وقت اس سے اور بڑھ کر کیا برا آنے کو ہے آسمانوں سے تو بس اب اک ندا آنے کو ہے راستے مشرق پہ سارے بند کس نے کر دیئے اور کہا مغرب سے اب تازہ ہوا آنے کو ہے اقبال کو یاد کرتے ہیں کہ اس نے کس امید سے کہا تھا‘ مشرق سے نکلے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ۔ ہمارا تو مگر قبلہ بھی مغرب بنا ہوا ہے۔ سورج کا مغرب سے نکلنا، چاہیے محاورے اور حقیقت کے خلاف ہے مگر ایسا ہی ہے کہ سورج وہی ہے جسے سلام کیا جائے۔ ہم بھی تو ماتھا ٹیک چکے ہیں۔ اب بات کالونی کے حقوق سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ جانتے ہیں سب کے سب پر مانتا کوئی نہیں۔ کون جانے کس گھڑی کیا فیصلہ آنے کو ہے۔ اب تو لکھتے ہوئے بھی ہاتھ جلتے ہیں کہ پٹرول جوکہ پہلے ہی رسائی میں نہیں تھا میں یک مشت 35 روپے فی لٹر مہنگا کر دیا گیا ہے۔ ستم ظریفوں نے یہ کیا کیا۔ کہتے ہیں محترمہ مریم نواز کی واپسی پر اسے سلامی دی گئی ہے۔ مہنگائی کے مارے ہوئے لوگوں کو خوبصورت چہرے بھی ڈرانے لگتے ہیں۔ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو کترینہ کیف بھی ڈائن لگتی ہے۔ پنج رکن اسلام دے تھے چھیواں ہے گاٹک جے نہ ہوئے چھیواں تے پنجے جانے مک پوچھنا ہے مجھے انقلابن سے کہ وہ تیر کہاں ہیں جو ایک روپیہ پٹرول بڑھنے پر آپ کے سینے میں لگتے تھے اور اس پر آپ کے والد گرامی آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ ہائے ہائے لگتا ہے کہ اب ان تلوں سے تیل نکالا جا چکا ہے ۔ غالب نے تو کہا تھا کہ یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں‘ مگر یہاں تو بے ادب لوگ ہیں کاش وہ ان کو سن سکیں۔ حصے میں جن کے آئے ہیں سارے مغلظات: گدا سمجھ کے وہ چپ تھا جو میری شامت آئی اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے ہائے ہائے اسلم کولسری نے کہا تھا۔ مجھ کو حالات نے مارا ہے مکمل کر کے۔ لوگ بری طرح زخمی ہوئے ہیں اور خدا نہ کرے کہ گھرائو جلائو شروع ہو جائے۔ مصلحت کو اٹھو خواب لٹے جاتے ہیں۔ زندہ رہنے کے بھی اسباب لٹے جاتے ہیں۔ اب کے تو سچ مچ لوگ رو پڑے ہیں کہ کدھر جائیں۔ سانسوں کا سلسلہ بحال رکھنا مشکل ہو گیا۔ آٹے کے لیے پیسے نہیں اور پیسہ ہے تو آٹا نہیں۔ اب تو عمران خان کا دور شدت سے یاد آنے لگا۔ تنخواہ دار تو سچ مچ جیتے جی مر گئے۔ تنخواہیں اور پنشن آدھی رہ گئی۔ لوگ جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دینے لگے مگر یہ اتنے ڈھیٹ ہیں کہ انہیں بد دعا بھی نہیں لگتی۔ یا پھر یہ ہماری سزا کے طور پرآئے ہیں۔ اب تو عمران خان کی باتیں غلط نہیں لگتیں کہ حکمرانوں نے عوام کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اب تو غریبوں کی اکثریت اسی خواہش کی حامل ہے کہ کسی طرح جو پاکستان نے ایٹم بم بنایا تھا وہ عوام پر گرا دیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ اس بات کو عمران خان کے بیان سے بھی جوڑا جا سکتا ہے کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ ان چوروں کو لانے سے بہتر تھا کہ قوم پر بم پھینک دیتے۔ حکومت پر شب خون مار کر آپ آ گئے اور گیارہ بارہ خون کے پیاسے دستر خوان پر آن بیٹھے۔ وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج موجیں مارنے لگی۔ آپ کو اس وقت بھی لگژری گاڑیاں منوا رہے ہیں۔ ہائے ہائے مجھے کیا ایک نوجوان شاعر ضیغم یاد آیا کہ جوانی میں چلتا بنا تھا: آنکھوں آنکھوں میں بات کرتا ہے چپ ہے میرا خطیب دانستہ کاشف حالت سے میری تنگ آ کر زہر دے دیں طبیب دانستہ چلتے چلتے میں اپنے پڑھنے والوں کو ضیغم کے دو سرائیکی شعر بھی پڑھا دوں اور یہ شعر خارج از امکان نہیں: آ کفن دی لیر وی حاضر ہئی آنگھ آر کا ہدا ڈر ہئی توں اجڑے کھیل تے آیا ہیں روکو کھا گیا درد ہجر ہئی قبلہ شہبازشریف اب تو لنگر خانے بند ہو چکے ہیں کہ آپ نے آس دلائی تھی کہ دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ آپ نے آتے ہی کشکول تھاما تھا اور نکل پڑے تھے در در بھیک مانگنے۔ آپ نے قوم کی عزت نفس بھی محروح کی۔ اب تو خیرات ہی کہیں نہیں لگاتے بلکہ کھاتے ہیں۔ زرداری کے پچھلے دور میں سیلاب زدگان کے لیے آئی ہوئی کھجوریں مارکیٹ میں بکی تھیں۔ اب بھی سیلاب زدگان کے لیے آئے ہوئے کمبل بک رہے ہیں۔ کسی نے درست کہا تھا کہ جتنا بڑا سیلاب اتنا بڑا پیکیج حکمرانوں کے لیے تو تھل کے مردہ بچوں کے درمیان بیٹھ کر بھی دعوتیں اڑاتے ہیں۔ ان دنوں ایک شعر خاصہ وائرل ہوا کہ اس سے کہنا ہم بیٹھے ہیں آگ لگائے۔ تو جناب ہماری یا آپ کی یہ خواہش بھی حکومت نے پوری کردی۔ پٹرول چھڑک دیا۔ واقعتاً اس سے کہنا پنچھی لوٹ آئے۔ ہم بیٹھے ہیں آگ لگائے۔ کہتے ہیں 6.5 شدت کا زلزلہ آیا۔ اسلام آباد سمیت جنوبی علاقہ ہل کر رہ گیا مگر پٹرول والا جھٹکا اس سے کہیں زیادہ شدت والا تھا۔ پوا پاکستان ہل گیا۔ اس کے اثر فوری تو یہی نکلے کہ ٹرانسپورٹرز نے دس فیصد کرائے بڑھا دیئے۔ اب ہو گا یہ کہ لوگ کہیں جاتے ہوئے سو بار سوچیں گے۔ کہیں آنا جانا تو سمجھو ختم ہوا۔ کون ہزار روپے کا پٹرول ڈلوا کر کسی کی خیریت پوچھنے جائے۔ لوگوں کی جان پر پڑی ہوئی ہے اور شوکت ترین اور اسحاق ڈار مناظرے کے چیلنج کر رہے ہیں۔ یہ منحوس لوگ اپنی چمڑی بچانے کے لیے عوام کا معاشی قتل کر رہے ہیں۔ کہتے نوازشریف یہ سن کر ہر اجلاس چھوڑ گئے ہیں۔ ہمیں مگر اس سے کیا۔ شاید یہ گرانی انہیں ملک میں آنے سے روکنے کے لیے ہے۔ خدا کی قسم یہ لوگ مل کر سب کچھ برباد کر رہے ہیں۔ اسمبلیوں سے استعفے پھر ان کی منظوری کے انداز اور اب عمران خان 33 نشستوں پر اکیلے امیدوار ہوں گے۔ الیکشن کے اخراجات اس مرتی اور تڑپتی ہوئی قوم کی جیب سے ہوں گے۔ اندیشہ ہے کہ خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے۔ آپ لوگوں کی اخیر کیوں دیکھ رہے ہیں۔ کیا ہم اب بھی کسی سچی آواز کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہیے کیا ہم بڑی برائی سے چھوٹی برائی کو چنتے رہیں گے۔ کیا ہم بھلائی اور اچھائی سے یکسر بے نیاز ہیں۔ : جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد پر طبیعت ادھر نہیں آئی