خاموش سیاہ رات‘ ضمیر کے سوداگروں میں گِھری قوم, خواہشات‘ توقعات اور خوابوں کے سرسبز و شاداب میدان تباہ حال جبکہ الفاظ کو معنی دینے کی جستجو بے آبرو‘ ایسی کیفیات سے دوچار قوموں اور ریاستوں کا حشر کیا مختلف ہوا کرتا ہے؟ جیسے حالات نے ہمیں اپنی مٹھی میں جکڑ رکھا ہے‘ ستم اس پر یہ کہ جرات رند کے رسیا آواز حق بلند کرنے کے نقارہ سے محروم ہیں‘ جس کا جو کام ہے وہ اسے ادا کرنے کی بجائے تنقید کے نشتر چلانے کے سوا کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ معاشرے کے عکاس البتہ حقیقی تصویر کشی کرنے سے قاصر کردئیے گئے‘ انہیں آواز بلند کرنے نہیں دی جاتی‘ جو کرسکیں انہیں عبرت کا نشان بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی جاتی۔ فکر معاش نے اس قوم کی ترقی کو ناپید کردیا۔ بابائے قوم محترم محمد علی جناح ؒ کو قیام پاکستان کے چند ماہ بعد جس فکر نے آن گھیرا تھا‘ اس قوم کے ساتھ یہ سازش ہوئی اور مسلسل ہوئی‘ کیا آج کے حکمرانوں کا وطیرہ اس سے جدا ہے؟ عرصہ ہوا قوم اپنی منزل کا خواب دیکھنا چھوڑ چکی‘ نوجوان محرومی کو اپنا مقدر تصور کر بیٹھے۔ سیاست‘ صحافت کسی میدان میں کوئی ایسا نہ اٹھ سکا جو امید سحر کے جذبے کو از سر نو اجاگر کرتا‘ آجا کر ہمارے مقدر میں اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ ہنگام کے چرچے ہیں‘ اس ملک کا سب سے بڑا رونا جھوٹ اور سچ میں تفریق ہے۔ چند روز ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کے فرزند اور پیپلز پارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی برسی پر گرجے برسے! کاش بلاول سوچتے اور سمجھ لیتے: ان کی والدہ اور نانا کی سیاسی جدو جہد کیا تھی؟ بلاول کو دیکھتے ہی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کتاب میں درج ان کی وہ کیفیت سامنے آجاتی ہے‘ جب انہوں نے بلاول کو اپنی بہن کے پاس بیٹی بختاور کیساتھ چھوڑ دیا تھا‘ محترمہ کو روز خواب میں بلاول کے رونے کے مناظر نظر آتے‘ وہ اپنی ہمشیرہ سے دریافت کرتیں لیکن جواب نفی میں آتا‘ ایک روز سیاست کے سوداگروں کے الزامات اور نفرت کو ٹھوکر مار کر ماں اپنے بچوں سے ملاقات کے لئے لندن پہنچ گئیں‘ انہیں اپنی بہن کے گھر کے باہر ہی بلاول کے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ بلاول کو دیکھ کر یہ باتیں بھی یاد آتی ہیں:جب محترمہ بینظیر بھٹو انہیں اپنی ہمشیرہ کے گھر دوبارہ چھوڑ کر آرہی تھیں تو وہ سکول کے یونیفارم میں چھوٹا سا بچہ سسکیاں لیتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے باندھ کر دیوار سے چمٹ کر کھڑا ہے اور ٹکٹکی باندھ کر حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہے‘ مجھے محترمہ کی کتاب کے وہ اوراق بھی یاد آتے ہیں‘ جب وہ المرتضی کراچی میں محصور ہو کر سیاست کی ورق گردانی میں مصروف ہوتیں‘ وہ سیاست کو جمہوریت کی جدو جہد کیلئے آزمانے کی پلاننگ کررہی ہوتیں‘ مجھے وہ محترمہ بینظیر بھٹو بھی یاد آتی ہیں جو پولیس ٹریننگ سنٹر میں اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کے ساتھ قید بے گناہی کاٹ رہیں تھیں‘انہیں مصدقہ خبر مل گئی کہ جناب بھٹو کو کل تختہ دار پر لٹکا دیا جائیگا‘ وہ اپنی ایک دوست اور کسی کا انتظار کرتی رہیں‘ ساری رات دیوار کو دیکھتے گزرگئی کہ کوئی ملاقات کیلئے آئیگا اور وہ عوام کو پیغام پہنچائیں گی‘ ملک میں لوگ سڑکوں پر آجائیں گے اور ایک فوجی ڈکٹیٹر‘ طالع آزما کو عوامی لیڈر کو موت کے گھاٹ اتارنے سے رکنا ہوگا‘ مجھے وہ محترمہ بینظیر بھٹو یاد آئیں جو یہ کہتی تھیں کہ طاقت کا سرچشمہ آج بھی عوام ہے‘ ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک انسان تھے‘ ان سے کئی سیاسی غلطیاں سرزرد ہوئیں‘ میجر جنرل سکندر مرزا سے لیکر ایوب خان کے وزیر خزانہ تک انکا سیاسی کردار قابل تحسین نہیں مگر انہوں نے بعد ازاں ملک کے عوام کو حقوق دلوانے کیلئے اپنی جان کا نذرانہ بھی پیش کیا‘ افسوس صد افسوس بلاول اپنی والدہ اور پیپلز پارٹی کے بانی کے سیاسی فلسفہ کو نا سمجھ سکے‘ وہ محض وزارت خارجہ کی ایک کرسی اور آئندہ وزیر اعظم بننے کی ہوس میں سیاسی میرٹ کو فراموش کرگئے‘ انہیں کیا علم نہیں: عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کیسے ہوا ہے؟ سائفر کو اگر بلاول نہیں مانتے تو ملک کے موجودہ تمام سیاستدانوں کو نہیں ماننا چاہیے‘ ذوالفقار علی بھٹو امریکہ کی عالمی اجارہ داری کا شکار ہوئے تھے‘ وہ پاکستان کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی تگ و دو میں مصروف عمل تھے‘ وہ پاکستان کو ایٹمی ریاست بنانے جارہے تھے‘ رفیع رضا سے انکی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں جو گفتگو ہوئی‘ انہیں جس قسم کے خطرات سے آگاہ کیا گیا‘ کیا بلاول ان حقائق سے آگاہ نہیں؟ کیا بلاول کو علم نہیں کہ ان کی والدہ کی زندگی کو خطرہ تھا لیکن اس کے باوجود وہ عوام میں آئیں‘ پاکستان واپس لوٹیں‘ اب جبکہ عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا‘ بلاول اس صورتحال کو سمجھنے سے کیا قاصر ہیں؟ بلاول نے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور الزام عائد کیا کہ وہ ملک میں ایک مرتبہ پھر میرے عزیز ہم وطنوں کی صدا سننا چاہتے ہیں‘ اس کے ساتھ ساتھ بلاول نے سابق سپہ سالار کی طرف سے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا کریڈٹ جمہوریت بہترین انتقام ہے کے اپنی والدہ کے نعرے کو دہرایا۔ بلاول سب سے پہلے تو سمجھ لیں: فی الوقت جمہوریت کا سب سے بڑا دفاع تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کررہے ہیں‘ جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ اس فلسفے کو عمران خان نے درست ثابت کردکھایا ہے کیونکہ تمام تر ریاستی ہتھکنڈے انہی کیخلاف اور ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں کے خلاف استعمال کئے جارہے ہیں‘ سابق سپہ سالار کو عمران خان کنفرنٹ کررہے ہیں‘ بلاول اس پی ڈی ایم میں شامل ہیں جنہیں اداروں کی آشیر باد حاصل ہے‘ وہ انہی کی مدد سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروا کر اقتدار سے چمٹے بیٹھے ہیں‘ ملک کا وہ حشر کردیا گیا کہ اس کی نظیر 75سالہ تاریخ میں نہیں ملتی‘ بلاول پہلے سمجھیں:انہیں اقتدار عزیز ہے یا اپنے آبا کے سیاسی نظریات؟ ٭٭٭٭٭