نہ میں یوں در بدر پھرتا نہ تم خود کو سزا دیتے یہ اچھا تھا کہ ہم دونوں زمانے کو بھلا دیتے بہت اچھا ہوا محفل میں رسوائی نہ ہو پائی خوشی سے رو ہی پڑتے ہم اگر تم مسکرا دیتے اس سے پہلے کہ ہم کوئی رومانس کی بات کریں کہ جہاں بہم مشورے ہو رہے ہیں‘ہم کوئی بہت ہی اہم اور چٹ پٹی بات اپنے قارئین سے شیئر کریں گے۔ وہ بات ہمیں ہضم بھی نہیں ہو رہی اور بیان کرنی بھی اتنی آسان نہیں۔وہ سیف الدین سیف والی بات کہ اظہار بھی مشکل ہے کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ مجبور ہیں اف اللہ چپ رہ بھی نہیں سکتے۔ ویسے تو وہ پروگرام بہت وائرل ہوا جس میں اویس نورانی نے تھرڈیزThree DSکی بات کی اور انہوں نے ڈی کو ڈی کوڈ کیا تو پتہ چلا یہ ڈی فار ڈنکی ہے یعنی گدھا۔ گویا دنیا کے تین گدھوں کی بات کی۔ ایک تو اپنے ٹرمپ صاحب اور دوسرے دو آپ رہنے ہی دیں کہ کچھ تو ہمسایوں کے حقوق ہیں اور کچھ اپنے پردہ نشیں کا بھی نام آ جائے گا۔ ہمارا اعتراض تو اس تبصرے پر یہ ہے کہ آپ گدھے کو تضحیک کا استعارہ کیوں سمجھتے ہیں۔ کیا گدھے کا یہ قصور ہے کہ وہ کام کرنے والا اور بوجھ اٹھانے والا سیدھا سادا جانور ہے۔ مغرب میں تو وہ کچھ عزت پاتا ہے کہ محنت کی علامت ہے اس لئے وہاں انتخابی نشان بھی ہے، پتہ نہیں ہم کیوں اتنے بے رحم ہیں کہ اچھے خاصے شریف آدمی کو جو معصوم اور سیدھا سادا ہو تو اسے گدھا سمجھتے ہی نہیں کہہ بھی دیتے ہیں میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ ایک شخص ہر کسی کو بات بات پر گدھا کہتا تھا۔ جس سے بھی ٹکراتا اسے گدھا کہتا۔ ایک دن وہ سچ مچ ایک گدھے سے ٹکرا گیا۔ دیکھا تو سامنے سچ مچ کا گدھا تھاوہ گدھے سے کہنے لگا ’’بھائی جان اب آپ کو میں کیا کہوں؟اس باپ بیٹے کا قصہ بھی تو آپ نے پڑھ رکھا ہو گا کہ جو گدھے پر بیٹھے تھے لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کی تھیں کہ گدھے پر ظلم ہو رہا ہے آخر میں دونوں باپ بیٹے نے گدھے کو اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ ایک شعر یاد آ گیا کہ اس تناظر میں دور کی کوڑی ہو گا: ٹوٹا ہے دل کا آئینہ اپنی نگاہ سے اب کیا شکست ذات کے اسباب دیکھنا پتہ نہیں اویس نورانی گدھوں کا ذکر کیوں لے بیٹھے کہ سیاست میں تو گھوڑوں کا ذکر خیر زیادہ رہا ہے۔ یہ Horse Tradingباقاعدہ سیاست کی اصطلاح ہے۔ کب سے گھوڑے بکتے آئے ہیں۔ ن لیگ کے دور میں تو ان کو چھانگا مانگا میں بھی باندھا گیا تھا۔ یہ گھوڑے اصل میں لوٹے ہی ہوتے ہیں کہ کبھی کسی کے استعمال میں چلے گئے تو کبھی کسی کے۔مجھے یاد آیا کہ زرداری صاحب کے گھوڑے تو بقول دشمنوں کے مربعے اور زعفران وغیرہ کھاتے رہے ہیں۔ مجھے بے نظیر بھی یاد آئیں کہ جنہوں نے اسمبلی میں احتجاج بلند کیا تھا کہ انہیں وہ گھوڑا لا کر دکھایا جائے جو مربع کھاتا ہے۔ کسی نے کہا تھا وہ گھر پر ہے۔ خیر اب تو گھوڑوں اور گدھوں کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ تفنن طبع ایک طرف صورت حال سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے سراج الحق کی بات سچ ہے اور یہ اکثریت جانتی بھی ہے کہ جسے حق و باطل یا کفر و اسلام کی جنگ بنانے چلے ہیں اور جس سے پسپائی کو گناہ کبیرہ کہا جا رہا ہے اصل میں اقتدار ہی کی جنگ ہے۔ فرق یہ پڑا کہ بٹیرا اس مرتبہ کسی اور کے پائوں تلے آ گیا۔ایک واضح فرق یہ کہ عمران خاں سے لوگوں نے ناجائز توقعات باندھ لی تھیں کہ انہوںنے اپنی کرز میٹلک شخصیت سے لوگوں کو اعتبار ہی اتنا دلا دیا تھا۔ بڑے بڑے دھوکہ کھا گئے اور پھر ہر وہ کام کرے گئے جس کی بنیاد پر وہ دوسری جماعتوں پر لعن طعن کیا کرتے تھے۔ کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ ہو سکا۔ نہ وہ کرپشن ختم کر سکے اور نہ کرپشن کرنے والوں کا کچھ بگاڑ سکے بلکہ اپنے ساتھیوں کی کرپشن پر چشم پوشی کر دنیا کی نظر میں آ گئے۔ انصاف تو انصاف ہوتا ہے۔ زبانیں کاٹی تو جا سکتی ہیں روکی نہیں جا سکتیں۔ اویس نورانی نے یہی تو سوال اٹھائے تھے کہ مہنگائی کرنے میں خان صاحب کی پالیسیوں کا عمل دخل ہے۔ سوال اتنے زور دار تھے کہ علی محمد کو پروگرام سے واک آئوٹ کرنا پڑ گیا: تم ہی اگر نہ سن سکے قصہ غم، سنے گا کون کس کی زبان کھلے گی پھر ہم نہ اگر سنا سکے سراج الحق نے غلط نہیں کہا کہ آپ نے تو دعویٰ کیا تھا کہ اگر آپ کے خلاف لوگ نکل آئے تو آپ مستعفی ہو جائیں گے۔ کاش!عمران خاں کچھ تھوڑا سا ہی ریلیف بے چارے غریب عوام کو دے دیتے۔ مگر کہاں؟لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا۔ لوگ کاروبار چھوڑ گئے کہ دکانوں کا کرایہ کہاں سے دیں۔ سرکاری ملازموں کی تنخواہیں مہنگائی کے باعث سکڑ گئیں اور ان کی تنخواہیں بجٹ میں بھی نہیں بڑھیں۔ یہ سب موجودہ حکومت کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔ سچ مچ ایک بے برکتی سی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ آپ کے پاس اب کہنے کو کچھ ہے نہ دکھانے کو کوئی کارکردگی ہے اس لیے لوگوں کو کورونا سے ڈرا رہے ہیں۔علامہ خادم رضوی کے جنازہ سے ہی آپ کو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ جذبوں کے سامنے یہ کوئی تھریٹ نہیں۔ آپ کوئی سیاسی حل نکالنے کی بجائے مکمل لاک ڈائون کی دھمکی دے رہے ہیں۔ عوام آپ کا ساتھ دینے کی پوزیشن میں ہوتی اگر آپ نے ان کو خوشی دی ہوتی ایک غیر یقینی صورت حال ہے۔ فواد چودھری نے دلچسپ بات کی ہے کہ اپوزیشن 2کلو گوشت کے لئے پوری گائے ذبح کرنا چاہتی ہے!ویسے زندہ اور کھڑی گائے سے تو صرف دودھ ہی لیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اگر گائے کا موڈ ہو۔ویسے دودھ تو آپ کافی پی چکے۔ آپ نے میجی ملک کا ڈبہ تو دیکھا ہو گا۔ چلیے یہ پیار کی بات نہیں۔ ویسے کورونا کے حوالے سے آپ کی بات کا ضرور اثر ہوتا اگر آپ نے گلگت بلتستان میں خود ریلیاں اور جلسے نہ کئے ہوتے : اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ جس دیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا