جنرل باجوہ جانے کیا سوچ کے صحافیوں کے ساتھ اس بے تکلفی کا اظہار کر رہے ہیں اور نہ جانے کیوں وہ سب باتیں کہہ رہے ہیں جو ان کی پوزیشن کو واضح کرنے کی بجائے مزید متنازع بنا رہی ہیں۔ یا تو وہ بہت سادہ ہیں یا بہت بے پروا۔ اگر وہ یہ سب باتیں یہ سوچ کے کر رہے ہیں کہ یہ باتیں شائع نہیں ہوں گی تو وہ بہت سادہ ہیں ، اور اگر اسی نیت سے کر رہے ہیں کہ ہر بات عوام تک پہنچے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے وہ کیا حاصل کر رہے ہیں؟کیا انہیں احساس ہے کہ وہ اپنے علاوہ بھی کئی لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ کئی باتوں کی وضاحت کرتے ہوئے جنرل باجوہ ان موضوعات کو مزید گھمبیر بنا رہے ہیں جو پہلے ہی الجھے ہوئے ہیں۔ کئی باتوں پہ اظہار خیال کرتے ہوئے وہ بے خیالی میں اعتراف جرم کر رہے ہیں اور کہیں غیر ارادی طور پر اپنے ادارے پر چارج شیٹ لگا رہے ہیں۔ زیادہ بولنے سے ان کی باتوں میں کئی تضادات سامنے آ رہے ہیں۔ جانے وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ مثلا ایک طرف کہتے ہیں کہ نواز شریف کو نا اہل کرانے میں ان کا کوئی کردار نہیں،یہ سپریم کورٹ کے ججز نے خود کیا ہو گا۔ دوسری طرف کہتے ہیں کہ جنرل عاصم منیر کو میں نے یو اے ای بھیجا وہ وہاں سے اقامہ لے کر آئے ۔اسی اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف کو نا اہل کیا گیا۔ ایک طرف جنرل باجوہ نوازشریف کو کرپٹ بھی سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انہوں نے ایک بس کمپنی سے پانچ ملین ڈالر رشوت لے کرلندن کے فلیٹ خریدے ۔ دوسری طرف وہ شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف کے لیے کرپشن چھپانے کے مشورے بھی دیتے رہے۔فرمایا نواز شریف کو چاہیے تھا کہہ دیتے فلیٹ میرے والد نے خریدے اور بچوں کو دے دیے ۔ اس طرح ان پر ثبوتوں کا بوجھ نہ آتا۔گویا جنرل باجوہ کے نزدیک کرپشن کوئی بری بات نہیں تھی،تبھی وہ اسے چھپانے کا طریقہ شاہد خاقان عباسی کو سمجھا رہے تھے۔ ایک طرف جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو انہوں نے نا اہل نہیں کرایا ۔ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف اپنی ایمانداری پر فوج کا ٹھپہ لگوانا چاہتے تھے جو اس لیے ممکن نہیں تھا کہ اگر نواز شریف بری ہو جاتے تو سارا ملبہ فوج پر گرتا۔ تو کیا فوج کو بچانے کے لیے جنرل باجوہ نے نواز شریف کو الزامات سے بری نہیں ہونے دیا؟ کیاجنرل باجوہ کی ان باتوں میں تضادات عیاں نہیں ہیں؟ ایک طرف جنرل باجوہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو نا اہل کرانے میں ان کا کردار نہیں تھا۔ دوسری طرف فرماتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں مدد مانگنے کے لیے سلمان شہباز ان سے ملنے آئے تھے مگر جنرل باجوہ نے ان سے کہا اگر مدد چاہیے تو پہلے اپنی باجی (مریم نواز) کو سنبھالیں جس نے ڈان لیکس والی ٹویٹ پہ ایسی تیسی پھیر دی ہے۔ گویا جنرل باجوہ سپریم کورٹ میں مدد کر سکتے تھے لیکن اس غصے میں نہیں کی کہ مریم نواز ان کی ایسی تیسی پھیر رہی تھیں ۔ یہ بات جنرل باجوہ شاہد میتلا کے علاوہ کچھ اور صحافیوں کے ساتھ ہونے والی آف دی ریکارڈ گفتگو میں بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ نواز شریف کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے ڈان لیکس پر کی گئی سخت ٹویٹ واپس لی تھی لیکن پھر مریم نواز کے میڈیا سیل نے ان پر چڑھائی کر دی جس کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب صلح کی کوئی گنجائش نہیں اور نواز شریف کو جانا ہو گا۔ جنرل باجوہ اکثر اوقات کئی چیزوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالتے نظر آتے ہیں ۔ مثلا صحافیوں کے ساتھ ہونے والی ایک سے زیادہ نشستوں میں وہ کہہ چکے ہیںکہ ’’جنرل آصف غفور نے ریجیکٹڈ والی ٹویٹ خود سے کر دی، جب میں جہاز سے اترا اور مجھے پتہ چلا تو میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا‘‘۔ حیرت ہوتی ہے اتنی سخت ٹویٹ جنرل آصف غفور نے خود کیسے کر دی۔ مگر ساتھ ہی جنرل باجوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے یہ ضرور کہا تھا کہ ان سے کہیں پورا نوٹیفیکشن جاری کریں مگر ریجیکٹڈ کا لفظ استعمال کرنے کے لیے نہیں کہا تھا۔ جنرل باجوہ اکثر امور کی ذمہ داری جنرل فیض پہ ڈالتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔نواز شریف کو نا اہل کرانے والی بات پہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے نہیں کیا ، جنرل فیض نے کیا ہو گا۔مگر دوسری طرف وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک وقت میں ہم سب انصافی تھے ہم پہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کا بھوت سوار تھا۔ اب جنرل باجوہ سے سوال کیا جانا چاہیے کہ آپ کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے کہ کسے اقتدار میں لانا ہے کسے نکالنا ہے۔ قوم کو کون سانیا چہرہ چاہیے ، کونسا نہیں چاہیے۔ اور پھر جسے لایا اس کے ناکام ہونے کا فیصلہ خود کیسے کر لیا ، عوام پہ کیوں نہیں چھوڑا۔جنرل باجوہ اپنی آن دی ریکارڈ یا آف دی ریکارڈ گفتگو میں یہ تاثر پیدا کر رہے ہیں کہ اس ملک کے اہم سیاسی فیصلے فوج کی مرضی سے ہوتے ہیں اور انہیں یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار بھی نہیں۔ وہ غیرارادی طور پہ یہ اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ وہ سیاست دانوں کو اہل یا نا اہل کرنے کے لیے چالیں چلتے ہیں اور ان کی اپنی عناتیں بھی ہوتی ہیں جس کی بنیاد پہ فیصلے کیے جاتے ہیں۔ جنرل باجوہ نے برملا اس بات کا بھی اظہار کیا کہ انہوں نے نواز شریف کے جنرل مشرف کے خلاف اقدامات کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ گویا جنرل باجوہ کو آئین توڑنے کے اقدام سے کوئی مسئلہ نہیں ۔گویا ان کے لیے آئین مقدم نہیں اپنا چیف مقدم ہے، چیف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ جنرل باجوہ نہ جانے کیا سوچ کے بولتے چلے جا رہے ہیں ، شاید وہ عمران خان کو نیچا دکھانے اور اپنی پوزیشن واضح کرنے کی کوشش میں لگے ہیں۔لیکن صرف عمران خان ہی نہیں ن لیگ کو بھی آئینہ دکھا کے حساب کتاب برابر کرنے میں لگے ہیں ۔جنرل باجوہ کی ان باتوں سے ایک بات تو کھل کے سامنے آ گئی ہے کہ سیاست کے کھیل میں وہ اور ان کے کچھ ساتھی پوری طرح متحرک تھے۔ وہی خود کو کنگ میکر سمجھتے تھے اور ضدی سیاستدانوں کو انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی انہوں نے اپنے ہی سر لے رکھی تھی۔ اب پتہ نہیں آج پالیسی بدلی ہے یا نہیں۔