لاہور(کامرس رپورٹر) پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ذکا اشرف نے کہا ہے کہ کسی قسم کی سیاست سے تعلق نہیں ، شوگر ملز کو مزید تباہی سے بچایاجائے ، فوری مسائل حل کئے جائیں،حکومت اگر شوگر انڈسٹری کے معاملات کو کنٹرول میں لینا چاہتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ، ہمیں ہماری لاگت ادا کر دی جائے ۔ انہوں نے شوگرملز مالکان کے خلاف مقدمات اور گرفتاریوں کی مذمت کی ہے ۔ چیئرمین پنجاب چودھری محمد اسلم، چودھری وحید اور سیکرٹری جنرل حسن اقبال اور دیگر ملز مالکان اور عہدیداروں کے ہمراہ مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہتے ، ہم حکومت سے مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ ہماری شوگر انڈسٹری میں 80 کاروباری گروپس ہیں جو سب صنعتکار ہیں اور ان کا کسی قسم کی سیاست سے تعلق نہیں ۔ ہم نے لاتعداد طریقوں سے حکومت کے اعلیٰ حکام سے بھی ملنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک ہمیں وہاں سے وقت نہیں ملا مگر ہم اس پر کوشش جاری رکھیں گے ۔ مجبوراََ ہم نے محسوس کیا کہ اپنی گزارشات میڈیا کے ذریعے حکومت تک پہنچائیں کیو نکہ ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں رہ گیا۔ مزید کہا کہ اس سال گنّے کے کاشتکاروں کو نہایت ہی اچھی قیمت وقت پرادا کی گئی جس کی وجہ سے آج گنّے کی پیداوار 10-15 فیصد بڑ ھی اور یہ شوگر انڈسٹری کی زیادہ قیمت دینے کی وجہ سے بڑھی ہے ۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے 200 روپے فی 40 کلوگرام مقر ر تھی اور سیزن کے دوران فی 40 کلوگرام 375 روپے تک بھی قیمت ادا کی گئی۔ اس طرح اوسطََ قیمت فی 40 کلوگرام 270 روپے آتی ہے جو کہ حکومت کے مقرر کردہ نرخ سے 75 روپے فی من زیادہ ہے ۔ بنیادی طور پر گنّا چینی کا خام مال ہے اور ایک کلو چینی میں 80 فیصد cost of production کا حصہ ہے اور باقی 20 فیصد میں مزدور کی بنیادی تنخواہ، ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات، بینکو ں کی ادائیگیاں، آئل اینڈ لبریکنٹس وغیرہ شامل ہیں۔ جب پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوا تو اسی طرح چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ اگر گنّا مہنگا ہو گا تو چینی بھی مہنگی بنے گی۔ دوسرے عوامل جو اشیاء خورونوش میں آتے ہیں ان میں چینی کی نسبت کئی گنا زیادہ اضافہ ہوا۔ اس طرح چینی کی پیداواری لاگت 104 روپے فی کلو تک جا پہنچی جبکہ حکومت نے چینی کی قیمت 84.75 مقرر کر رکھی ہے ۔ اس سے ملوں کو شدید مالی بحران اور دیگر سنگین مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور آج بھی شوگر انڈسٹری انھی عوامل سے نبردآزما ہے ۔ مقامی سستی چینی جو کہ تمام ٹیکسزدے کر مارکیٹ میں 95 سے 100 روپے فی کلوگرام فروخت کی جارہی ہے جبکہ باہر کی چینی کو ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے کر امپورٹ کیا جا رہا ہے اور پھر یہ چینی 125-130 تک مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہے اور حکومت اس پر فی کلو گرام 24 روپے سبسڈی بھی دے رہی ہے ۔ پچھلے سال کرشنگ سیزن وقت سے پہلے آغاز کر نے کی وجہ سے چینی کی پیداوار میں 3 لاکھ ٹن کی کمی واقع ہوئی جس کی وجہ سے ملک کو چینی کی درآمد پر 200 ملین ڈالر ا ضافی خر چ کرنے پڑے ۔ اس سال وہی قوتیں دوبارہ میدان میں آ کر پچھلے سال کی سازشوں کو دہرانا چاہتی ہیں۔ اس سے چینی کی پیداوار میں کمی ہو گی اور حکومت کے درآمدی بل پر زرمبادلہ کے مزید بو جھ پڑے گا۔ چینی کی قیمتیں بھی بڑھیں گی اور عوام کو تکالیف سے دوچار ہونا پڑے گی۔ حکومتی اہلکار سوشل میڈیا پر کاشتکاروں کو گُڑ بنانے کی ترغیبات دے رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ گُڑ ایک غیر رجسٹرڈ صنعت ہے جس پر کسی قسم کاکوئی ٹیکس عائد نہیں ہوتا اور اس کی کثیر مقدار پڑوسی ممالک کو سمگل کی جاتی ہے ۔ صرف صوبہ خیبر پختونخوامیں ڈیڑھ لاکھ ٹن گُڑ بنایا جاتا ہے ۔ یہ عمل سمگلنگ میں معاونت کے مترادف ہے ۔ شوگر انڈسٹری جو کہ 1200 ارب روپے کی لاگت سے لگائی گئی ہے وہ تمام تر حکومتی ٹیکس ادا کرنے اور رجسٹرڈ معیشت کا ایک بہترین نمونہ ہے اس کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ دو سال حکومت کی اجازت سے چینی ایکسپورٹ کی گئی جس سے ملک کو کثیر زرِمبادلہ حاصل ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دوسری صنعتوں کی طرح چینی ایکسپورٹ کی پذیر ائی ہوتی لیکن شوگر ملوں کے خلاف سرکاری اداروں نے جارحانہ کاروائیاں شروع کر دیں جو آج تک جاری ہیں۔ اور ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن کا حقیقت سے کو ئی تعلق نہیں ہے ۔ مزید کہا کہ مسابقتی کمیشن پاکستان نے حال ہی میں شوگر انڈسٹری پر 44 اَرب کا جرمانہ کیاہے جو کہ ملکی تاریخ میں کسی صنعت کو ہونے والے سے جرمانے سے زیادہ ہے ۔ یہ رقم اس قدر زیادہ ہے کہ مل مالکان اور ان کے شیئر ہولڈر اس سے سخت پریشان ہیں۔ قوانین میں تبدیلی کر کے شوگر ملوں پر کرشنگ سیزن کا آغاز نہ کر نے پر یومیہ 50 لاکھ روپے جرمانے کی شِق شامل کر دی گئی ہے ۔ صنعت کار کا ٰ یہ ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے کہ اس نے اپنی صنعت کو کب چلاناہے اور کب بند کر نا ہے ۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) نے پچھلے 5 سالوں کے کیسز بغیرکسی قانونی جواز، طریقہ کار اور قرعہ اندازی کے بغیر کھولے ہیں جو کہ منتقی طور پر فیصلہ شدہ تھے ۔ اس وقت حکومتِ پنجاب شوگر ملوں کو کسانوں کو تمام تر ادائیگیوں کے باوجود این او سی دینے سے گریزاں ہے اور جس کی وجہ سے بنک ملوں کو ورکنگ کیپیٹل دینے پر اعتراض کر رہے ہیں۔ اگربینکوں سے بروقت ورکنگ کیپیٹل نہ مل سکاتو کاشت کاروں کو گّنے کی وقت پر ادائیگی کرنا بہت مشکل ہے اس طرح کسانوں کو 15 دن کے اندرادائیگی نہ کرنے پر فوجداری مقدمات درج کرنے کی شِق بھی شامل کر دی گئی ہے ۔ اگر اس سال بھی کچے گنّے کو کَر ش کروایاگیا تو اُس سے چینی کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی ہو گی اور حکومت کو ایک بار پھر بیرون ملک سے کثیر زرِمبادلہ خرچ کر کے چینی درآمد کرنی پڑے گی جس کی قیمت مقامی چینی سے 25 سے 30 فیصد زیادہ ہو گی۔ اس سے بیرونِ ملک کاشتکاروں اور صنعت کو ضرور فائدہ ہو گا لیکن ہمارے اپنے ملک میں حکومت ٹیکسوں سے محروم رہے گی اور کاشتکار بھی گنّے کی بہترین قیمت سے محروم رہیں گے ۔ ذکا اشرف نے کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شوگر ملز کو مزید تباہی سے بچایاجائے او ر فوری طور پر ان مسائل کو حل کیا جائے تا کہ شوگر ملز سے جڑے لاکھوں خاندانوں کا روزگار بچایاجاسکے ۔ پنجا ب کے چیئرمین چودھری محمد اسلم نے کہا کہ گنا سستا ملے گا تو چینی بھی سستی ہو گی، شوگر ملز مالکان حکومت کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن کے رکن محمد رفیق نے کہا کہ گورنمنٹ نے تین لاکھ ٹن امپورٹ کرنا ہے ، ڈیڑھ لاکھ ٹن کچھ دنوں میں پہنچے گی،جنوری سے لے کر ستمبر تک یوٹیلیٹی سٹورز پر چینی پر 18 ارب کی سبسڈی دی ، جو جہاز آ رہے ہیں اس پر 45 روپے سبسڈی دینا چاہتے ہیں، تین سال قبل ملز کو صرف اڑھائی ارب سبسڈی دی تھی جس پر بہت شور مچا۔ چودھری وحید نے کہا کہ جب گنا سستا تھا، چینی سستی تھی،ہر مل کو بنک سے قرض نہیں ملتا، حکومت شوگر ملز کو بند کر دے ، ہمیں اعتراض نہیں ، حکومتی نمائندے جو مرضی تقریریں کریں، تقریر کرنا آسان ہے ۔ لاہور(نمائندہ خصوصی سے )پنجاب حکومت نے قانون کی خلاف ورزی میں ملوث شوگر ملوں کیخلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے چنار شوگر ملز فیصل آباد،شکر گنج شوگر ملز جھنگ اورپسرور شوگر ملز گوجرانوالہ کے مالکان اور انتظامیہ کیخلاف مقدمات درج کر لئے ۔ مالک چنار شوگر ملز جاوید کیانی، شکر گنج شوگر ملز کے مالک پرویز احمد، جنرل منیجر کین منظور حسین ملک اور جنرل منیجر ایڈمن حسین ملک کوگرفتار کر لیا گیا جبکہ پسرور شوگر ملز کے مالکان کی گرفتاری کیلئے پولیس چھاپے مار رہی ہے ۔چیف سیکرٹری پنجاب کامران علی افضل نے کہا کہ قانون شکنی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی مقررہ سے زائد قیمت پر فروخت کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے گی اور ایکس مل قیمت 84.75 اورریٹیل 89.75روپے فی کلو گرام سے زائد پر فروخت کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی۔دریں اثنا وزیراعلی پنجاب کے معاون خصوصی برائے اطلاعات اور حکومت پنجاب کے ترجمان حسّان خاورنے کہا ہے کہ حکومت نے قانون کی خلاف ورزی کرنے والی شوگر ملوں اور دکانداروں کے خلاف سخت ترین کارروائی شروع کر دی ،کسی کو بلیک مارکیٹنگ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔