بظاہر کھنچائو رک گیا ہے‘ لیکن آئندہ دنوں میں زیادہ جارحانہ طور پر تیز ہو جائے گا۔یہ اس ٹیلیگرام کا حصہ ہے جو سوویت یونین کے رہنما خرو شیف (64-1953) نے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو کیوبا کے میزائل بحران کے عروج پر بھیجا تھا: مسٹر صدر‘ ہمیں اور آپ کو اب اس رسی کے سروں کو نہیں کھینچنا چاہیے جس میں آپ نے جنگ کی گرہ باندھی ہے۔کیونکہ ہم دونوں جتنا زیادہ کھینچیں گے یہ گرہ اتنی ہی مضبوط ہو گی اور ایک لمحہ ایسا بھی آ سکتا ہے کہ یہ گرہ اس قدر مضبوط ہو جائے گی کہ باندھنے والے میں بھی اسے کھولنے کی طاقت نہ رہے گی اور بالآخر اسے کاٹنا پڑے گا۔میں آپ کو سمجھانا نہیں چاہتا‘کیونکہ آپ خود بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک کن خوفناک قوتوں کو ٹھکانے لگاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں اگر اس گرہ کو مضبوط کرنے اور اس طرح دنیا کو تھرمو نیو کلیئر جنگ کی تباہی سے دوچار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے تو آئیے نہ صرف رسی کے سروں سے کھنچائو کم کریں بلکہ اس گرہ کو کھولنے کے اقدامات کریں۔ہم اس کے لئے تیار ہیں۔‘‘ یہ بیان پاکستان میں حالیہ سیاسی بحران کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔رسی کے ایک سرے پہ اپوزیشن جماعتیں ہیں اور دوسرے پہ تحریک انصاف ہے۔دونوں 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد سے ہی رسی پر تنائو بڑھا رہے تھے۔کشمکش کا آغاز اس وقت ہوا جب بلاول بھٹو نے 2018ء میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے دوران عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کیا۔جنوری 2022ء تک کھیل تیز ہو گیا۔اس کے بعد سے رسی کو دونوں سروں سے کھینچا جا رہا ہے اور گرہ مضبوط ہوتی چلی جا رہی ہے۔رسی کی گرہ عوام کی گردن پر لپٹ چکی ہے اور دونوں فریق اگر اسے کھینچتے رہے تو جلد ہی عوام کا دم گھٹ جائے گا۔لیکن اس کھینچا تانی کے ختم ہونے کے آثار ہیں کہ نظر ہی نہیں آرہے ۔خرو شیف کی طرح کوئی بھی یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہے ہم اس کے لئے تیار ہیں۔یعنی اس صورتحال سے باہر نکلنے کے لئے۔سپریم کورٹ کی مداخلت سے ایک امید پیدا ہوئی لیکن اس کا مختصر حکم بہت سے سوشل میڈیا کارکنوں کے مطابق تمام مقابلہ کرنے والی جماعتوں کو آگے بڑھنے کا قابل قبول راستہ فراہم کرنے میں ناکام رہا۔مثال کے طور پر بہت سے لوگوں کے لئے بلاول بھٹو اور شہباز شریف کو سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر 1کے اندر روسٹرم پر مدعو کرنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے ۔ کچھ نے آرٹیکل A 63پر سماعت کی تاخیر کو بھی کچھ لوگوں نے شک کی نگاہ سے دیکھا۔یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ 5اپریل کو ایک انگریزی اخبار نے رپورٹ کیا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مختلف قانونی رکاوٹوں اور طریقہ کار کے چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے تین ماہ کے اندر عام انتخابات کرانے سے اپنی نااہلی کا اظہار کیا۔اگلے دن ای سی پی نے دو سطری وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس نے انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔7اپریل کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل ای سی پی نے ایک بیان جاری کیا جس میں 90دنوں کے اندر عام انتخابات کرانے سے عاجزی کا اظہار کیا گیا۔ای سی پی نے منظر عام پر آ کر اخباری کہانی کو درست ثابت کیا۔تانے بانے جڑتے ہوئے دکھائے دیتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ ایک انتخابی مبصر گروپ نے بھی 4اپریل کو ایسا ہی بیان جاری کیا تھا۔اس کے بیان میں کہا گیا ہے قبل از وقت انتخابات کے انعقاد کے لئے متعدد آئینی قانونی اور آپریشنل چیلنجز موجود ہیں بیان میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے فوری فیصلے کی امید کا اظہار بھی کیا گیا ہے کیونکہ کسی بھی تاخیر سے آئینی تعطل سے پیدا ہونے والے باہمی مسائل کو جنم دیتا رہے گا۔ ایک انگریزی روزنامے میں چھپنے والے اس وقت کی اپوزیشن جماعتوں کے اس بیان پر غور کریںاپوزیشن جماعتیں موجودہ سیاسی صورتحال سے نمٹنے والے ایک مقدمے کی سپریم کورٹ میں طویل سماعت سے بیتاب نظر آتی ہیں اور یہ اس سے ظاہر ہوتا ہے منگل کو حزب اختلاف کے متعدد رہنمائوں کے جاری کردہ بیانات پریس کانفرنسوں اور ٹویٹس کا لب و لہجہ اخباری بیانات کی ایک سیریز میں حزب اختلاف کے رہنمائوں نے نہ صرف عدالت عظمیٰ پر دبائو بڑھایا کہ وہ اس کیس کا جلد از جلد فیصلہ کرے۔بلکہ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ عدلیہ نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گی۔ 5اپریل کو ایک پرانے دوست اور وزیر اعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی نے مجھے ایک بیان بھیجا جسے توثیق کے لئے گردش میں لایا جانا تھا۔اس میں پہلے ہی میرے سمیت 150نام شامل تھے۔میں نے بیان پڑھا اور اسے حقائق کے منافی اور تعصب پر مبنی پایا۔مثال کے طور پر بیان میں لکھا تھا کہ پاکستان کے آئین کو سبکدوش ہونیوالی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ آئین کو منسوخ نہیں کیا گیا اور دوسری بات یہ کہ اگرچہ پی ٹی آئی کی حکومت کی پوزیشن نازک ہو چکی تھی لیکن اس کے نتائج کے بارے میں کسی کو یقین نہیں تھا۔میں نے اسی کی طرف اشارہ کیا اور جواب میں اس دوست نے کہا کہ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔میں نے کچھ لوگوں کے ساتھ اعتراض کیا کہ ان کے نام بغیر بیان کے دستخط کنندگان کے طور پر شامل کئے گئے ہیں۔مجھے تحریری طور پر بتایا گیا کہ میرا نام میری طرف سے معذرت کرنے پر ہٹا دیا گیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب میں نے اس حوالے سے مزید تحقیق کی تو مجھے یہ جواب ملا یہ ایک لمبی کہانی ہے باری‘ آپ اندازہ لگائیں 24گھنٹوں کے اندر بیان چیف جسٹس آفس پہنچ جاتا ہے اور میڈیا اسے نشر کر دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ مصنفین ایسی غلطیاں کیسے کر سکتے ہیں اور مستقبل کی پیشین گوئی کر سکتے ہیں؟دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بیان مبینہ طور پر گولی کی طرح سپریم کورٹ تک پہنچتا ہے اور میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر شائع کر دیا جاتا ہے۔کیا یہ محض اتفاقات کا سلسلہ تھا یا اسکرپٹ کا حصہ؟میں اسے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ اپنے نتائج اخذ کریں۔تاہم جب میں ان تمام نقطوں کو جوڑتا ہوں تو مجھے ان میں ایک پراسرار ہم آہنگی ملتی ہے تاہم یہ میرے لئے بہت سے دوسرے پاکستانیوں کیلئے بھی خواہ وہ اندرون یا بیرون ملک مقیم ہوں انتہائی افسوسناک ہے۔ میں ذاتی طور پر اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ دانشوروں اور سول سوسائٹی کو اخلاقیات کی بنیاد پر اور اپنے نظریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پوزیشن لینی چاہیے۔تاہم جب رسی کھینچنے سے انسانیت کے لئے تباہی اور موت کا خطرہ ہو تو انہیں کسی بھی ایک فریق کی طرف داری میں محتاط رہنا چاہیے اگرچہ بظاہر یہ کھینچا تانی فی الحال رک گئی ہے‘لیکن آئندہ دنوں میں اس کے اور بھی جارحانہ طور پر تیز ہونے کا امکان ہے۔میں حیران ہوں کہ دونوں فریقین میں سے خرو شیف کا کام کون کرے گا!