ آگے جوڈیشل کمپلیکس اور پشاور ہائی کورٹ کی عمارت موجود ہے ۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ کی ہے جس میں پاک فوج، پولیس اور عام شہریوں نے ہزاروں جانیں قربان کیں۔وطن عزیز میں کئی ماہ سے دہشت گردانہ سرگرمیاں تیز دکھائی دینے لگی ہیں۔ دہشت گردی کی ایک نئی لہر دیکھی جا رہی ہے، اس کی ایک وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے اور اپنے عسکریت پسندوں کے ذریعے ملک گیر حملے دوبارہ شروع کرنا ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیوں کے ضائع ہونے کے خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ دہشت گردی کا سر اٹھانا حکومتوں کی سستی اور سکیورٹی سے متعلقہ معاملات سے غفلت برتنا ہے ۔ دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے والے عوامل کا تجزیہ ضروری ہے کیونکہ مسئلے کی جامع تفہیم موثر پالیسی سازی کے لیے راہ ہموار کرے گی۔پاکستان میں دہشت گردی کو جنم دینے والے عوامل میں سب سے اہم افغان پالیسی ہے، جس نے ٹی ٹی پی کو دوبارہ منظم ہونیکے قابل بنایا۔پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان غیر ملکی ایجنسیوں کا گڑھ بن چکا ہے ۔دوسری طرف طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی میں نئی جان ڈال دی ہے ۔ اس گروپ نے طالبان کی فتح کو اپنی جیت کے طور پر منایا۔ ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے میدان جنگ، سیاسی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت نے پہلے پاکستان کو کوئی مدد دینے کی بجائے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔پھر طالبان نے صرف سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے مطابق امن مذاکرات نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماضی میں ٹی ٹی پی اور دیگر مقامی عسکریت پسند دھڑوں کے ساتھ تقریباً چھ معاہدے امن کے حصول میں ناکام رہے ہیں ۔ان معاہدوں کے بعد پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ۔2015-2020 کے عرصے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کے کمزور ہونے اور افغانستان پاکستان سرحد پر باڑکی وجہ سے تشدد کے خاتمے کا تاثر ابھرا۔ دہشت گردی کے خلاف حاصل ہونے والے فوائد کی نزاکت کا احساس کیے بغیر تشدد کی عدم موجودگی کو امن کی بحالی سمجھ لیا گیا ۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی 2,640 کلو میٹر طویل سرحد پر باڑ لگانے کو امریکی انخلاء اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان سے عدم تحفظ اور تشدد کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھا گیا۔حال ہی میں، پاکستان اورطالبان کے درمیان کچھ ناخوشگوار معاملات ہوئے ہیں،ان کے نتیجے میں سرحد پر بار بارجھڑپیں اور بندشیں ہوتی رہتی ہیں۔ طالبان کا الزام ہے کہ پاکستان نے امریکہ کو کابل میں ڈرون حملے کے لیے اپنی فضائی حدود فراہم کی تھیں جس میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کی ہلاکت ہوئی ۔پاک امریکہ تعلقات میں ایک بار پھر افغانستان اور دہشت گردی کے معاملات اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، پاکستان اور امریکہ افغانستان میں بین الاقوامی عسکریت پسندی کے بقایا خطرے کے خلاف انسداد دہشت گردی تعاون بتدریج بہتر بنا رہے ہیں۔گویا پاک امریکہ تعلقات کی نئی صورت گری پاکستان میں دہشت گردی بڑھانے کا موجب بن رہی ہے ۔ پشاور کے حساس علاقے میں بڑی کارروائی نے سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مزید مستعد اور خبردار رہنے کا پیغام دیا ہے۔ملک بری طرح سیاسی تقسیم کا شکار ہونے سے قومی یکجہتی کمزور ہو رہی ہے،ایک کے بعد دوسرا بحران ابھر رہا ہے۔ مشکل وقت میں اپنے دھڑے ترک کر کے پاکستانی بن کر سوچنے سے دہشت گردوں کو پسپا کیا جا سکتا ہے۔پشاور میں جاں بحق ہونے والے ملک پر قربان ہوئے ہیں ،ان کی قربانی کو کسی صورت رائیگاں نہیں جانا چاہئے ۔سکیورٹی اداروں نے جس طرح دو روز پہلے خود کش حملہ آوروں کا نیٹ ورک پکڑا تھا اسی طرح امید ہے کہ پشاور حملے میں ملوث افراد کو جلد پکڑ لیا جائے گا۔