Common frontend top

سول سروس اکیڈمی

جمعرات 27 دسمبر 2018ء





ان مقدمات میں رکھا ہی کیا ہے کہ روز ان پر لکھا جائے۔ بس ایک بار کہہ دیا کہ ہماری تاریخ میں ایک اور نازک موڑ آن پہنچا ہے کافی ہے۔ کسی کی جیت یا شکست کا سوال نہیں ہے‘ بلکہ ان ممکنات کا خوف ہے جو اس سیاست بازی سے جنم لے سکتے ہیں۔ اس لئے خیال تھا کہ آج کوئی ڈھنگ کی بات کی جائے۔ خورشید ندیم کی کتاب سرہانے دھری ہے اور کئی دن سے اس پر لکھنا چاہتا ہوں۔ روز اس پر کوئی نہ کوئی کالم آ جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ احساس زندہ رہتا ہے کہ مجھے کچھ اور لکھنا ہے۔ تحسین فراقی کا ایک خطبہ صدارت ہے جس پر بوجوہ لکھنے کا ارادہ ہے۔ دونوں کام ملتوی ہوتے جا رہے ہیں۔ آج صبح ٹیلیویژن دیکھا تو یاد آیا کہ آج منیر نیازی اور پروین شاکر کا یوم وفات ہے۔ دونوں کے ادبی مرتبے کے علاوہ دونوں میں سے الگ الگ ذاتی تعلقات کے بہت کچھ یاد دلایا دیا۔ سوچا سیاست چھوڑو۔ آج اس پر بات ہو جائے مگر یہ بھول گیا کہ کل یوم قائد اعظم بھی تھا اور آج مجھے سول سروس اکیڈمی میں قائد کے حوالے سے گفتگو کرنے جانا ہے۔ لاہور آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ میں سروس کے اس مقتدر ادارے یا انتظامی تعلیم کے کسی بھی ریاستی ادارے میں جا رہا تھا۔ وگرنہ کراچی میں تو جو واحد ادارہ نیپا ہے‘ اس میں برسوں تک سال میں دو چار بار ضرور جانا ہوتا تھا۔ آخری تقریر جو مجھے یاد ہے اس میں پروفیسر عبدالغفور اور رضا ربانی کے علاوہ میں تیسرا مقرر تھا جب کہ جنرل مختار احمد ڈائریکٹر جنرل تھے۔ خیر ابھی ابھی اس تقریب سے لوٹا ہوں جہاں جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال اور حافظ شفیق ساتھی تھے۔ یہ گویا ان لوگوں کا اجتماع تھا جن لوگوں نے اس ملک کا مستقبل سنبھالنا ہے اور وہ قائد اعظم کے حوالے سے کچھ بات کرنا چاہتے تھے۔ اس بات کی خوشی ہوئی کہ اب اس شعبے میں لڑکیاں بھی خاصی تعداد میں شامل ہونے لگی ہیں۔ یہاں آ کر مجھے بہت سی باتیں اور بھی یاد آنے لگیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جب ہماری سول سروسز میں ایک مشترکہ و مربوط (integrated)پروگرام کا آغاز ہوا۔یعنی انتخاب و انٹرویو کے بعد جب مستقبل کے افسروں کا انتخاب ہوتا تو انہیں محکمے بانٹنے کے بجائے پہلے انہیں چھ ماہ اکٹھے تربیت دی جائے گی اور آج اس کا 46واں گروپ زیر تربیت ہے۔ اب یہ فوج کی طرح خود کو گروپ نمبر سے یاد کرتے ہیں۔ یہ گروپ گویا 46کومن(Comman)ہے ۔یاد مجھے یہ آیا کہ یہ نظام جب رائج ہوا تو بھٹو صاحب نے اس کام کے لئے اپنے ایک سینئرآفیسر کی ڈیوٹی لگائی۔ یہ افسر اس وقت سول سروس اکیڈیمی کے سربراہ تھے۔ حسن حبیب ان کا نام تھا۔ ان دنوں اکیڈمی کو کراچی کے دو نوجوان اساتذہ کی خدمات بھی حاصل تھیں۔ دونوں مرے دوست تھے ۔دونوں بعد میں اسلام آباد انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صدر (وائس چانسلر) ہوئے۔ ایک تو ڈاکٹر ممتاز احمد جن سے مرا رشتہ بھائیوں سے بھی زیادہ تھا اور جن کے بارے میں پروفیسر شریف المجاہد کہتے ہیں کہ وہ اس شعبے کے حوالے سے دنیا بھر میں نمبر ایک اتھارٹی ہیں۔ دوسرے ڈاکٹر انوار الحق صدیقی جو انتظامی میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں۔ حسن حبیب نے اپنے ان دونوں ہونہار نوجوانوں کو اس کام پر مامور کیا۔ اب یہ الگ کہانی ہے کہ ان سفارشات کے نتیجے میں جو اصلاحات کی گئیں۔ ان کا کیسے حلیہ بگاڑا گیا۔ بس سول سروس اکیڈمی کے بارے میں یہ یادیں اچانک آ گئیں تو سنا ڈالیں۔ اس وقت اس اکیڈمی کے تربیتی پروگرام کے سربراہ ذوالفقار یونس ہیں جن سے مختصر ملاقات بڑی کارآمد رہی۔ بہت سے نوجوان بالخصوص لڑکیوں نے جس پیشہ وارانہ مہارت سے رابطہ رکھا اس نے یقین دلایا کہ ان کی تربیت عمدہ انداز میں ہو رہی ہے۔ نام تو یاد نہیں آ رہے‘ صرف مریم ممتاز ایک نام یاد ہے جس نے مسلسل رابطہ رکھا۔ جانے آج میں کس موڈ میں ہوں۔ اکیڈمی کے خوبصورت ہال میں بڑے سلیقے کے ساتھ ساری کارروائی ہوئی۔ پہلا ہی سوال مزے کا تھا۔ پوچھا گیا کہ آپ کس طرح یہ کہیں گے کہ تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے پاکستان کو نظریہ پاکستان کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہ گویا مرے جیسے نظریہ پاکستان کے بیل کو سرخ کمبل دکھانے کے مترادف تھا۔ اس محفل کا آخری سوال حاضرین سے آیا جو یوں تو خاصا لمبا تھا مگر اس کے خلاف خاکہ عائشہ جلال نامی ایک خاتون مورخ نے قائد کی طرف سے 1946ء میں کی کیبنٹ مشن پلان کو منظور کرنے کا مطلب یہ نکالا ہے کہ قائد اعظم قیام پاکستان کے بارے میں یک سو نہ تھے‘ وگرنہ یہ بات کیوں مان لیتے۔ خیر اس کا جواب تو بہت سے لوگوں نے بہت عمدہ دے رکھا ہے مگر میرے لئے یہ تو سرخ کمبل دکھانے کے مترادف تھا۔ بدقسمتی کہہ لیجیے یا خوش قسمتی‘ بس ویسے بھی موصوفہ کا زیادہ قائل نہیںہوں۔ پھر یہ کوئی اوریجنل خیال بھی نہیں۔ انڈین مورخین اس پر بہت لکھ چکے ہیں بلکہ بھارت کے ایک سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ تو یہ سب لکھنے کی وجہ سے خاصی تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ وہ بیچارے تو یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ کانگرس کے قائدین نہرو‘ پٹیل وغیرہ ناسمجھ ۔ انہوں نے یہ سکیم نہ مان کر غلطی کی ہے جبکہ ہمارے مورخ جانتے ہیں کہ قائد نے یہ تجویز اس لئے تسلیم کر لی تھی کہ اس کا مطلب بالآخر پاکستان کو تسلیم کرنا تھا یعنی دس سال تک یہ عارضی بندوبست ہوتا‘ پھر چاہے ریفرنڈم کرا کر ان منطقوں کو الگ الگ کر لیا جاتا۔ یہ پاکستان کی بنیاد رکھنے کے مترادف تھا۔پھر بھی قائد جانتے تھے کہ کانگریس اس کو بھی تسلیم نہ کرے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ سوالات میں کچھ باتیں ایسی بھی پوشیدہ تھیں کہ قائد مذہب کے بارے میں یک سو نہ تھے۔ وہ میں ابتدا میں بتا چکا تھا کہ قائد کا ذہن کیا تھا۔ جس شخص نے زندگی بھر سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا‘ اس کے بارے میں آپ کیسے کہتے ہیں سیکولر تھے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے قائد کی وفات کے بعد دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ اورنگزیب کے بعد ہماری تاریخ نے کوئی دوسرا مسلمان ایسا پیدا نہیں کیا جیسا ہمارے قائد اعظم تھے ۔پھر ہمارے قائد کے بارے میں ہمارے اقبال کہتے ہیں کہ و ترکش ماراخدنگ آخریں۔ یعنی میری کمان کا آخری تیر تھا جو میں نے چلا دیا۔درمیان میں کچھ ذکر ٹیپو سلطان کابھی کیا جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ اگر 1799ء میں بحیرہ روم کی موجوں میں تیونس کا فرانسیسی بیڑا شکست نہ کھاتا اور ٹیپو سلطان کو سرنگا پٹم میں ہار نہ ہوتی آج پوری دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ارے بھئی میں چھوٹتے ہی آخری سوال پر جا پہنچا وہ شاید اس لئے کہ ان سب باتوں کے قلابے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ آغاز تو اس بات سے تھا کہ آیا پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والے یہ جانتے تھے کہ وہ نظریہ پاکستان کے لئے کام کر رہے ہیں۔ عرض کیا پاکستان بننے سے پہلے نظریہ پاکستان نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ اس وقت ہم دو قومی نظریے کا لفظ استعمال کرتے تھے۔اور اسلام کا نام لیتے تھے۔ یعنی مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں۔ اس پر قائد اعظم کے بہت خوبصورت دلائل ہیں۔ ہماری تہذیب الگ‘ ان کی الگ ‘ ہمارا کیلنڈر الگ‘ ان کا الگ‘ ہمارے ہیرو ان کا ولن‘ وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں ہم اسے کھاتے ہیں۔ ایک لمبی بحث ہے کہ ہم دو الگ تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لئے ہم الگ ہیں۔ پھر یہ کہ قائد اعظم سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہو گا تو انہوں نے صاف کہا کہ یہ چودہ سو سال پہلے طے کر دیا گیا ہے انہوں نے لندن میں ’لنکن ان‘ میں صرف اس لئے داخلہ لیا کہ وہاں دنیا میں قانون دہندہ افراد کی جو فہرست درج تھی۔ ان میں سب سے اول حضور نبی کریم ؐ کا نام تھا۔ ایک لمبی فہرست تھی جو اس غرض سے گنوائی جا سکتی ہے اور گنوائی گئی۔پھر اقبال سے ان کا تعلق یہ تک کہہ دینا کہ اگر سلطنت اور اقبال کے کلام میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ اقبال کے کلام کا انتخاب کریں گے۔ یہ بھی عرض کیا کہ ملکوں کی بنیاد کس چیز پر ہوتی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم والے ہنٹگٹن کی اس کتاب کا حوالہ دیا کہ قوموں کے لئے بنیادی چیزیں کیا ہوتی ہیں۔ نظریہ بانیاں قوم کے نظریات وغیرہ وغیرہ یا ان کا کلچر۔ جیسے امریکہ کے لئے تو (WASP)کہتا ہے یعنی (وائٹ اینگلو سیکسن پروٹسٹنٹ)ہمارے بانیان جس نظریے پر متفق تھے اس سے عام شخص بھی واقف تھا۔ وہ نعرہ لگاتا تھا۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ یہ بحث تو پاکستان بننے کے بعد شروع ہوئی کہ دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جائے۔ ویسے یہ نام پنجاب اسمبلی میں پہلی بار اس جماعت کے لیڈروں نے دیا جو بائیں بازو کے نظریات کے نام پر مسلم لیگ سے کٹ کر وجود میں آئی تھی۔ غالباً آزاد پاکستان پارٹی۔ میاں افتخار الدین‘ سردار شوکت حیات اس میں شامل تھے۔ اس میں مذہب کے لفظ سے جان چھوٹ جاتی تھی مگر مسلمانان پاکستان نے پھر بھی اس لفظ کا وہی مطلب لیا جو ہونا چاہیے تھا۔ گفتگو لمبی ہو گئی۔ خلاصہ بہرحال یہ تھا ہم نے میثاق مدینہ اور 14اگست 47ء کی تقریر پر بھی گفتگو کی یہ بھی بتایا کہ اس تقریر میں سول سروس کے لئے کیا ہدایات ہیں۔ اس پر الگ سے بھی گفتگو ہوئی کہ ہمارے قائد آپ سے کیا توقع رکھتے تھے اور اگر ہم اس ملک میں قائد کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اور ہمارا دل ریاست مدینہ کا اسلامی فلاحی نظام ہے تو اس کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ موقع ہوتا تو میں اور بہت کچھ عرض کرتا‘ مگر فی الحال اسی پر اکتفا کیجیے۔ 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں