جماعت اسلامی کے انتخابی منشور کی تقریب ِرونمائی میں شریک تھا‘امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق کی صدارت میں منعقد ہونے والی یہ شاندار تقریب جس میں جماعت کے مرکزی قائدین کے علاوہ صوبائی اسمبلیوں کے امیدوار اور میڈیا نمائندگان موجود تھے،لاہور کے اہم نجی ہوٹل میں تین گھنٹے تک جاری رہی۔تقریب سے مرکزی قائدین اور امیر جماعت نے سیر حاصل خطاب کیا جو قابلِ توجہ بھی تھا اور قابلِ داد بھی۔میرے لیے یہ تقریب اس حوالے سے ضرور اہم تھی کہ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس نے ضمنی انتخابات سے قبل ایک بھرپور پلان دیا ‘ عوام اور میڈیا کے سامنے پورا روڈ میپ رکھا کہ اگر اُن کو قتدار ملتا ہے تو وہ کس طرح ملک کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں گے،اگر جماعت کو حکومت ملتی ہے اور وہ اس چودہ نکاتی ایجنڈے پر کامیابی سے عمل کر لیتی ہے تو یہ ایک انقلاب ہوگا کیوں کہ چودہ نکاتی ایجنڈے میں کئی نکتے بہت اہم ہیں۔ جماعت کے مطابق اگر انھیں حکومت ملتی ہے تو تمام سابق اور حاضر سروس ججز‘وزرائے اعظم‘کابینہ اراکین اور جرنیلوں سے لگثری گاڑیوں اور مفت پٹرول کی سہولت واپس لے لی جائے گی۔میں نے دورانِ تقریب جب یہ نکتہ دیکھا تو ساتھ بیٹھے محترم سجاد میر سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن ہے‘وہ مسکرا دیے اور اسی دن سے میرے دماغ میں یہ نکتہ گھوم رہا ہے‘یہ تو ایسا ہی نعرہ ہے جیسے عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کالگایا تھا۔میں یہاں تنقید نہیں کر رہا بلکہ یہ نکتہ میرے لیے حیران کن بھی تھا اور اہم بھی ‘میں سمجھتا ہوں کہ جماعت اسلامی قتدار میں آ کر صرف اس ایک نکتے پر ہی عمل کر گئی تو میں سمجھوں گا چودہ نکاتی ایجنڈا کامیاب ہو گیا۔ پاکستان کا جتنا بجٹ سابق اور حاضر سروس افسران‘کابینہ اراکین ‘ججزاور فوجی افسران کو مراعات دینے میں خرچ ہوتا ہے‘اس سے آدھا بھی غریب عوام پر خرچ ہوتا تو ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی۔پاکستانی ججز مراعات لینے میں دنیا بھر میں پہلے پانچ نمبرز پر ہے اور ہمارا انصاف کا پیمانہ اس قدر سست ہے کہ مدعی انصاف کا انتظار کرتے قبر میں پہنچ جاتا ہے‘ایسا کیوں ہے؟بیوروکریسی کا حال بھی ایساہی ہے‘سائلین کی فائلز دفتروں کے دھکے کھاتی کوڑے دان تک پہنچ جاتی ہے اور سائل سوال کرتا رہ جاتا ہے۔ سابق افسران سسٹم پر آج بھی ایسے ہی حاوی ہیں جیسے سروس کے دوران تھے۔ ایک اور نکتے نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروائی اور وہ تھا اردو زبان کو سرکاری زبان اور بنیادی تعلیم کا ذریعہ بنانا۔کیا یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان میں قومی زبان کاوقار بحال ہو سکے گا؟میرے خیال سے یہ بھی ناممکن پہلو ہے کیوں کہ اشرافیہ کو کسی صورت گوارا نہیں ہوگا کہ ان کا بچہ ایک مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس کے بچے کے ساتھ تعلیم پائے‘ یہی وجہ ہے کہ یہاں اردو کبھی سرکاری زبان نہیں بن سکی۔سی ایس ایس انگریزی میں ہوتا ہے‘ایک عرصے سے کوشش جاری ہے کہ اسے اردو میں کیا جائے مگر آج تک نہیں ہو سکا‘کیوں؟کیوں کہ اگر مقابلے کے امتحانات اردو میں بھی ہونے لگ جائیں تو مدارس سے فارغ التحصیل بھی بیوروکریسی میں آ جائیں گے اور یہ بات اشرافیہ کو ہضم نہیں ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ ایک عرصے سے اس ملک میں اردواور انگریزی میڈیم کا کھیل جاری ہے‘ایک حکومت آتی ہے اور سارا سسٹم اردو میڈیم کردیتی ہے‘اگلی حکومت آ کر اسے انگریزی میڈیم کر دیتی ہے اور اس پر فخر بھی محسوس کرتی ہے ۔جماعت اسلامی کے منشور میں یہ پہلو اچھا بھی لگا اور حیران کن بھی اور اگر جماعت اسلامی اردو کا نفاذ ممکن بنا لیتی ہے تو یہ بھی ایک انقلاب ہوگا ۔جماعت کے منشور کے مطابق ملکی اداروں میں سیاسی مداخلت بھی ختم ہوگی‘یہ اعلان عمران خان نے بھی کیاتھا مگر بری طرح ناکام ہوا لہٰذا یہ نکتہ بھی انتہائی توجہ طلب تھا‘جماعتی منشور کہتا ہے کہ وہ سرمایہ دار اور اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم کرکے سالانہ دو سو ارب بچائے گا اور یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے، مجموعی طور پر جماعت اسلامی کے منشوراچھا ہے اس سے بھی بڑھ کرکہ انھوں نے پہل کی اور ایک واضح روڈ میپ دیا۔ جماعت اسلامی نے جتنی بھی تحریکیں شروع کیں اور ماضی میں قوم سے جتنے بھی وعدے کیے‘ان پہ من و عن عمل کر نے کی کوشش کی اور بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے‘اس کی واضح مثالیںکراچی اور گوادر کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی تحریکیں ہیں۔جماعت اسلامی کا کراچی کو خوشحال بنانے کا منصوبہ ’’ویسٹ مینجمنٹ اتھارٹی‘‘بھی انتہائی اہم ہوگا کیونکہ کراچی کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور برسوں سے جاری عوامی استحصال روکنے کا واحد حل جماعت اسلامی ہے۔جماعت اسلامی کے انتخابی منشور کو دو سے تین مرتبہ پڑھا‘ہر پہلو انتہائی جاندار ہے ۔ پورا یقین ہے کہ اگر جماعت کو اقتدار ملا تو وہ اس چودہ نکاتی ایجنڈے کو کامیاب کرنے کے لیے ہر حد تک جائے گی۔جماعت کی شفافیت اور صداقت پر کسی صاحب نظر کو شک نہیں‘توشہ خانہ ہو یا وکی لیکس اوربیرون ملک جائیدادیں‘جماعت کا ہر رکن سرخرو ٹھہرا اور یہ حیران کن بات ہے۔کسی سیاسی جماعت کا اس قدر شفاف ہونا ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس جماعت کو کھل کر سپورٹ کرنا چاہیے جو موجودہ تباہی اور معاشی بدحالی میں بھی ملک کی سمت درست کرنے کا علم بلند کیے میدانِ عمل میں اتری ہے۔اس تقریب کے بعد سول سوسائٹی اور میڈیا نمائندگان نے امیر جماعت سے علیحدہ میٹنگ بھی کی‘مولانا سے گزارش کی کہ آپ ماڈریٹر کا کردار ادا کریں اور عمران خان‘ذرداری اور نواز شریف سے بات کریں‘انھیں قائل کریں کہ عوامی مفاد کی خاطر کسی ایک تاریخ پر متفق ہو جائیں اور پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوں تو ہی ملکی حالات ٹھیک ہو سکتے ہیں‘مولانا نے شوریٰ سے مشورے کا وقت مانگا۔اسی کمیٹی نے عمران خان سے بھی ملاقات کی اور ان سے بھی گزارش کی کہ آپ ملکی مفاد کی خاطر ضد اور انا چھوڑ دیں‘ خوشی ہے عمران خان نے حامی بھری کے این آر او کے علاوہ وہ ہر نکتے پر بیٹھنے کو تیار ہیں۔