سیاسی رہنماؤں، ان کے سیاسی جھگڑوں اور بیانات پر بات کرنے کے بجائے ان سماجی و اقتصادی حرکیات کا جائزہ لینا ضروری ہے جو ہمارے سیاسی طبقے کے رویے کا تعین کرتی رہی ہیں۔ مثال کے طور پر: ہماری آزادی کے بعد کی قیادت 23 سال تک عام انتخابات کرانے پر کیوں راضی نہیں ہو سکی؟ وہ صوبائی انتخابات میں ہمیشہ صریح دھاندلی اور وفاداریاں کیوں بدلتی تھی؟ کچھ مورخین نے ان سوالات کو سول ملٹری تعلقات یا پھر شخصیت کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ دوسروں نے ہماری اشرافیہ کی سیاست کو محض سیاسی زاویے سے دیکھا۔ عوامی پالیسی یا طبقاتی نقطہ نظر سے بہت کم تجزیے ہوتے ہیں۔ آزادی کے پہلے 10 برسوں میں ہمارے آٹھ وزرائے اعظم تھے۔ شاید یہ ایک عالمی ریکارڈ تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو ہر جگہ نہیں بلکہ ہمارے ملک میں ضرور دہراتی ہے۔ 2002 اور 2018 کے دوران، ہمارے پاس 10 برسوں میں ایک بار پھر آٹھ وزرائے اعظم تھے۔ کیا ہمارے پاس اس رجحان کا کوئی سنجیدہ تجزیہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ ایوب مخالف تحریک کے نتیجے میں 1970 میں عام انتخابات ہوئے، جو اب بھی 'واحد' آزادانہ اور منصفانہ انتخابات سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود فاتح کو اقتدار سونپنے سے انکار کر دیا گیا، حقیقی طور پر منتخب جماعت عوامی لیگ کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا جس نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی راہ ہموار کی۔ اسٹیبلشمنٹکچھ سیاسی جماعتون کی مکمل حمایت کے بغیر ایسا کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی۔ اس دھچکے نے ہماری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواریوں کو یہ سبق سکھایا کہ مطلوبہ نتائج صرف پیشگی منصوبہ بندی سے حاصل کیے جاسکتے ہیں، یعنی دھاندلی اور صرف دھاندلی۔ بھٹو نے 1973 میں بلوچستان کی ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا اور وہاں تقریباً 70,000 فوجی بھیجے، جس نے ایک طویل شورش کو جنم دیا اورتقریباً 3000 فوجیوں اور 8000 بلوچوں کی جانیں چلی گئیں۔ نتیجے کے طور پر، ہمارے پاس ایک کمزور وفاق لیکن ایک مضبوط مرکز تھا، جس نے بالآخر بھٹو کے اپنے زوال کی راہ ہموار کی۔ مختصر یہ کہ تمام سیاسی جماعتیں جو 1970 کے الیکشن میں اپنے اپنے علاقوں سے جیتی تھیں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے ایک دوسرے کو ختم کر دیا۔ مثال کے طور پر،-78 1977 میں بلوچ اور پختون قوم پرست، 1970-77 میں بھٹو، 1970-71، 1977-88 اور پھر 2002-08 میں مذہبی جماعتوں نے اپنے ساتھی سیاست دانوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کیا۔ نواز شریف مارشل لا ء کی پیداوار ہیں۔ انہیں1980 کے بعد سے چار بار ترقی دی گئی، لاڈ پیار کیا گیا اور خیر باد کہہ دیا۔ سیاسی لیڈروں میں اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ وہ معافی مانگیں۔ اس کے برعکس وہ ڈٹھائی سے اپنے بچوں کو ہم پر حکومت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ پچھلے سال میں نے اپنے شہر اولیاء میں بیچاری آصفہ بھٹو زرداری کے سیاسی آغاز کو نہایت صدمے سے دیکھا۔ ایک دوست نے سوال کیا کہ پاکستان جمہوریت ہے یا بادشاہت؟ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ زیادہ تر جائیداد رکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے اپنے بچوں کو اپنی پارٹیوں کی قیادت کے لیے تیار کیا۔جن لوگوں نے بدعنوانی کے ذریعے دولت اکٹھی کی وہ انتخابات میں دھاندلی، مخالفین اور ان کے حواریوں کو قتل کرنے یا انتخابی نتائج کو مسترد کرنے سے نہیں ہچکچاتے،چاہے وہ منصفانہ اور آزادانہ طور پر منعقد ہوں۔ اور غالباً وہ لیڈر جنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں دولت نہیں اکٹھی کی اور نہ ہی انکے پاس کوئی جائیداد تھی وہ اپنے بچوں کو سیاسی وارث کے طور پر سامنے نہیں لا سکے۔ اس حوالے سے تاریخ مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح، گاندھی، نیلسن منڈیلا، ماؤ، ہو چی من، لینن اور اسٹالن ایسے ہی سیاسی راہنما تھے۔ 1977 اور 1985 کے بغیر پارٹی کے انتخابات سمیت تقریباً تمام انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ آج کے بہت سے سرکردہ سیاسی راہنما اسی گھناونے کھیل کی پیداوار ہیں۔ چونکہ فہرست بہت طویل ہے اور جگہ محدود ہے، میں اسے قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ خود اندازہ لگا لیں۔ جنرل ضیاء کے فضائی قتل کے بعد 1988 سے 1999 کے درمیان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر اپنی مرضی سے اسٹیبلشمنٹ کی دھن پر رقص کیااور اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی۔ تاہم ایک بہتری دیکھنے میں آئی۔ وزیر اعظم کی اوسط مدت-58 1947 میں 1.25 سال سے-99 1988میں 2.5 سال ہو گئی۔اس گھناؤنے کھیل نے نہ صرف پہلے سے طاقتور اسٹیبلشمنٹ کو مزید بااختیار بنایا بلکہ سیاسی طبقے پر عوام کا اعتماد بھی ختم کر دیا۔ لیکن سیاسی قیادت کو اس پر نہ تو ندامت تھی اور نہ ہی فکر۔ انہوں نے نہ تو اپنی روش تبدیل کی اور نہ ہی رویہ۔ اس کے بعد سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) قومی اور صوبائی سطح پر پانچ بار داغدار انتخابات جیت چکی ہیں۔ چھوٹی جماعتیں جیسا کہ جماعتِ اسلامی، جمعیت علماء اسلام ف، عوامی نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، ایم ایم اے وغیرہ سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ ہر الیکشن ان کے مقدر کے ستارے کو نئی بلندیوں تک لے جاتا اور انکی دولت کے انبار میں اضافہ۔ جب بھی وہ ’جیتیں‘ ان کے قائدین اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسی طرح وہ جب بھی ہارے، انہیں معلوم تھا کہ ان کی شکست کے پیچھے کون ہے۔ مختصر یہ کہ نہ تو ان کی فتوحات حقیقی تھیں اور نہ ہی شکست۔ ماضی کی طرح اپوزیشن جماعتیں اب بھی سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔ سینیٹ میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے حمزہ پنجاب اسمبلی میں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں انہیں حصہ بقدر جثہ ملا ہوا ہے۔ ماضی میں اپوزیشن جماعتوں پر ہمیشہ زبردستی کی گئی اور ان کے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ جوابی کارروائی میں وہ احتجاجی ریلیاں نکالتے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار کا تختہ الٹنے کی کامیاب سازش کر تیں۔ لگتا ہے کہ اب یہ کھیل اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭